سمیعہ اسلام

میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے میرے بحرِ خیالات کا پانی

اِنَّ مِنْ الشِّعْرِ لحِکْمَةٌ.

بے شک بعض اشعار حکمت ہیں۔

(بخاری و مسلم و ترمذی)

حمد و نعت کی مختصر تاریخ پر نظر دوڑا نے کے بعد شاعری کی اگلی صنف منقبت کی طرف پیش قدمی کی جارہی ہے۔جو کہ اردو شاعری کی ایک نہایت اہم صنف ہے جس کو کسی صورت بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔

منقبت کی تاریخ

پیر نصیر الدین نصیر اپنی کتاب’’ فیض نسبت‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ

’’یہ روایت عربی، فارسی، اور اردو زبان میں بہت قدیم ہے۔ جس کا تسلسل اسلام کے مختلف ادوار سے گزرتا ہوا ہم تک پہنچا۔‘‘

منقبت ''نقب'' سے ہے۔ نقب کے لغوی معنی ’’تلاش ‘‘کے ہیں یعنی اگر کسی شخصیت کے کردار، فضائل اور خوبیوں کو تلاش کر کے بیان کیا جائے، منقبت کہلاتا ہے اور اگر سخن کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان خوبیوں کا منظوم بیان ''منقبت'' کہلائے گا۔ لیکن یہ لفظ بالخصوص حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تعریف میں لکھے ہوئے اشعار کو کہا جاتا ہے۔البتہ صحابہ کرام، آئمہ اکرام اور صوفیاء کی تعریف بھی اسی زمرے میں آتی ہے ۔ مرزا غالب اور علامہ اقبال سمیت بیشتر مشہور شعراء نے منقبت لکھیں ہیں۔یہ کسی نظم کے حصے کے طور پر یا قصیدے کی شکل میں لکھی جاتی ہے۔

سید الشہدا، آلِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرزندِ علی رضی اللہ عنہ، امامِ عالی مقام، حضرت امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں عقیدت بھرا سلام کہنا، ان کی منقبت کہنا،شہادتِ حسین کی عظمتوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا، مظلومین کربلا کے غم میں مرثیہ نگاری وغیرہم صرف ایک مذہبی موضوع ہی نہیں بلکہ اپنی مقبولیت کے اعتبار سے اردو شاعری میں ایک اہم صنفِ سخن ہے۔ قدیم و جدید اردو شعراء نے بلا تفریقِ مذہب و ملت و عقیدہ، امام عالی مقام کے حضور میں نذرانۂ عقیدت پیش کیے ہیں۔

منقبت کی شرعی حیثیت

حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بنفس ِ نفیس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی منقبت سماعت فرمائی۔ اس لئے اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں۔

مخمس در منقبت حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام:

علی فخرِ بنی آدم، علی سردارِ انس و جاں
علی سرور، علی صفدر، علی شیرِ صفِ میداں
علی ہادی، علی ایماں، علی لطف و علی احساں
علی حکمت، علی شافی، علی دارو، علی درماں
علی جنت، علی نعمت، علی رحمت، علی غفراں

علی واصل، علی فاصل، علی شامل، علی قابل
علی فیض و علی جود و علی بذل و علی باذل
علی نوح و علی کشتی، علی دریا، علی ساحل
علی عالم، علی عادل، علی فاضل، علی کامل
علی افضل، علی مفضل، علی لطف و علی احساں

(میر انیس)

وہ سلطانِ زماں ہیں ان پہ شوکت ناز کرتی ہے

مفتی محمد اختر ضا خان نے کچھ ان الفاظ میں امام عالی مقام کی منقبت بیان کی ہے جس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

شجاعت ناز کرتی ہے جلالت ناز کرتی ہے
وہ سلطانِ زماں ہیں ان پہ شوکت ناز کرتی ہے
صداقت ناز کرتی ہے امانت ناز کرتی ہے
حمیت ناز کرتی ہے مروت ناز کرتی ہے
شہ خوباں پہ ہر خوبی و خصلت ناز کرتی ہے
خدا کے فضل سے اختر میں ان کا نام لیوا ہوں
میں ہوں قسمت پہ نازاں مجھ پہ قسمت ناز کرتی ہے

(مفتی محمد اختر رضا خان)

نہ صرف حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ بلکہ آپکے کے گھرانے کے طاہر و مطہر افراد کی شان میں بھی منقبت کہی گئی ۔جس کی زندہ و جاویدمثال ذیل میں درج منقبت سے پیش کی جاسکتی ہے۔

میں تو پنجتن کا غلام ہوں

ڈاکٹر یوسف قمر کی مشہورِ زمانہ منقبت ملاحظہ ہو:

میں تو پنجتن کا غلام ہوں
میں غلام ابن غلام ہوں

مجھے عشق ہے تو خدا سے ہے
مجھے عشق ہے تو رسول سے
یہ کرم ہے زہرہ بتول کا
میرے منہ سے آئے مہک سدا
جو میں نام لوں تیرا جھوم کے

منقبت خاتونِ جنت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا

مہر سپہرِ عزّ و شرافت ہے فاطمہ
شرحِ کتاب عِصمت و عِفّت ہے فاطمہ
مفتاحِ بابِ گلشن جنت ہے فاطمہ
نورِ خدا و آیہ رحمت ہے فاطمہ

رُتبے میں وہ زنانِ دو عالم کا فخر ہے
حوا کا افتخار ہے مریم کا فخر ہے

منقبت بخدمت حضرت امام حسین

منہ سے اک بار لگا لیتے جو مولا پانی
دشت غربت میں نہ یوں ٹھوکریں کھاتا پانی
کون کہتا کے کہ پانی کو ترستے تھے حسین
ان کے ہونٹوں کو ترستا رہا پیاسا پانی
ظرف یہ حضرت عباس کا دیکھے کوئی
نہر قدموں میں تھی اور منہ سے نہ مانگا
گرچہ بے درد نے پیاسا ہی کیا ذبح انہیں
صابروں کی مگر آنکھوں میں نہ آیا پانی

(پروفیسر فیاض احمد کاوش وارثی)