فقہ النساء: تقویٰ بہترین لباس ہے

لبنیٰ مشتاق

عصر حاضر میں حجاب کا رجحان جہاں دن بدن فروغ پا رہا ہے وہیں یہ بات بھی مشاہدہ میں آرہی ہے کہ حجاب کے نت نئے انداز میں مقصدیت کا فقدان ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد کو برابر حقوق عطا کیے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں کہیں پر بھی خواتین کی حق تلفی نہیں کی گئی بلکہ یہ کہنا حق بجانب ہے کہ اسلام وہ واحد دین ہے جسں نے عورت کی حقیقی حیثیت واضح کی لیکن ان تمام حقوق کی فراہمی کے ساتھ کچھ حدود و قیود بھی معین اسلام نے متعین نہیں کیں تاکہ معاشرہ میں برائیوں کو پنپنے سے روکا جا سکے ان احکام میں سے ایک حکم حجاب کا ہے۔

قرآن میں حجاب سے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّـاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ.

’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں۔‘‘

(الاحزاب، 33 :59)

اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ عورتوں پر پردہ لازم کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں جلباب اس کھلی چادر کو کہتے ہیں جس سے پورا جسم ڈھک جائے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پردہ میں کون سے اعضاء کو ڈھانپنا شامل ہے؟

شریعت میں پردہ سے مراد ہاتھ، منہ اور پاؤں کے علاوہ سارے جسم کو ڈھانپنا لازم ہے حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس باریک دوپٹہ اوڑھے حاضر ہوئیں تو آپ نے فرمایا جب عورت بالغ ہوجائے اس کے جائز نہیں کہ اس اعضاء کے علاوہ کچھ نظر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ، پاؤں اور منہ کی طرف اشارہ کیا۔ (ابوداؤد)

آیت پردہ حضرت عمر رضی اللہ کی خواہش پر نازل ہوئی۔حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا تین باتیں میں نے کہیں جن کے مطابق اللہ نے احکام نازل کیے میں نے کہا یا رسول اللہ ہر کوئی گھر میں آتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ازواج مطہرات کو پردہ کا حکم دیں ۔اس پر پردہ کے احکام نازل ہوئے۔

(بخاری، کتاب التفسیر البقره، ج: 2)

جہاں تک فیشن کا تعلق ہے تو شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے منع نہیں کرتی لیکن حکم دیتی ہے کہ حدود کے اندر رہ کر کیا جائے ۔ شریعت نے جو حدود مقرر کی ہیں اس میں نبی نوع انسان کا ہی فائدہ ہے پردہ سے متعلق ایک اور سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا پردہ عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟

دراصل دور حاضر میں پردہ عورت کی ترقی و کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے اور نہ اس چیز کا پابند کرتا ہے کہ وہ گھر میں محصور ہوکر رہ جائے۔

اسلام ایک جامع نظام حیات ہے اور یہ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق اگر دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جائزہ لیا جائے تو عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عورتوں کے لئے ایک دن مختص ہوتا جس میں وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شریعت کے احکام سیکھتی تھیں۔ غزوات کے دوران صحابیات زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ حضرت ام عمارہ کی شجاعت و بہادری سے کون واقف نہیں کس طرح وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفاع پر ڈٹی رہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے 2200 سے زیادہ مرویات تھیں۔ صحابیات کے بعد تابعات میں عمرہ بنت عبدالرحمن، ام علی تقیہ رضی اللہ عنہا، ام محمد زینب رضی اللہ عنہا، خلدیہ بنت جعفر رضی اللہ عنہا الغرض ایک طویل فہرست ہے، امام عسقلانی کہتے ہیں امام بخاری کی اسانید میں ان کی شیخ خواتین ہیں۔ ابوداؤد اور ترمذی میں خاتون شیخ سے سندیں لی ہیں۔ حضرت نفیسہ مصر میں محدثہ تھیں۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ دیوار کے ساتھ کھڑے ہوکر درس حدیث کے نوٹس لیتے تھے۔ اور ہزاروں مرد علمائ، محدثین، فقہاء کئی محدثہ خواتین کی مجالس میں شریک ہوکر علم حاصل کرتے۔ 80 خواتین امام ابن عساکر کی استاد ہیں جن سے یونیورسٹیز آباد تھیں۔ خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بعنوان ارکان حج کی تشکیل و تکمیل بھی خاتون کی مرہون منت ہے۔ اسلام کی تحریک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں برابری کے تصور سے شروع ہوئی تھی۔ خواتین اسلام کے کلچر، تعلیم، سائنسی ایجادات اور روحانیت کو فروغ دینے میں برابر حصہ لیتی تھیں۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا 8 ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اسلام کی تعلیمات دیتی لیکن پردہ میں رہ کر سکھاتی تھیں۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دفاتر قائم کئے۔ خواتین ان کی انچارج تھیں وہ رپورٹ دیتی تھیں۔

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور میں خواتین پارلیمنٹ کی رکن تھیں۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے مہر کی حد مقرر کرنا چاہی تو پارلیمنٹ میں موجود عورت نے اٹھ کر کہا اے عمر! جب اللہ نے مہر کی حدود مقرر نہیں کی تو آپ کون ہوتے ہیں جو حد مقرر کریں؟ اس پر اس عورت نے قرآن کی آیت پڑھی۔

اِحْدٰهُنَّ قِنْطَارًا فَـلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَیْئًا.

’’اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو۔‘‘

(النساء، 4: 20)

اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا۔ عورت نے صحیح کہا۔ عمر نے خطا کھائی۔

حضرت ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں روم کی سفیر مقرر ہوئیں تھیں۔

الغرض بے شمار مثالیں ظاہرکرتی ہیں کہ پردہ عورت کی ترقی میں حائل نہیں بلکہ مددگار ہے۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کے دور میں اسلام کی حدود دور دراز علاقوں تک پھیل گئیں لیکن مسلمان عورتوں نے تمام تر ترقی اسلام کی پردہ کے اندر رہ کر کی اس سے ثابت ہوا کہ آج کی عورت کی خام خیالی ہے کہ پردہ عورت کی ترقی میں حائل ہے۔ دوسری اہم بات اسلام مخصوص لباس کو ہی پردہ قرار نہیں دیتانہ ہی اس کا کوئی ڈریس۔

درج بالا اقتباس دینے کا مقصد ایک طرف اس سوچ کی نفی کرتا ہے کہ اسلام عورت کے حوالے سے تنگ نظر احکامات رکھتا ہے تو دوسری طرف اس سوچ کی ترغیب دینا بھی ہے کہ شریعت اسلامیہ میں قائم کردہ حدود و قیود عورت کی حفاظت کے لیے ہیں ان کے فوائد بے شمار ہیں مگر نقصان کوئی بھی نہیں ہے۔ عصر حاضر میں پردہ میں نت نئے فیشن متعارف ہورہے ہیں مگر کوئی بھی انداز اپنانے سے قبل ہمیںیہ دیکھ لینا چاہئے کہ کیا اس سے پردے کا مقصد پورا ہورہا ہے یا نہیں۔