آج کے طلباء اور مستقبل کے زعماء

ڈاکٹر ابوالحسن الازہری

انسان کا وجود اس کائنات میں اس کی پیدائش کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، یہ انسان جب اپنے بچپن میں چلنے پھرنے، بولنے سمجھنے اور کچھ سوچنے کے قابل ہوتا ہے تو اس وجود میں انسانیت کو پیدا کرنے کے لیے انسانی اقدار کی تعلیم اور تربیت کا عمل شروع کردیا جاتا ہے۔ انسان سازی کا یہ مرحلہ جس عنوان سے شروع ہوتا ہے اسے طالب علمی کا زمانہ کہتے ہیں۔

انسان کی شخصیت کو بنانے اور سنوارنے کا یہ عمل بچپن سے شروع ہوجاتا ہے انسان اپنی زندگی کے ابتدائی 18 سال تعلیم و تربیت کے مختلف مراحل میں گزار دیتا ہے اور یہی زمانہ طالب علمی ہی اس کے مستقبل کے خدوخال واضح کردیتا ہے اور اس کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کی جہت کا تعین کردیتا ہے، زندگی کے میدانوں میں سے اس کی کاوش اور خوابوں کا ایک میدان مقرر کردیتا ہے۔

طالب علم انسانی معاشرے کا سب سے زیادہ موثر طبقہ ہے، قوم کا تشخص ان ہی کے کردار سے بنتا ہے قوم کے رجحانات اور میلانات میں ان کی زندگی کا مطالعہ انتہائی اہمیت رکھتا ہے، طالب علمی کی زندگی میں ان کا حسن کردار ان کے روشن مستقبل کی خبر دیتا ہے۔ قوم کی قیادت اور سیادت کے حقدار یہی نفوس ٹھہرتے ہیں، قوم کی فکر کے معاشرتی پیغامبر یہی ہوتے ہیں قوم کی خرابیوں کو اچھائیوں سے بدلنے والے بھی یہی ہوتے ہیں۔ ان کی زمانہ طالب علمی کی ریاضت ان کو قوم کے منصب قیادت پر فائز کردیتی ہے۔

انسانی تعلیم و تربیت کی اسی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے باری تعالیٰ نے سورۃ العلق میں ارشاد فرمایا:

پہلی وحی اور فروغ و ابلاغِ علم

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ. خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ. الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ.

’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔ اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘

(العلق، 96: 1 تا 5)

اس آیت کریمہ میں لفظ اقراء اپنے اندر معانی و معارف کے سمندر رکھتا ہے۔ یہ قرآن حکیم کی پہلی وحی ہے اللہ رب العزت رسول کے واسطے اور وسیلے سے آپ کی امت اور اپنے بندوں سے مخاطب ہورہا ہے۔ پہلی وحی کے لیے پہلا لفظ یقینا اپنے اندر خاص معانی اور لوازمات رکھتا ہے۔ اقراء کا لفظ لاکر اسلام کی حقیقت اور اس کی بنیادوں کو واضح کردیا ہے۔ اسلام ہمیشہ پڑھنے، پڑھانے اور علم و تعلیم کا نام ہے۔ اسلام اور اس کی تعلیمات کی بنیاد علم ہے۔ جہالت کا اور جہلاء کا اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ اس کا سروکار علم سے ہے۔ فروغ علم کی ہر کوشش اسلام کے فروغ کی کاوش ہے۔

