الہدایہ کارنر: قرآن کا زیور قرآن کو خوبصورتی سے پڑھنا ہے

معلمہ: اقراء مبین

(درس اوّل)

حصہ تجوید

اقسام اثنان

اقسام اثنان چھ ہیں:

  1. ثنایا: سامنے کے دو اوپر اور دو نیچے والے دانت، اوپر والے دو دانتوں کو ’’ثنایا علیا‘‘ اور نیچے والے دو دانتوں کو ’’ثنایا سفلی‘‘ کہتے ہیں۔
  2. رباعیات: ثنایا کے دائیں بائیں، اوپر نیچے، ایک ایک (کل چار دانت)
  3. انیاب: رباعیات کے دائیں بائیں، اوپر نیچے، ایک ایک (کل چار دانت)
  4. ضواحک: انیاب کے دائیں بائیں، اوپر نیچے، ایک ایک (کل چار داڑھیں)
  5. طواحن: ضواحک کے دائیں بائیں، اوپر نیچے، تین تین (کل بارہ داڑھیں)
  6. نواجذ: طواحن کے دائیں بائیں، اوپر نیچے، ایک ایک (کل چار داڑھیں)

منہ میں 12 دانت اور 20 داڑھیں ہوتی ہیں۔ مگر جن سے حروف کی ادائیگی ہوتی ہے ان کی تعداد 18 ہے۔ بالائی جبڑا مکمل اور ثنایا سفلی۔

حصہ گرائمر

کلمہ کی اقسام:

انسان زبان سے جو کچھ بولتا ہے لفظ کہلاتا ہے اور ہر وہ لفظ جو اکیلا ہو اور اکیلے معنی پر دلالت کرے کلمہ کہلاتا ہے۔ کلمہ کی 3 اقسام ہیں:

  1. اسم
  2. فعل
  3. حرف

اسم ایسا کلمہ ہے جو مستقل معنی پر دلالت کرے اور اس میں تینوں زمانوں میں سے کوئی زمانہ نہ پایا جائے مثلاً قَلَمٌ، مَدِیْنَةٌ.

فعل ایسا کلمہ ہے جو مستقل معنی پر دلالت کرے اور تین زمانوں میں سے کوئی ایک زمانہ بھی اس میں پایا جائے مثلاً خَلَقَ (اس نے پیدا کیا)۔ حرف ایسا کلمہ ہے جو مستقل معنی پر دلالت ہی نہ کرے مثلاً مِن (سے) فی (میں)۔

سورۃ الفاتحہ کی تفسیر

الفاتحہ کا معنی ہے جس سے کسی چیز کا افتتاح ہو۔ اس طرح اس کی حیثیت قرآن پاک کے دیباچہ کی ہے۔

الحمد کے معنی ہیں: شکر، رضا، جزاء اور حق کو ادا کرنا۔ تحمید کے معنی ہیں اللہ کی بار بار حمد کرنا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا جس کام کی ابتداء الحمد سے نہیں کی جائے گی وہ ناکام رہے گا۔

مالک اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی مملوکہ چیزوں میں جس طرح چاہے تصرف کرنے پر قادر ہو اور یوم الدین سے مراد قیامت کا دن ہے۔ قیامت کے دن کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہے:

تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَةُ وَالرُّوْحُ اِلَیْهِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَةٍ.

’’اس (کے عرش) کی طرف فرشتے اور روح الامین عروج کرتے ہیں ایک دن میں، جس کا اندازہ (دنیوی حساب سے) پچاس ہزار برس کا ہے۔‘‘

(المعارج، 70: 4)

آیت نمبر 5 میں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں: عبادت اور استعانت، عبادت سے مراد انتہائی عاجزی و انکساری اور تذلل کا اظہار ہے۔ گویا عام معنوں میں کسی کی عبادت سے مراد یہ ہوگا کہ اسے عظمت و کبریائی کا مالک تصور کرتے ہوئے اپنا آقا تسلیم کیا جائے اور خود کو اس کا عاجز و حقیر بندہ یہاں ذہن میں کسی قسم کا مغالطہ نہیں رہنا چاہئے کہ عبادت کا تصور صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج تک محدود نہیں ہے بلکہ پوری زندگی اور اس کی پوری جدوجہد پر محیط ہے۔ استعانت سے مراد یہ ہے کہ بندہ مومن رب کی بارگاہ میں عرض گزار ہوتا ہے ہم عبادت صرف تیری ہی کرتے ہیں، اسی طرح مدد بھی تجھی سے طلب کرتے ہیں۔ تو ہی کارساز حقیقی ہے، تو ہی مالک حقیقی ہے۔ ہر حاجت میں تیرے ہی سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس عالم اسباب میں اسباب سے قطع نظر کرلی جائے۔ بیمار ہوئے تو علاج سے کنارہ کش، تلاش رزق کے وقت وسائل معاش سے کنارہ کش، بیمار ہوئے تو علاج سے کنارہ کش، حصول علم کے لیے صحبت استاذ سے بیزار۔ اس طریقہ کار سے اسلام اور توحید کا کوئی سروکار نہیں۔ کیونکہ وہ تو شافی رزاق اور حکم ہے۔ اسی نے ان اسباب میں تاثیر رکھی ہے۔ اب ان اسباب کی طرف رجوع استعانت بالغیر نہیں ہے۔

حدیث قدسی ہے: اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندوں کے متعلق ارشاد فرماتا ہے:

’’اگر میرا بندہ مجھ سے مانگے تو میں ضرور اس کا سوال پورا کروں گا اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے گا تو میں ضرور اسے پناہ دوں گا۔‘‘

اگر کوئی شخص ان محبوبان الہٰی کی جانب کسی نعمت کے حصول یا کسی مشکل کشائی کے لیے التجا کرتا ہے تو یہ بھی استعانت بالغیر اور شرک نہیں بلکہ عین توحید ہے۔ ہاں اگر کسی ولی، شہید یا نبی کے متعلق کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ یہ مشکل بالذات ہے اور خدا نہ چاہے تب بھی کرسکتا ہے تو یہ شرک ہے۔

صراط مستقیم دو نقطوں کو ملانے والے سب سے چھوٹے خط کو کہتے ہیں۔ شریعت میں صراط مستقیم سے مراد وہ عقائد ہیں جو سعادت دارین تک پہنچاتے ہوں یعنی وہ دین اسلام جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی صحیح معرفت ہو اور تمام احکام شریعہ کا علم صراط مستقیم ہے۔

انعمت علیہم سے مراد انعام یافتہ لوگ ہیں۔ قرآن مجید انعام یافتہ لوگوں کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

وَمَنْ یُّطِعِ ﷲَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ ﷲُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ. (النساء، 4: 69)

’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیائ، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں۔‘‘

ضالین کے معنی ہیں طریق مستقیم سے عدول اور اعراض۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: الضالین سے مراد نصاریٰ ہیں۔ ہر وہ شخص جو سیدھے راستے سے انحراف کرے اس کو عرب الضالین کہتے ہیں۔