آثارِ قلم: ’فلسفہ حج‘ شیخ الاسلام کی علمی، تحقیقی کتاب

مرتبہ: ماریہ عروج

کتاب کا عنوان:

زیر مطالعہ کتاب کا عنوان فلسفہ حج ہے۔ یہ کتاب عقیدے اور عبادات کے زمرہ میں آتی ہے۔ حج کے موضوع پر لاتعداد کتب لکھی گئیں، لیکن وہ کتب حج کے ارکان، مسائل، مسنون طریقہ یا پھر حج کے متعلق فقہائے کرام کے فتاویٰ جات پر بحث کرتی ہیں۔ فلسفہ حج از ’’ڈاکٹر طاہرالقادری‘‘ اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے۔ اس کتاب میں حج کے مناسک، مسائل اور آداب وغیرہ ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ حج کے فلسفہ کو احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

سبب تالیف:

اس کتاب کی تالیف مئی 1989ء میں ہوئی۔ موجودہ صدی میں امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندگی کے ہر شعبہ میں خواہ معاشی ہو یا معاشرتی، سیاسی ہو یا سماجی، قانونی ہو یا مذہبی جمود اور تعطل کا شکار ہے۔ جہاں ہر میدان میں زوال سے دو چار ملت اسلامیہ کی علمی اور فکری سمتیں اپنے اصل مرکز سے ہٹ گئیں وہاں اسلامی عقائد و اعمال بھی محض رسوم میں بدل کر اپنی عملی تاثیر کھوبیٹھے۔ ان حالات میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے ملت اسلامیہ کو دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ حج جیسی اہم عبادات کی حقیقی روح سے روشناس کروایا۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے انہوں نے کئی خطابات کئے۔ نیز یہ کتاب فلسفہ حج بھی مدون کی گئی۔

دائرہ کارہ:

اس کتاب میں حج کی خصوصی اہمیت کو اس حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ ایسی عبادت ہے جو عشق و محبت کی مظہر ہے:

  1. تاریخی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے قبل از اسلام حج کی تحریف شدہ جاہلانہ رسوم اور ان پر حکم الہٰی کو بیان کیا گیا ہے۔
  2. خطبہ حجۃ الوداع کی روشنی میں سرزمین مکہ پر فکری، سیاسی، معاشی اور معاشرتی انقلاب کا ذکر کیا گیا ہے۔
  3. حج کے مناسک و فرائض کی بجا آوری میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مرکزی حیثیت کو شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
  4. مناسک حج کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔
  5. حج کے مسائل، آداب اور مسنون طریقہ کا ذکر کیا گیا ہے۔

کتاب کا خلاصہ:

یوں تو اسلام کے ہر رکن کی ادائیگی اور قبولیت کا دارومدار محبت پر ہے، لیکن حج محبت کا نقطہ عروج ہے۔ اس کا ہر رکن رسوم محبت کی ادائیگی ہے۔ حج میں انسان محبوب کی رضا کے لیے زیب و زینت کا لباس اتار کر صرف دو سادہ چادریں پہن لیتا ہے۔ جائز نفسانی خواہشات سے بھی دست کش ہوکر صرف اللہ کی یاد میں اس کے محبوب بندوں کی سنت کے مطابق دیوانہ وار دوڑتا ہے۔ اللہ نے انسان کی خلقت میں محبت اور چاہت کا جذبہ ودیعت کردیا ہے۔ اس نے انسان کے جذبات اور داعیاتِ عشق و محبت کی تسکین کے لیے اس مادی دنیا میں بے شمار اسباب مہیا فرمائے ہیں۔ مجازی محبت دائمی نہیں ہوتی، اس میں ایک مقام ایسا آتا ہے جب جذبہ محبت مانند پڑنے لگتا ہے۔ اگر جذبہ محبت خلوص اور وفاداری پر مشتمل ہو تو مشیت ایزدی قدم قدم پر انسان کی رہنمائی کرتی ہے۔

اللہ تعالیٰ بندوں کی رہنمائی کے لیے ارشاد فرماتا ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ ﷲِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَهُمْ کَحُبِّ ﷲِط وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّالِّلّٰهِ.

