مرتبہ: ادیبہ شہزادی

سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ

سلطان الہند حضرت خواجہ سید محمد معین الدین چشتی اجمیری ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کے بانی ہیں۔ آپ قطب الدین بختیار کاکی، بابا فریدالدین گنج شکر اور نظام الدین اولیاء جیسے عظیم الشان پیران طریقت کے مرشد ہیں۔ غریبوں کی بندہ پروری کرنے کے عوض عوام نے آپ کو غریب نواز کا لقب دیا جو آج بھی زبان زد عام ہے۔

آپ 14 رجب المرجب 536 ھ بمطابق 1141 عیسوی بروز پیر کو جنوبی ایران کے علاقے سیستان آپ ایران میں خراسان کے نزدیک سنجر نامی گائوں کے ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے بچپن میں آپ کا نام حسن تھا۔ آپ کے والد کا نام خواجہ غیاث الدین حسین جو نسبی طور پر امام حسین کے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور والدہ کا نام نامی بی بی ماہ نور تھا اور ان کا نسب امام حسن سے جاملتا ہے۔ الغرض آپ کے والد اور والدہ دونوں سید گھرانے کے چشم و چراغ تھے اور خواجہ معین الدین کا شجرہ عالیہ بارہ واسطوں سے حضرت مولا علی شیر خدا سے جاملتا ہے۔

آپ کی عمر مبارک 15 سال تھی جب آپ کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ان لمحات میں آپ کی والدہ نے استقامت کا ثبوت دیا اور آپ کو حوصلے کے ساتھ سمجھایا اور فرمایا:

فرزند! زندگی کے سفر میں ہر مسافر کو تنہائی کی اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے اگر تم ابھی سے اپنی تکلیفوں کا ماتم کرنے بیٹھ گئے تو زندگی کے دشوار گزار راستے کیسے طے کرو گے تمہارے والد کا ایک خواب تھا کہ ان کا بیٹا علم و فضل میں کمال حاصل کرے چنانچہ تمہیں اپنی تمام تر صلاحیتیں تعلیم کے حصول کے لیے ہی صرف کردینی چاہئیں۔ مادر گرامی کی تسلیوں سے حضرت خواجہ معین الدین کی حالت سنبھل گئی اور آپ زیادہ شوق سے علم حاصل کرنے لگے مگر یہ سکون عارضی تھا اور ایک سال بعد ہی آپ کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ والدہ گرامی کی وفات پر ایک باغ اور ایک آٹا پیسنے والی چکی آپ کو ورثے میں ملی۔ اس کے بعد آپ نے باغبانی کا پیشہ اختیار کیا۔ تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔ ایک دن خواہ معین الدین چشتی اپنے باغ میں درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ ادھر سے مشہور بزرگ ابراہیم قندوزی کا گزر ہوا۔ آپ نے ان کو دیکھا تو دوڑتے ہوئے پاس گئے اور ان بزرگ کے ہاتھوں پر بوسہ دیا اور ابراہیم قندوزی اس نوجوان کی عقیدت سے متاثر ہوئے اور دعائیہ کلمات کہہ کر آگے جانے لگے تو آپ نے ان کا دامن تھام لیا اور ان بزرگ یعنی حضرت ابراہیم قندوزی سے پوچھا: اے نوجوان! آپ کیا چاہتے ہیں؟ خواجہ معین الدین چشتی نے عرض کی کہ آپ چند لمحے اور میرے باغ میں قیام فرمایئے۔ کون جانتا ہے کہ یہ سعادت مجھے دوبارہ نصیب ہوگی کہ نہیں۔ آپ سے انکار نہ ہوسکا اور آپ باغ میں بیٹھ گئے پھر چند لمحوں بعد انگوروں سے بھرے ہوئے دو طباق معین الدین نے ابراہیم قندوزی کے سامنے رکھ دیئے اور خود دست بستہ کھڑے ہوگئے۔ ابراہیم قندوزی نے اپنے پیرہن میں ہاتھ ڈال کر جیب سے روٹی کا ایک خشک ٹکڑا نکال کر معین الدین کی طرف بڑھایا اور فرمایا:

