اداریہ: غربت کا عالمی دن اور زرعی ملک پاکستان

ایڈیٹر دختران اسلام

16 اکتوبر دنیا بھر میں خوراک اور 17 اکتوبر غربت کے عالمی دن کے طور پر منائے جاتے ہیں اس تناظر میں دیکھا جائے تو عالمی سطح پربہت سے ممالک خوراک کی قلت اور غربت جیسے مسائل سے برسرپیکار ہیں خصوصا مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے ممالک اس سلسلہ میں سر فہرست ہیں پاکستان 21 کروڑ افرادپر مشتمل آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں ملک شمار کیا جاتا ہے۔ ایشیا میں پاکستان کو بالخصوص غذائی قلت کا سامنا ہے اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے غذائی ذخائر آبادی کے صرف 40 فیصد حصہ کی غذائی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بقیہ 60 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں روزانہ سینکڑوں خواتین اور بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان 36 ممالک میں ہوتا ہے جو کہ خطرناک حد تک غذائی قلت کا سامنا کررہے ہیں علاوہ ازیں غیر معیاری غذا اور پانی کی بڑھتی ہوئی کمی روز بروز بیماریوں میں اضافہ کا باعث بھی بن رہی ہے۔ تھرپارکر کی مثال اس غذائی خستہ حال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان کا 70 فیصدطبقہ زراعت پر انحصار کیے ہوئے ہے مگر حکومتوں کی ناقص پالیسیز اور کسان کے استحصال نے اس شعبہ کو برباد کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم ملک میں خوراک کی ضرورت پوری کرنے سے قاصر اور بہت سی زرعی اجناس پڑوسی ممالک سے برآمد کروانے پر مجبور ہیں۔

پاکستان کو خوراک کی کمی کے ساتھ اس وقت پانی کی شدید قلت کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ ماہرین معاشیات اور ماحولیات کے مطابق پاکستان کو روز بروز پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ IMF کے مطابق خوراک کی قلت کیساتھ پانی کی قلت کا سامنا کرنے والے ممالک میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے اگر اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مناسب اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2025 کا سورج اپنے ساتھ خشک سالی کا عذاب پاکستانی قوم پر مسلط کرسکتا ہے لہذا اس حوالے سے فوری پالیسیز ترتیب دینے کی ضرورت ہے ایسے میں میں ڈیمز فنڈ کا اقدام قابل تحسین ہے۔

پاکستان دن بدن معاشی بدحالی کی طرف بڑھ رہا ہے غربت اور مہنگائی کی شرح میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ایسے میں موجودہ حکومت کا 100 دن میں عام آدمی کو ریلیف دینے کا ہدف پورا ہوتے نظر نہیں آرہا کیونکہ اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں حالیہ خطرناک اضافہ غربت میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ ایسے میں ریاست مدینہ کو بطور رول ماڈل بنانے کا عزم تو خوش آئند دکھائی دیتا ہے مگر حقیقی تبدیلی تب رونما ہوگی جب حقیقتاً آئین ریاست مدینہ کے مطابق معاشی پالیسز وضع کی جائیں گی۔ اگر امراء سے محصولات، زکوٰۃ کے ذریعے پیسہ لے کر غرباء میں شفاف طریقے سے تقسیم کیا جائے تو خلافت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح وہ وقت پاکستان میں بھی ضرور آسکتا ہے جب زکوٰۃ دینے والے تو بہت ہوں لینے والا کوئی نہ ہو۔ پاکستان کو اس معاشی بد حالی سے نکالنے کے لئے حکومت کو ذاتی مفادات بالائے طاق رکھ کر ملک کے وسیع تر مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے پالیسیز وضع کرنا ہوں گی۔ پاکستان کو اس وقت معاشی، سیاسی اصلاحات کی شدید ضرورت ہے جو ہمارے ملکی تشخص کی بقاء کے لیے بھی ناگزیر ہے۔