اقبال کا فلسفہ خودی کو سب سے زیادہ شہرت ملی

صائمہ ابراہیم

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں ہر طرح کے فلسفیانہ خیالات پائے جاتے ہیں لیکن ان کے نام اور کلام کو جس چیز سے زیادہ مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی ہے وہ فلسفہ خودی ہے مگر خودی سے مراد فخر و غرور نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ ذاتی استقلال ہے جو ہر مخلوق کے علم و عمل کو ایک مخصوص دائرے میں نمایاں کرتا ہے۔ انسان کو نشوونما اور بالیدگی کا سامان فراہم کرنا ہے۔

دراصل خودی اور وحدانیت کا بہت گہرا تعلق ہے کیونکہ جب ایک انسان یہ کہتا ہے لا الہ الا اللہ کہ نہیں کوئی معبود اللہ کے سوا تو اس کے دل سے غیر اللہ کا خوف نکل جاتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر انسان کی خودی بیدار ہوتی ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا

(کلیات اقبال اردو، بال جبریل، ص: 359)

لہذا اقبال کے اس شعر سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اگر انسان کی خودی بیدار ہوجائے تو پھر اس میں اس قدر طاقت ہوتی ہے کہ پھر وہ خدائے واحد کے سوا کسی کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتا ہے۔ اس لیے انسان کی خودی اس طرح سے بیدار ہوکہ پھر اس پر کوئی چیز غالب نہ آسکے۔

خودی کا نشیمن تیرے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے

(کلیات اقبال، اردو، بال جبریل، ص: 456)

اسی لیے اقبال نے انسان کو ’’انسان کامل‘‘ بننے کے لیے خودی کی تعلیم دی ہے اور فرمایا کہ اس کی تربیت کے تین مرحلے ہیں جو شخص بھی مکتب خودی میں داخل ہوتا ہے سب سے پہلے اطاعت کے مرحلے سے گزرتا ہے۔ اطاعت سے مقصود اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہے۔ انسان کی زندگی میں اگر اطاعت نہ ہو تو انسان زندگی کے کسی شعبے میں ترقی نہیں کرسکتا ہے۔ اس لیے اقبال نے خودی کی تکمیل کا اولین مرحلہ اطاعت قرار دیا ہے۔ اس لیے ایک انسان ’’انسان کامل‘‘ تب بنتا ہے جب وہ اپنے اوپر اطاعت کو لازمی قرار دیتا ہے۔ اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لازمی پیروی کرنا ہوتی ے۔ وہ شریعت کی پوری پابندی کرتا ہے۔ عبادت الہٰی بجا لاتا ہے۔ حقوق العباد کے سلسلے میں اس سے کوئی کوتاہی سر زد نہیں ہوتی ہے۔ اس طرح اس کی زندگی ایک خاص اسلامی سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔ اسی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہی وہ کمال کے درجے تک پہنچتا ہے اور اس سے ہی اس کی خودی کی تکمیل ہوتی ہے اور انسان کامل تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ:

تو ہم از بار فرائض سر متاب
بر خودی از عندہ حسن المآب

در اطاعت کوش اے غفلت شعار
می شو داز جبر پیدا اختیار

ناکس از فرمان پذیری کس شود
آتش از باشدز طغیاں خس شود

(کلیات اقبال فارسی، اسرار و رموز، ص: 41)

’’(اے انسان) ان فرضوں کے بوجھ سے سرتابی نہ کر، منہ نہ موڑ، جو خدا نے تیرے ذمے لگادیئے ہیں (تاکہ) تو عندہ حسن المآب کا پھل پائے۔ اس طرح تو اس سے بہترین ٹھکانہ پائے گا۔ اے غفلت کے عادی انسان تو اطاعت کی کوشش کر، یاد رکھ کہ جبر ہی سے اختیار پیدا ہوتا ہے۔ سچے احکام کی پابندی ایسی شے ہے جو نکمے اور بے حقیقت آدمی کو بھی واقعی انسان بنادیتی ہے۔ اس کے برعکس سرکشی کا یہ حال ہے کہ اگر وہ آگ بھی ہے تو سرکشی کی بنا پر اس کی حیثیت تنکے کی ہے‘‘۔

خودی کے لیے کردار کی بڑی اہمیت ہے۔ اس شخص کی خودی کی تکمیل ہوتی ہے۔ جس کے کردار کی تکمیل ہو اور کائنات میں انسان کامل کی تکمیل خودی کی تکمیل سے ہوتی ہے۔ اس لیے تو علامہ اقبال نے انسان کامل بننے کے لیے خودی کی تکمیل کو لازمی قرار دیا ہے۔ خودی کی تکمیل کا دوسرا مرحلہ ضبط نفس ہے۔ اس مرحلے میں اقبال اسلام کے ارکان خمسہ کی پابندی کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور یہی وہ ارکان ہیں کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج جس کی مشق کرنے سے انسان اپنے نفس پر قابو پاتا ہے اور جب انسان اپنے نفس پر قابو پالیتا ہے تو وہ درجہ کمال تک پہنچ جاتا ہے جو اسے انسان کامل کا لقب عطا کرتا ہے۔

اسی لیے تو اقبال کہتے ہیں:

ایں ھمہ اسباب استحکام تست
پختہ، محکم اگر اسلام تست

(کلیا اقبال فارسی، اسرار و رموز، ص: 43)

’’یہ سب (ارکان اسلام) تیری پختگی ومضبوطی کا سامان ہیں، اگر تیرااسلام مضبوط ہے تو تُو خود بھی مضبوط ہے‘‘۔

پھر خودی کی تکمیل کا آخری مرحلہ نیابت الہٰی ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جس پر پہنچنے سے انسان خلیفۃ اللہ فی الارض ہونے کا مستحق ہوجاتا ہے اور وہ اسی مقام تک پہنچ کر انی جاعل فی الارض خلیفۃ کی صداقت کا صحیح معنوں میں احساس کرسکتا ہے۔ اورجو شخص نیابت الہٰی اور خلیفۃ اللہ فی الارض ہونے کا مستحق ٹھہرتا ہے وہ ہی انسان کامل کہلاتا ہے اور یہی انسان کے روحانی ارتقاء کا خلاصہ ہے۔

عمرھا در کعبہ و تبخانہ می نالا حیات
تا ز بزم عق یک دانائے راز آید بروں

(کلیات اقبال فارسی، زبور عجم، ص: 73)

اقبال کے نزدیک یہ عقیدہ ہے کہ خودی مدتوں تک مسلسل روتی رہتی ہے تو کہیں جاکر ایک انسان کامل کا ظہور ہوتا ہے۔ اب اس دانائے راز کا ظہور حقیقت محمدیہ کی صورت میں ہوچکا ہے۔

لیکن اقبال کا کہنا ہے کہ اگر انسان اپنی خودی کی تکمیل کرے اور قرآنی آیت (لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة) (الاحزاب، 33: 21) کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکت کو نمونہ قرار دے کر انسان کامل بننے کی کوشش کرسکتا ہے کیونکہ علامہ اقبال کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان کے اندر خلیفۃ اللہ بننے کی صلاحیت موجود ہے۔

اس لیے انسان اگر چاہے تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ پر عمل کرکے انسان کامل کے مقام تک پہنچ سکتا ہے۔