’’وہ تیری مہمان نوازی تھی یہ فقیر کی دعوت ہے‘‘۔ اس ٹکڑے کا حلق سے نیچے اترنا ہی تھا کہ معین الدین چشتی کی دنیا ہی بدل گئی۔ آپ کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے کائنات کی ہر شے بے معنی ہے۔ آپ کو تصوف میں اعلیٰ مقام حاصل ہوا اور ہندوستان کو آپ نے اسلام کا قلعہ بنادیا اور آپ کی وفات رجب 633ھ/ 15 مارچ 1236 عیسوی ضلع اجمیر، راجھستان بھارت میں مدفون ہیں۔

(سائرہ مجید۔ لاہور)

اقوال حضرت علی علیہ السلام

  • کوئی دولت عقل سے زیادہ نفع بخش نہیں۔
  • کوئی شرف تقویٰ سے بڑھ کر نہیں۔
  • کوئی شرافت حسن خلق سے بڑی نہیں۔
  • کوئی عزت معلم کی عزت کے ہم پایہ نہیں۔
  • کوئی عبادت فرائض کی بجا آوری کے برابر نہیں۔
  • کوئی تجارت عمل صالح کے مساوی نہیں۔
  • کوئی میراث ادب کے ہم پلہ نہیں۔
  • کوئی شرف علم کے برابر نہیں۔
  • ایمان کی کوئی حالتِ حیا اور صبر کے ہم درجہ نہیں۔
  • باہمی مشاورت سے بڑھ کر مضبوط سہارا کوئی نہیں۔
  • وہم کا کوئی علاج اس کے برابر نہیں کہ آدمی شبہ والی چیز سے منہ موڑ لے۔

شوگر (Diabetes)

شوگر بہت ہی عام بیماری ہوچکی ہے۔ اس کا علاج پرہیز ہے۔ پرہیز سے مریض اس پر بآسانی قابو پاسکتا ہے۔ یہ مرض بچپن میں نہیں ہوتا اکثر یہ مرض 25 یا 30 برس کی عمر کے بعد ہوتا ہے۔ عورتیں مردوں کی نسبت اس مرض میں کم مبتلا ہوتے ہیں۔ اکثر یہ مرض موروثی بھی ہوتا ہے۔ شیریں اشیاء اور نشاستہ دار غذائیں کثرت سے کھانا اور ورزش نہ کرنا۔ بہت زیادہ دماغی کام کرنا فکرو غم زیادہ کرنا۔

علامت مرض

شروع میں مریض کو پیشاب زیادہ آتا ہے اور پیاس زیادہ لگتی ہے۔ منہ خشک رہتا ہے، منہ میں مٹھاس رہتی ہے، سانس سے ایک خاص قسم کی بو آتی ہے۔ بھوک زیادہ لگتی ہے کھانا کھانے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ کچھ نہیں کھایا، مزاج چڑ چڑا ہوجاتا ہے۔ معمولی سی بات پر غصہ آجاتا ہے سر میں چکر آتے ہیں یا درد رہتا ہے۔

جب یہ مرض نوجوانوں کو ہو جن کی عمر 40 سال سے کم ہو تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ بوڑھے لوگوں کو زیادہ نقصان نہیں پہنچاتا۔ جتنا جوان لوگوں کو ہوتا ہے۔

ضروری ہدایات

اس مرض میں غذا کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ شیریں اور نشاستہ دار غذائوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔ مریض کو روٹی کم کھانی چاہئے۔ موٹے آتے کی روٹی یا جو کی روٹی استعمال کرنی چاہئے۔ مریض کو خوش رہنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

(ڈاکٹر نوشابہ حمید۔ لاہور)