اقراء کا تصور جب عملی حقیقت میں ڈھلتا ہے تو اس سے تعلیم و تدریس کا عمل جنم لیتا ہے اقراء کا لفظ پڑھنے اور پڑھانے کے عمل کو ثابت کرتا ہے اور علم بالقلم کے الفاظ سے تعلیم میں تحقیق و تفتیش کے تصورات ثابت ہوتے ہیں۔ آج یونیورسٹی سطح پر علم و تحقیق دونوں کو جمع کردیا گیا ہے۔ تعلیم، تحقیق کے بغیر نامکمل ہے۔ تحقیق کے لیے بنیادی تصورات کی پہلے تعلیم ضروری ہے۔ اسی بناء پر آج جب علم کی بات کی جاتی ہے تو اس میں تعلیم اور تحقیق دونوں مل کر علم کی صورت میں متشکل ہوتے ہیں۔ جب علم عمدہ تعلیم اور بہترین تحقیق کے مراحل سے گزرتا ہے تو وہ تخلیقی علم کا روپ دھارتا ہے۔ اب اس علم میں مالم یعلم کی ساری صورتیں حل ہونے لگتی ہیں۔ انسان کی مضبوط تعلیمی اور تحقیقی زمین سے تخلیقی علم کے سوتے پھوٹنے لگتے ہیں۔

اسلام اور قلم کا لزوم

تعلیم کے ساتھ تحقیق کی اہمیت کو مزید واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ.

’’قسم ہے قلم کی اور جو کچھ وہ لکھتے ہیں۔‘‘

(القلم، 68: 1)

علم و تحقیق کی نشر و اشاعت کا سب سے زیادہ موثر اور بے مثال ذریعہ خود قلم ہے اور قلم کی اسی جلالت شان کو ظاہر کرنے کے لیے باری تعالیٰ نے اس کی قسم اٹھائی ہے۔ قلم کا استعمال کرنے والی قوم حکمت و دانش کے کارواں کی قیادت کرتی رہتی ہے۔ ایک بہترین محقق وہ ہے جس کے ہاتھ میں قلم ہر لحظہ رواں دواں رہے اور ایک عمدہ طالب علم وہ ہے جو قلم کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرے۔ ایک سچے محقق اور علم سے باوفا طالب کی کیفیت قلم کے باب میں یہ ہو کہ

ہاتھ میں آیا قلم اور شوق کا دفتر کھلا

قلم کا استعمال یہ تعلیم وتحقیق سے استعارہ ہے علم کے لیے قلم ضروری ہے اور قلم کا بہترین استعمال علم کا اظہار ہے۔ قرآن ہر مسلمان کو طالب علم بناتا ہے۔ اس میں زمانے کی کوئی قید و شرط نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علوم الہٰیہ کے طالب اول

قرآن کے نزدیک طالب علم وہ ہے جس کی طلب علم کی خواہش ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی جائے۔ طلب علم یہ آرزوئے بحرِ بے کنار ہے باری تعالیٰ نے اپنے علوم کا سب سے پہلا طالب قرآن حکیم میں اپنے رسول کو بنایا ہے۔ رسول اللہ کا اسوہ حسنہ امت کے لیے یہ قرار پایا کہ ہر لحظہ طلب علم کی جستجو اور آرزو کو بڑھایا جائے۔ قرآن نے رسول اللہ کو علم میں طلب مزید کی جو دعا سکھائی ہے وہ آپ کی سنت کی اتباع میں ہر مسلمان کا منصبی فرض ہے اور وہ علم میں زیادتی اور کثرت کا اسی طرح طالب رہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طلب علم کی کثرت اور اضافہ کی دعا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:

وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًا.

’’اور آپ (رب کے حضور یہ) عرض کیا کریں کہ اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے۔‘‘

(طه، 20: 114)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائوں میں سے لفظ علم کو یہ انفرادیت حاصل ہے۔ اس لفظ کے ساتھ زیادت کا لفظ استعمال ہوا ہے اور اس لفظ علم کے ساتھ فریضۃ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ اس حوالے سے یوں بیان کیا ہے۔

طلب العلم فریضة علی کل مسلم.

