آپ کی صحت: کالا موتیا، بینائی کا خاموش قاتل

ڈاکٹر راحیلہ ناز (PGR Optomology) (جنرل ہسپتال لاہور)

انسانی جسم کے اعضاء میں سے آنکھ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔آنکھوں کی قدر اسے معلوم ہوتی ہے جو ان سے معذور ہوجائے۔ آنکھیں اللہ تعالیٰ کی بہترین نعمت ہیں۔ ان کی ٹھیک سے دیکھ بھال کرنا ہمارا فرض ہے۔ کالا موتیا اور سفید موتیا دو ایسی بیماریاں ہیں جو بینائی کو متاثر کرتی ہیں اور ان کا بروقت علاج ضروری ہے۔ ذیل میں ان موذی بیماریوں سے آگاہی کے لیے قارئین کی نذر کچھ معلومات ہیں: آنکھ میں موجود قدرتی لینز کے دھندلے پن کو سفید موتیا کہا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ عمر رسیدہ ہونا ہے۔ لینز کے دھندلے پن کی وجہ سے روشنی کی شعاعیں پردہ بصارت تک نہیں پہنچ سکتیں جس کی وجہ سے نظر کمزور ہوجاتی ہے۔

علاج

سفید موتیا کا واضح اور موثر علاج آپریشن ہے۔ آپریشن کے ذریعے دھندلا لینز نکال کر مصنوعی شفاف لینز رکھ دیا جاتا ہے جس سے نظر پہلے کی طرح بحال ہوجاتی ہے۔ بشرطیکہ پردہ بصارت اور آنکھ کے باقی حصے ٹھیک ہوں۔ سفید موتیے کے آپریشن کے دوران یا آپریشن کے بعد پیچیدگیاں ہوسکتی ہیں جن کا علاج ممکن ہے۔

آپریشن کے بعد احتیاطی تدابیر:

  1. آپریشن کے بعد تجویز کردہ ادویات کا باقاعدگی سے استعمال کریں۔
  2. آنکھ کے اندر پانی، شیمپو یا صابن مت جانے دیں۔
  3. آنکھ کو کسی بھی قسم کے کپڑے سے نہ ڈھانپیں۔
  4. اپنے معالج کی ہدایت کے مطابق دیئے گئے وقت پر معائنہ ضرور کروائیں۔

کالا موتیا

انسانی آنکھ میں بننے والے پانی کے نارمل سے زیادہ یا نارمل سے کم مقدار میں اخراج سے آنکھ میں پریشر کے بڑھ جانے کو کالا موتیا کہا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسانی آنکھ میں بینائی کو لے جانے والی نس کو مستقل نقصان سے بینائی کا مکمل خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔ زیادہ تر مریضوں میں کالے موتیے کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی، اسی لیے اس بیماری کو بینائی کا خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے۔

علاج

آنکھ کے اس پریشر کو کنٹرول کرنے کے لیے ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ کا معالج آپ کو جو ادویات تجویز کرتا ہے ان کا وقت پر استعمال اسی طرح ضروری ہے جس طرح زندہ رہنے کے لیے خوراک۔ اگر یہ پریشر ادویات سے کنٹرول نہ ہو تو اس کے لیے آپریشن کیا جاتا ہے۔ اس آپریشن کے بعد بھی ادویات کے بغیر کالے موتیا پر قابو پانا ناممکن ہے۔ کالے موتیے کے مریضوں کے خاندان کے بقیہ لوگوں کی آنکھ کا معائنہ بھی ضروری ہے تاکہ بروقت اس خطرناک بیماری کو پکڑا جاسکے اور بینائی کو پہنچنے والے مستقل نقصان سے بچا جاسکے۔