’’اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو اﷲ کے غیروں کو اﷲ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور ان سے ’اﷲ سے محبت‘ جیسی محبت کرتے ہیں، اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘

البقره، 2: 165

اس آیت کریمہ کی روشنی میں اہل ایمان کا شیوہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جوں جوں ان کا ایمان اپنے کمال کو پہنچتا ہے وہ دنیوی محبوبان سے کٹ کر ذات باری تعالیٰ سے ٹوٹ ٹوٹ کر محبت کرنے لگتے ہیں۔ یہ تقاضائے محبت ہے کہ محبوب کے ہجر میں عاشق زار کو اس سے منسوب کوئی بھی چیز نظر آجائے تو وہ اپنی جان سوختہ کی تسکین کے لیے اس کی طرف دیوانہ وار لپکتا ہے۔

نماز میں بندہ اپنے رب کی یاد میں یکسوئی اور محویت کے عالم میں مستغرق ہوکر آنسو بہاتا ہے لیکن نماز میں رونا دھونا اور نالہ و زاری جذبہ محبت الہٰی کی تسکین نہیں کرتا بلکہ بندہ مومن کے سینے میں عشق و محبت کی آگ کو اور بھڑکا دیتا ہے۔ اسی طرح عبادت ہے جو سر تا پا جنون و وارفتگی کی آئینہ دار ہے۔ حاجی سب سے پہلے کفن کے مشابہ دو ان سلی چادریں زیب تن کرتا ہے اور ننگے پاؤں محبوب کے گھر کے صحن میں دیوانہ وار دوڑنے لگتا ہے۔ ایک گوشے میں لگے پتھر کی طرف دیوانہ وار لپکتا ہے اور بے اختیار اسے چومنے لگتا ہے۔ اسے بس اتنا پتہ ہے کہ یہ حجر اسود ہے، جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوسے دیئے تھے پھر مقام ابراہیم پر جہاں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان ثبت ہیں رک جاتا ہے اور ارشاد خداوندی کی تکمیل میں سجدہ ریز ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ سوائے جذبہ محبت کی تسکین کے اور کیا ہے؟ پھر وہ حضرت ہاجرہ سلام اللہ علیہا کی سنت پر عمل کرتے ہوئے صفاہ مروہ کے درمیان بھاگتا ہے۔ پھر حجامت کرواکر منیٰ کی طرف بھاگتا ہے۔ خیمے گاڑتا ہے اور عرفات میں شام تک قیام کرتا ہے پھر خیمے اکھڑوا کر خانہ بدوشوں کی طرح چل پڑتا ہے۔ نماز عصر کا وقت آتا ہے تو عصر کی نماز ظہر کے ساتھ ملا کر پڑھتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ صرف اس لیے کہ اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میدان عرفات میں ظہر و عصر کو ملاکر پڑھا تھا۔ اب اس کی اتباع ہرکس و ناکس کے لیے واجب قرار پایا۔ پھر مغرب کا وقت آجاتا ہے وہ عمر بھر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب ادا کرنے کا پابند تھا لیکن یہاں آکر قانون شریعت کی وہ پابندی معطل ہوگئی۔ وہ نماز کا وقت دیکھتا ہے لیکن اس کی ادائیگی سے اس لیے گریز کرتا ہے کہ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت نماز ادا نہیں کی تھی۔ وہ اسے قضا کرکے مزدلفہ جاکر عشاء کی نماز کے ساتھ پڑھتا ہے۔

مزدلفہ پہنچ کر سفر سے گریز پا انسان سوچتا ہے کہ رات گزارنے کے بعد کچھ سستاؤں اور آرام کرلوں لیکن ندا آتی ہے کہ مزدلفہ کو چھوڑ کر خیمہ یہاں گاڑے اور پتھر کے ستونوں کو شیطان سمجھ کر انہیں کنکریاں مار! عقل لاکھ کہتی ہے کہ شیطان کہاں یہ تو پتھر ہیں، انہیں کنکریاں کیوں ماری جائیں؟ لیکن عشق کہتا ہے کہ یہاں تیرا حکم نہیں چلتا میرا حکم یہ ہے کہ ان پتھروں کو کنکریاں ماری جائیں۔ پس وہ محبت کے آگے سر تسلیم خم کرکے تین دن تک انہیں کنکریاں مارنے جاتا ہے۔ اس فعل کو اللہ کے ایک مقرب بندے سے نسبت ہے جس نے ایسا ہی کیا تھا۔ اللہ کو یہ ادا اتنی پسند آگئی کہ اب اس کی یاد کو قیامت تک دہرانے کا حکم دے دیا گیا۔

پھر اللہ کا بندہ منیٰ پہنچ کر قربانی کرتا ہے اور قربانی کے بعد شہر مکہ لوٹ آتا ہے۔ کبھی یہ صحرا نوردی اور بادہ پیمائی اور کبھی یہ شہر گردی عجیب معاملات عشق ہیں! شعائر اللہ کی بغیر سوچے سمجھے تعظیم اور دیوانہ وار طواف اور بھاگ دوڑ یہ سب باتیں پاس ادب اور تقاضائے محبت ہیں ان کی کوئی عقلی توجیہ ممکن نہیں۔ بس محبوبان الہٰی کی یادیں ہیں جنہیں جاری و ساری کرنے کا اہتمام عبادت کا درجہ اختیار کرگیا ہے۔

یہ کتاب اس موضوع پر اہم فکری و روحانی معلومات سے بھرپور ہے۔ میری تمام قارئین سے گزارش ہے کہ اپنی علمی و فکری تربیت کے پیش نظر اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