’’علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔‘‘

قرآن کہتا ہے ہر مسلمان علم میں زیادت اور کثرت کی دعا کرے اور اپنے علم کو ہر لحظہ زیادہ کرنے کے لیے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں ملتجی رہے۔ گویا علم میں کثرت زیادت اور اضافے کی آرزو اس میں مچلتی رہے اور یہ علم میں زیادت کی درخواست ایک فرض میں ڈھل جائے اورجب کوئی عمل فرض ہوجاتا ہے تو وہ ہر صورت میں ادائیگی کا تقاضا کرتا ہے۔ گویا علم ایک فرض ہے جس کو ادا کرنے اور اس کو حاصل کرنے کا ہر مسلمان پابند ہے۔ اس فرضیت علم کا تقاضا یہ تھا اور یہ ہے کہ ملت اسلامیہ میں اسلامی ممالک بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص جہالت اور ناخواندگی سرے سے نہ ہوتی اس لیے پاکستان کا قیام ہی اسلام کے نام پر ہوا ہے۔ جہالت سے قوم و ملت کی ہلاکت ہے۔ علم کے حصول میں قوم کی عزت و رفعت مقدر بنتی ہے۔

علم میں فرد اور قوم کی حیات

علم میں اللہ رب العزت نے حیات کی قوت رکھی ہے یہ علم جس ذہن و دل میں آتا ہے اس کی حیات کو دوبالا کردیتا ہے۔ اس کی چمک دمک اور اس کی ترو تازگی میں اضافہ کردیتا ہے۔ دل کے مردہ پن کو حیات نو دے دیتا ہے یہ دل و دماغ کو ایسے ہی حیات دیتا ہے جیسے بارش زمین کو زرخیز اور شاداب بنادیتی ہے۔

العلم فیه حیاة القلوب کما تحتی البلاد اذا ما مستها المطر.

علم سے دلوں کو حیات ملتی ہے جیسے بارش سے بستیاں اور مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے۔ علم بھی مردہ قوموں کو زندہ قوم بنادیتا ہے علم قوموں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے ان کے وقار اور اعتبار میں اضافہ کرتا ہے، ان کی پستی کو بلندی میں تبدیل کرتا ہے۔ اگر اس کے برعکس صورت ہو اور کوئی قوم اور کوئی فرد علم میں کمزور رہ جائے وہ تو یہ علمی کمزوری اس قوم اور فرد کو پستی کی طرف لے جاتی ہے اور علم پستی ذلت و رسوائی کا سبب بنتی ہے اس قوم کی تقدیر کا ہر کوئی مالک بن رہا ہوتا ہے۔ اس قوم کی پستی کی بنا پر ہر کوئی اس کا خریدار ہوتا ہے ایک مفلس و بے حال شخص اس کمزور قوم کا سودا لگانے سے اعراض نہیں کرتا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:

ولقد هزلت حتی یدامن هزلها کلاها وحتی سامها کل نفس.

وہ کمزور ہوگیا یہاں تک کمزوری سے اس کی اونچ نیچ ظاہر ہوگئی اور ہر غریب و مفلس نے اس کمزوری کی وجہ سے اس کی قیمت لگائی۔

(نقشبندی، روح الله، مولانا، مطالبه کي اهميت، مکتبه بیت العلم، کراتشي، ص: 64)

علم کا ذریعہ اور طریقہ مطالعہ کتاب

علم سے کمزوری ایک طالب علم میں اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب اس کا کتاب سے تعلق کٹا ہے اور جب اس کا جی پڑھنے سے اور مطالعہ کرنے سے اڑتا اور رکتا ہے حالانکہ کتاب اور اس کا مطالعہ انسان کے لیے علم و فہم اور عقل و دانائی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اسی وجہ الشاہ محمد اسداللہ نے کیا خوب کہا ہے:

علم و فہم عقل و دانائی کا دفتر ہے کتاب، طالب علم وہ ہے جو طالب کتاب ہے جو طالب کتاب نہیں اور طالب قرات نہیں وہ طالب علم بھی نہیں ہے۔ اس لیے کتاب تو طالب علم کے لیے دلربا ہے اور دلبر ہے اس لیے کسی نے کیا خوب کہا:

