راہ نوردِ شوق: ڈاکٹر یاسمین راشد کا خصوصی انٹرویو

پینل: ماریہ عروج، ڈاکٹر فوزیہ سلطانہ

پاکستانی سیاست میں بہت کم نام ایسے ملتے ہیں جنہوں نے اپنی قابلیت کی بنیاد پر سیاست میں نام پیدا کیا ہو، پھر خواتین میں تو یہ تعداد اور بھی کم نظر آتی ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں خواتین زیادہ تر خاندانی پس منظر سے ہی سیاست میں قدم رکھتی ہیں۔ پاکستانی سیاست میں ایسی ہی ایک خاتون جنہوں نے اپنی قابلیت کے دم پر سیاست میں قدم رکھا مسلسل محنت سے مقبول ترین لیڈر کے طور پر سامنے آئیں۔ انہوں نے حالیہ الیکشن میں NA.120 سے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے حصہ لیا، وہ اس نشست پر کامیاب تو نہ ہو سکیں البتہ ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا اور وہ خواتین کی مخصوص نشستوں سے ممبر صوبائی اسمبلی پنجاب منتخب ہوئی ہیں۔ اس خاتون سیاست دان کا نام ڈاکٹر یاسمین راشد ہے۔

آپ 21 ستمبر 1950ء کو پیدا ہوئیں۔ میٹرک کا امتحان لاہور کانونٹ سے پاس کیا۔ لاہور کالج سے FSC کی جبکہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج سے MBBS کیا۔ بعد ازاں UK سے MRCOG اور FRCOG کی ڈگری حاصل کی اور پاکستان واپس آکر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتی رہیں۔ اور بطور پرنسپل کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ریٹائرڈ ہوئیں۔

آپ نے لیڈی ولنگٹن ہسپتال لاہور میں Reproductive health کا پہلا ریسرچ سنٹر قائم کیا۔ جس میں اس وقت نیشنل اور انٹر نیشنل لیول کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

اس کے علاوہ Alzheimer's Pakistan کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے جو کہ الزائمر کی بیماری پر کام کر رہا ہے۔ الزائمرز ایک دماغی مرض ہے جو اکثر اوقات 65 برس سے زائد عمر کے افراد پر حملہ آور ہوتا ہے۔ یہ مرض انسان کو آہستہ آہستہ موت کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ اس ادارے میں اس بیماری کے متعلق لوگوں کو آگاہی دی جاتی ہے نیز اس بیماری سے لڑنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر یاسمین نے الزائمر کے شکار مریضوں کے لیے ڈے کئیر سنٹرز بھی قائم کیے ہیں۔

علاوہ ازیں ڈاکٹر یاسمین راشد نے تھیلسیمیا کی بیماری کی تشخیص کے لیے بھی بہت کام کیا ہے تھیلسیمیا ایک موروثی بیماری ہے، یعنی یہ والدین کی جینیاتی خرابی کے باعث اولاد میں منتقل ہوتی ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے مریض کے جسم میں خون کم بنتا ہے۔ ڈاکٹر یاسمین نے جینیٹک لیول پر تھیلسیمیا کی Prenatal تشخیص کی سہولت فراہم کی ہے اور پاکستان میں اس نوعیت کا پہلا ٹیسٹ کیا۔ اب تک آٹھ سو سے زائد جوڑوں کو اس کی سہولت دی جا چکی ہے۔ مسلم دنیا میں پاکستان وہ پہلا ملک تھا جس میں سب سے پہلے اس ٹیسٹ کی سہولت دی گئی اور اس کے جواز میںتمام مکاتب فکر سے باقاعدہ فتوی لیا گیا۔ انہوں نے 1995ء میں گنگا رام ہسپتال لاہور میں تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کے لیے پاکستان کا سب سے پہلا سنٹر قائم کیا۔

آپ نے پورے پاکستان میں سب سے پہلے پانی کے متعلق آگاہی مہم کا آغاز کیا اور لوگوں کو پانی کی تیزی سے ہونے والی کمی کے متعلق آگاہی دی۔ لوگوں کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ پانی کے استعمال میں احتیاط سے کام لیںاور پانی ضائع نہ کریں۔