دلربا، دلکش، دلدار و دلبر ہے کتاب

(نقشبندی، روح الله، مولانا، مطالبه کي اهميت، مکتبه بیت العلم، کراتشي، ص: 128)

کتاب سے طالب علم سے تعلق، اس کے مطالعہ سے آگے بڑھتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہے انسان کی طبیعت اس کی تربیت سے بنتی ہے اور علم ہمیشہ تلاش سے ملتا ہے۔ آج طلباء کو وہ سہولتیں حاصل ہیں جن کا پہلے کبھی طلباء کی زندگیوں میں تصور بھی نہ تھا۔ آج ہر جگہ چپہ چپہ پر تعلیمی مراکز موجود ہیں اور ان میں اعلیٰ تعلیم کا انتظام ہے۔ مگر آج کے طالب علم میں کتاب سے وہ انس موجود نہیں جس کی جھلک پہلے دکھائی دیتی تھی۔ آج مطالعہ و اسٹڈیز کے وہ مناظر نظر نہیں آتے جو پہلے طلباء کی شخصیتوں کی لازمی شناخت تھے اور استاد کی عزت و احترام کے تصورات بھی آج ماند دکھائی دیتے ہیں۔ اس حقیقت میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ طلباء کو بہت کمزوریوں سے بچاتا ہے۔ جوں جوں انسان مطالعہ و اسٹڈیز کرتا چلا جاتا ہے۔ علم میں پختہ اور مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ طالب علم کی زندگی میں مطالعہ کی اہمیت اور افادیت کیا ہے اسے اجاگر کرتے ہوئے اسعداللہ نے کیا خوب کہا ہے:

انسان کو بناتا ہے اکمل مطالعہ
ہے چشم دل کے واسطے کاجل مطالعہ

دنیاکے ہر ہنر سے ہے افضل مطالعہ
کرتا ہے آدمی کو مکمل مطالعہ

(نقشبندی، روح الله، مولانا، مطالبه کي اهميت، مکتبه بیت العلم، کراتشي، ص: 253)

کلاس لیکچر کی حفاظت کا مروج اسلوب

شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور دیگر اسلاف امت ایک طالب علم کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ جب اپنی کلاس میں جائے تو اس کلاس میں جو لیکچر دیا جائے اسے یاد بھی کرکے اور اسے لکھ کر اپنے پاس محفوظ بھی کرے۔ گویا اپنے لیکچر کی حفاظت بذریعہ یاداشت اور بذریعہ کتابت کرے لیکن عصر حاضر میں عمومی سطح پر حافظے کی قوت بے مثل نہیں رہی۔ اس لیے لیکچر کی کتابت اور اس کی تحریری یاداشت کو ترجیح دے۔ اس لیے وہ فرماتے ہیں:

من حفظ شیئا فرد من کتب شیئا قرء.

جس نے کسی چیز کو یاد کیا وہ مستقل باقی نہ رہی اور جس نے کسی چیز کو لکھا وہ مستقل باقی رہی۔ کلاس میں آنا اور لیکچر سننا یہ طالب علم کا تعلیمی فرض ہے اور فرض ہر حال میں اور ہر موسم میں اور ہر روز ادائیگی اور کمال بجا آوری کا تقاضا کرتا ہے۔ شریعت میں فرض چھوڑنا انسان کی گنہگار بناتا ہے اور کلاس کے فرض کو چھوڑنا طالب علم کو بیکار بناتا ہے۔

تعلیم کا مقصد، آدمیت و انسانیت کی تشکیل

تعلیم کا یہ سارا عمل ہماری جامعاتی زبان میں کورس ہے ہم ہر سمیسٹر میں اپنے کورس کا اختتام کرتے ہیں، کورس کی تکمیل کے ساتھ ایک طالب علم میں آدمیت اور انسانیت کی تکمیل بھی کرنی ہوتی ہے۔ اس لیے اکبر الہ آبادی نے کہا:

کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں
آدمی آدمی بناتے ہیں

اور کورس، کتابیں الفاظ اور ان کے معانی و مطالب اور ان کے مفاہیم و معارف سکھاتے ہیں جبکہ ایک قابل استاد کی صحبت، سنگت، رفاقت اور معیت انسان کو پتھر سے ہیرا بنادیتی ہے۔ ایک طالب علم نے اپنی زندگی کے طالبعلمانہ کمال سے عالمانہ اور قائدانہ کمال تک پہنچانا ہے جو آج قابل ہے وہ کل بھی قابل فخر ہے۔ جس کا آج سنورا ہے اس کا کل بھی تابدار ہے جس میں آج علمی علوت ہے اس میں کل قائدانہ جلوت ہے جو آج صلاحیتوں میں باکمال ہے وہ کل تجرباتی استعدادوں میں لازوال ہے۔ آج ایک طالب علم کو صرف یونیورسٹی کے امتحانات پاس نہیں کرنے بلکہ کل آنے والی زندگی کے عملی امتحانات بھی پاس کرنے ہیں، جس کا آج اچھا ہے اور اس کا کل بھی عمدہ ہے۔ اسلام ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں تیاری کا حکم دیتا ہے اور اپنی فطرتی صلاحیتوں کی آبیاری کی تعلیم دیتا ہے۔ زندگی کے چیلنجوں کا سامنے کرنے کے لیے بلند ہمتی کا درس دیتا ہے۔

اس لیے ارشاد فرمایا:

وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ.

’’اور (اے مسلمانو!) ان کے (مقابلے کے) لیے تم سے جس قدر ہو سکے (ہتھیاروں اور آلاتِ جنگ کی) قوت مہیا کر رکھو۔‘‘

(الانفال، 8: 60)

قوم کے مستقبل کی تیاری اور تعلیمی اداروں کی ذمہ داری

آج یونیورسٹیوں، کالجوں، سکولوں اور جملہ تعلیمی اداروں سے ہمیں قوم کا مستقبل تیار کرنا ہے، معماران پاکستان تیار کرنے میں مستقبل کی قیادت تیار کرنی ہے، قرآن نے قیادت کی تیاری اور معیار قیادت کا یہ ضابطہ دیا ہے، قیادت کی اہلیت کا یہ معیار مقرر کیا ہے اور منصب قیادت پر فائز ہونے اور فائز کئے جانے اور اس پر متمکن ہونے اور کسی پر لفظ قائد کے اجراء کا یہ اصول دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

اِنَّ ﷲَ اصْطَفٰهُ عَلَیْکُمْ وَزَادَهٗ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ.

’’بے شک اﷲ نے اسے تم پر منتخب کر لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ کشادگی عطا فرما دی ہے۔‘‘

(البقره، 2: 247)

مختلف مترجمین نے اس آیت کا اس طرح ترجمہ کیا ہے۔ پیر کرم شاہ الازہری نے یوں کیا ہے:

اسے علم اور جسم میں زیادہ کشادگی دی ہے۔

(کرم شاه الازهری، ضیاء القرآن، سورة البقره کي تفسير، آیت: 247)

سید ابوالاعلی مودودی نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:

اس کو دماغی اور جسمانی دونوں اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں۔

(مودودی، ابوالاعلیٰ سید، تفهیم القرآن، سورة البقره کي تفسير، آیت نمبر: 247)