ان کی انہی خدمات کے اعتراف میں جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی نومنتخب حکومت میں آپکو وزارت صحت کے لیے نامزد کیا گیا۔ دختران اسلام کی جانب سے ایک وفد نے ڈاکٹر یاسمین راشد سے ملاقات کی اور انہیں پارٹی کی جیت پرمبارکباد پیش کی بعد ازاں دختران اسلام کے لیے ان کا خصوصی انٹرویو بھی کیا گیا جو کہ قارئین کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔

س: پاکستانی سیاست میں بہت کم خواتین ایسی ہیں جنہوں نے انتخابی سیاست میں استقامت کا مظاہرہ کیا آپکی جدوجہد کے پیچھے کیا motivation تھی؟

ج: جب میں نے سیاست میں قدم رکھنے کا سوچا تو میرا خیال تھا کہ میں کسی ایسی جماعت کے ساتھ شریک ہوں جو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے اور ملک میں حقیقی تبدیلی کے لیے کوشش کرے مجھے یہ خوبی تحریک انصاف میں نظر آئی لہذا میں نے اس میں شمولیت اختیار کرلی۔ پھر سیاست میں آنے کے لیے مجھے گھر سے بھی مکمل حمایت حاصل تھی، اگر گھر سے حمایت حاصل نہ ہو تو انسان سیاست میں نہیں آسکتا۔ میرے سسرال کا تعاون بھی بہت زیادہ رہا حتی کہ میں نے میڈیکل کی تعلیم بھی شادی کے بعد حاصل کی۔ مجھے تعلیم اور سیاست دونوں کے لیے گھر والوں نے مکمل سپورٹ کیا۔ میرا سیاست میں آنے کا مقصد روایتی سیاستدانوں کی طرح ذاتی مفاد نہیں تھا بلکہ عوام کی فلاح و بہبود تھا جو کہ میں الیکشن نہ جیتنے کے باوجود کرتی رہی یہی میری استقامت کی وجہ تھی۔

س: حالیہ الیکشن میں خواتین کا اچھا ٹرن آؤٹ دیکھنے میں آیا ہے، کیا آپ اس کو معاشرے کی سوچ کی تبدیلی کا نام دیں گی؟

ج:خواتین کا ووٹ ڈالنا بہت ضروری ہے، کیونکہ ملک کا مستقبل ان سے وابستہ ہے۔ ہر ماں یہ چاہتی ہے کہ اس کے بچے کا مستقبل شاندار ہو یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ خواتین نے کثیر تعداد میں ووٹ کاسٹ کیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خواتین کی طرف بھی شعوری ترقی ہو رہی ہے اور مجھے اس بات کی بہت خوشی ہوئی کہ پاکستان کے پسماندہ علاقوں خصوصا تھر جیسے علاقے کی خواتین نے بھی ووٹ کاسٹ کیا۔ ہم نے بارہا خواتین کو یہ کہا تھا کہ آپکا ووٹ ڈالنا بہت ضروری ہے، کیونکہ آپ پاکستان کی نصف آبادی ہیں اور آپکی رائے بہت اہم ہے۔

س: آپکی حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کن شعبہ جات پر ترجیحی بنیادوں پر کام کرے گی؟

ج: ہم اپنے منشور کے مطابق تعلیم، صحت اور عوام کے جان و مال کا دفاع پر ترجیحی بنیادوں پر کام کریں گے۔ ہماری قیادت بارہا یہ کہہ چکی ہے کہ غریب طبقے کی فلاح و بہبود ہماری اولین ترجیح ہو گی۔

س: آپ نے کہا کہ صحت پر توجہ دیں گی جبکہ آج کے دور میں خواتین کی صحت کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے، اسکی کیا وجوہات ہیں؟