گویا معیار قیادت یہ ٹھہرا آج کا طالب علم اپنے جسم یعنی فعل و عمل میں بھی کامل ہو اور اپنی ذہنی و دماغی صلاحیتوں اور اپنے علم و تحقیق میں بھی اکمل ہو۔ منصب قیادت کا ضابطہ، اصول اور معیار یہ ملا اپنے علم میں پختہ ہو، ایک ٹھوس اور جامع علم اس کے پاس ہو، اپنے علم میں صاحب کمال ہو، علم کی دنیا کے لوگ اس کی علمی قیادت کو تسلیم کریں اس کی علمی رہبری سب پر مسلم ہو، اس کی علمی پختگی سب پر عیاں ہو، زمانہ اس کے علم کا معترف ہو اس کا علمی تشخص مسلم ہو اور اس کے ساتھ دوسری خوبی میں اس میں یہ پائی جائے وہ اپنے عمل میں انتھک ہو۔ جہد مسلسل کا عادی ہو، اپنے کام کو انتہائی عمدگی کے ساتھ ادا کرسکتا ہو اور اپنے منصبی کام و عمل میں پست معیار نہ ہو۔ کام کو کرنا اور اس کو سنوارنا اس کو آتا ہو، اپنے عمل کو عمدگی اور اعلیٰ معیار پر سرانجام دینا اس کی شناخت ہو تو ایسا فرد معیار قیادت کے دوسرے وصف کی تکمیل کرتا ہے۔

خلاصہ کلام

آج کے طلباء اگر اپنے تعلیمی فرض کو کماحقہ ادا کردیں اور اس تعلیمی فرض کے تمام تر تقاضوں کو سرانجام دے دیں اور اپنے علمی فرض کو حسن کمال تک پہنچادیں تو ایسے طلباء ہی اس قوم کے مستقبل کے زعما ہیں اور راہنما ہیں۔

تعلیمی ادارے انسان سازی کی فیکٹریاں اور صنعتیں ہیں۔ تعلیمی اداروں میں انسانی شکل کے حامل ڈھانچوں کو اعلیٰ اخلاق و کردار سے آراستہ کرکے کامل انسان بنایا جاتا ہے۔ یہ تعلیمی ادارے شخصیت سازی کے لیے اعلیٰ رویوں اور بہترین عادات کی انسانی ڈھانچے میں تشکیل کرتے ہیں۔ ایک خام انسان کو علوم و فنون کی خوبیوں سے آراستہ کرتے ہیں۔ اس کے وجود میں علم وہنر کے چراغ جلاتے ہیں۔ اس خام انسان کو مرقع صفات اور علم و تحقیق کا پیکر بنا کہ معاشرے میں پیش کرتے ہیں۔

یہ انسان ہر جگہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منواتا چلا جاتا ہے۔ اپنی صفات کے اظہار کے ذریعے اپنی شخصیت کو معاشرتی اور قوی افق پر مسلم کرتا جاتا ہے۔ تعلیمی ادارے اپنی تاریخی روایات اور انسانی شخصیات کی تکمیل کے باب میں ہر سال اپنے دامن سے وابستہ ہونے والے، نئے داخل ہونے والے طلباء طالبات کو اپنی درو دیوار سے یہ صدائیں دیتے ہوئے خوش آمدید کہتے ہیں اور نئے آنے والوں کا یوں خیر مقدم کرتے ہیں۔

نیا چمن، نئی شاخیں، نئے گلاب و سمن
نئی بہار کی اقدار لے کر آیا ہوں

اور استاد ایک مالی کی طرح اپنے علمی باغ کی رکھوالی کرتا ہے ان کی دیکھ بھال کرتا ہے ان کو مکمل اپنی حفاظت و نگہداشت میں رکھتا ہے۔ ان کے روشن مستقبل کے لیے اپنی جان مارتا ہے اور اپنے شب و روز ان کے لیے کھپاتا ہے۔ قوم کے اغیار ملک و وطن کے عداوت کار کو یہ اپنا پیغام عزم دیتا ہے۔

انہیں یہ ضد ہے کہ مسلط رہے چمن پہ خزاں
ہمیں یہ ضد ہے کہ بہاروں کو لاکر چھوڑیں گے

باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہر طالب علم کو اعلیٰ درجے کا انسان اور قوم و ملت کا عظیم ترین اثاثہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