ج:ہمارے ملک میں بدقسمتی سے پڑھی لکھی خواتین کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ شہروں میں رہنے والے خواتین چونکہ تعلیم یافتہ ہوتی ہیںلہٰذا وہ اپنی صحت کا کسی حد تک خیال رکھتی ہیں لیکن دیہی علاقو ں میں رہنے والی خواتین اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتیں دوسرا یہ کہ ہماری غذا بہت خراب ہو چکی ہے۔ جو غذا ہم لے رہے ہیں ا س میں نہ تو وٹامنز ہیں اور نہ ہی نمکیات جبکہ ہمیں متوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت میں اضافہ ہو۔ لہذا بنیادی وجہ غذائی قلت ہے۔

س: آپ خواتین کی صحت کے حوالے سے حکومتی سطح پر کیا اقدامات کریں گی؟

ج:ہمارے ملک میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے جسکی وجہ مناسب سہولیات کا نہ ہونا ہے۔ سب سے پہلے تو اس سلسلہ میں اقدامات کریں گے۔ صحت کی سہولیات پر توجہ دی جائے گی مثلا ایک خاتون کو کسی نہ کسی تربیت یافتہ برتھ اٹینڈنٹ کے سپرد کرنا چاہئے تاکہ اگر کوئی پیچیدگی ہو تو وقت پر پہچان ہو سکے۔ دوسرا پاکستان میں Infant martality (بچوں کی اموات) کی شرح بہت زیادہ ہے۔ جسکی وجہ سے ہر سال ہزار بچوں میں سے اکیاسی بچے مر جاتے ہیں، اس کو کم کرنے کے لیے کچھ پروگرامز مرتب کیے ہیں جن پر کام کرنا ہے۔ اس کے علاوہ صاف پینے کا پانی اور بچوں کی غذا کو یقینی بنانا ہے۔

س: ورکنگ ویمن کی مشکلات بہت زیادہ ہیں، ان کی آسانی کے لیے آپ کیا اقدامات کریں گی؟

ج: بلاشبہ ورکنگ ویمن کی مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ مثلا جن خواتین کے بچے چھوٹے ہیں ان کے لیے ملازمت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ہر بڑی کمپنی کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہاں ڈے کئیر سنٹرز قائم ہوں تاکہ خواتین ذہنی سکون کے ساتھ اپنا کام کر سکیں۔ ان شاء اللہ ہم اس سلسلے میں عملی اقدامات کریں گے۔

س: سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لواحقین آج تک انصاف کے منتظر ہیں اس بارے میں کیا کہیں گی؟

ج: سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک ایسا واقعہ ہے جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ معصوم نہتے لوگوں کو گولیاں ماری گئیں، بے گناہ عورتوں کو شہید کیا گیا، سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ اس کے جواب دہ اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب ہیں۔ میرا کوئی پروگرام ایسا نہیں ہوتاجس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذکر نہ کرتی ہوں، اور ان کے لیے انصاف کے حصول کی بات نہ کرتی ہوں۔

س: کیا تحریک انصاف کی حکومت میں ان شہیدوں کو انصاف مل سکے گا؟

ج: اگر ملک میں انصاف کا فقدان ہو تو کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ انشاء اللہ ہماری پوری کوشش ہو گی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کو انصاف اور جو لوگ اس میں ملوث ہیں ان کو سزا ضرور ملے تاکہ کوئی بھی حکمران آئندہ طاقت کے ظالمانہ مظاہرے سے گریز کرے۔

س: شہید تنزیلہ امجد کی بیٹی بسمہ کے لیے کیا پیغام دینا چاہیں گی؟

ج: یہ بہت دکھ بھری داستان ہے۔ ماں کے بغیر زندگی بہت ادھوری رہ جاتی ہے۔ بچے کو ہر عمر میں ماں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ بیچاری تو بہت چھوٹی تھی جب اس کی والدہ کا انتقال ہوا۔ مجھے اس بچی سے دلی ہمدردی ہے۔ اللہ تعالی اس کو طاقت دے، ہمت دے۔ میں تو یہ چاہوں گی کہ وہ پڑھے لکھے اور وکیل بنے۔ وکیل بننے کے بعد جہاں بھی ظلم ہو، وہاں اپنی ماں کے نام پر لوگوں کو انصاف دلوائے۔