آثارِ قلم: میلاد مصطفی ﷺ کی خوشی منانا شکرِ الہٰی بجا لانا ہے

ماریہ عروج

کتاب کا عنوان

زیر مطالعہ کتاب کا عنوان ’’میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو حسن و جمال کی جلوہ آرائیوں کا مرقع بنایا ہے۔ عالم آفاق کے خارجی مظاہر قدم قدم پر دامن کش دل ہوتے ہیں۔ اگر چشم بصیرت سے دیکھا جائے تو ان مظاہر کائنات کی اصل نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور نے تاریخ عالم میں انقلاب برپا کیا۔ کفرو جہالت اور فرسودگی کے تمام آثار ملیا میٹ ہوگئے اور دنیا میں توحید باری تعالیٰ کی شمع روشن ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ازل تا ابد جاری و ساری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وجود میں لانے سے قبل ہی آپ کا چرچا کردیا تھا۔ آج امت مسلمہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں جو محافل کا انعقاد کرتی ہے وہ اسی نور کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جو ازل تا ابد جاری و ساری ہے۔ زیر مطالعہ کتاب میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختلف پہلوئوں پر قرآن و سنت، آثار صحابہ اور اقوال آئمہ و محدثین کی روشنی میں جامع بحث کی گئی ہے۔

سبب تالیف

مسلمانوں میں سے کچھ حضرات ایسے ہیں جو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے موقع پر فتوی بازی کرتے ہیں اور جمہور مسلمانوں کو کفرو شرک اور بدعت کا مرتکب ٹھہراتے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہے کہ اس عمل کا کوئی شرعی ثبوت نہیں ہے اور یہ توحید کے منافی ہے۔ چنانچہ ایسی سوچ رکھنے والے افراد کا مغالطہ دور کرنے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کئی خطابات کئے اور یہ کتاب لکھی۔ اس کتاب میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دلائل شرعیہ کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توحید کے منافی نہیں بلکہ عین توحید ہے۔ اس کتاب کو اس موضوع کا انسائیکلو پیڈیا بھی کہا جاسکتا ہے۔

کتاب کا خلاصہ

جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی تاریخی خوشی میں مسرت و شادمانی کا اظہار ہے۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی اپنے یوم ولادت کی تعظیم فرماتے اور اس کائنات میں اپنے ظہور وجود پر سپاس گزار ہوتے ہوئے پیر کے دن روزہ رکھتے۔ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک اہم مقصد محبت و قرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصول و فروغ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی سے مسلمانوں کے تعلق کا احیاء ہے اور یہ احیاء منشاء شریعت ہے۔

جس طرح ماہ رمضان المبارک کو اللہ رب العزت نے قرآن حکیم کی عظمت و شان کے طفیل دیگر تمام مہینوں پر امتیاز عطا فرمایا ہے۔ اسی طرح ماہ ربیع الاول کے امتیاز اور انفرادیت کی وجہ بھی اس میں صاحب قرآن کی تشریف آوری ہے۔ یہ ماہ مبارک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے صدقے جملہ مہینوں پر نمایاں فضیلت اور امتیاز کا حامل ہے۔

اس کائنات انسانی پر اللہ رب العزت نے بے حدو حساب احسانات و انعامات فرمائے۔ ذات باری تعالیٰ نے ہمیں لاتعداد نعمتوں سے نوازا جن میں سے ہر نعمت دوسروں سے بڑھ کر ہے لیکن اس نے بھی کسی نعمت پر احسان نہیں جتلایا لیکن ایک نعمت ایسی ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نے جب اسے اپنے حریم کبریائی سے نوع انسانی کی طرف بھیجا تو پوری کائنات نعمت میں صرف اس پر اپنا احسان جتلایا اور اس کا اظہار بھی عام پیرائے میں نہیں کیا بلکہ اہل ایمان کو اس کا احساس دلایا۔

مومنین سے روئے خطاب کرکے ارشاد فرمایا:

لَقَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِهِمْ.

’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا ‘‘۔

(آل عمران، 3: 164)

اسلام میں اللہ کی نعمتوں اور اس کے فضل و کرم پر شکر بجا لانا تقاضائے عبودیت و بندگی ہے۔ قرآن پاک میں اس کی جو حکمت بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ

’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا‘‘۔

’’اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقینا سخت ہے‘‘۔

(ابراهیم: 7)

اس آیت کریمہ کی رو سے نعمتوں پر شکر بجا لانا مزید نعمتوں کے حصول کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ نعمتوں پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا سنت انبیاء علیہ السلام بھی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم کے لیے نعمت فائدہ طلب کی تو اپنے رب کے حضور یوں عرض گزار ہوئے:

’’اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوان (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید (یعنی خوشی کا دن) ہوجائے ہمارے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے (تیری قدرت کاملہ کی) نشانی ہو‘‘۔

(المائدة: 116)

قرآن مجید نے اس آیت کریمہ کے ذریعے اپنے نبی کے حوالے سے امت مسلمہ کویہ تصور دیا ہے کہ جس دن نعمت الہٰی کا نزول ہو اس دن جشن منانا شکرانہ نعمت کی مستحسن صورت ہے۔ یہاں مائدہ جیسی عارضی نعمت پر عید منانے کا ذکر ہے۔ عیسائی لوگ آج تک اتوار کے دن اس نعمت کے حصول پر بطور شکرانہ عید مناتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا نزول مائدہ جیسی نعمت کی ولادت و بعثت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی نسبت ہوسکتی ہے؟ اس نعمت عظمیٰ پر تو مائدہ جیسی کروڑوں نعمتیں نثار کی جاسکتی ہیں۔

صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ جب ایک یہودی نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ جس دن آیت (الیوم اکملت لکم دینکم) نازل ہوئی اس دن کو بطور عید مناتے ہیں؟ اگر ہماری تورات میں ایسی آیت نازل ہوئی تو ہم اسے ضرور یوم عید بنالیتے۔ اس کے جواب میں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم اس دن اور جگہ کو جہاں یہ آیت نازل ہوئی خوب پہچانتے ہیں۔ یہ آیت یوم جمعہ اور یوم حج کو میدان عرفات میں اتری تھی اور ہمارے لیے یہ دونوں دن عید کے ہیں۔ اگر تکمیل دین کی آیت کے نزول کا دن بطور عید منانے کا جواز ہے تو جس دن خود محسن انسانیت اس دنیا میں تشریف لائے اسے بطور عید میلاد کیوں نہیں منایا جاسکتا۔ روایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے میلاد کی خوشی میں بکرے ذبح کرکے ضیافت کا اہتمام فرمایا۔

اس کائنات میں ایک مومن کے لیے سب سے بڑی خوشی اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ماہ ولادت آئے تو اسے یوں محسوس ہونے لگے کہ کائنات کی ساری خوشیاں ہیچ ہیں اور اس کے لیے میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی ہی حقیقی خوشی ہے۔ جس طرح امم سابقہ پر اس سے بدرجہ ہا کم تر احسان اور نعمت عطا ہونے کی صورت میں واجب کیا گیا تھا جبکہ ان امتوں پر جو نعمت ہوئی وہ عارضی اور وقتی تھی اس کے مقابلے میں جو دائمی اور ابدی نعمت عظمیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے ظہور قدسی کی صورت میں امت مسلمہ پر ہوئی ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ بدرجہ اتم سراپا تشکر و امتنان بن جائے اور اظہار خوشی و مسرت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔

قرآن مجید نے بڑے بلیغ انداز سے جملہ نوع انسانی کو اس نعمت کو یاد رکھنے کا حکم دیا ہے جو محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں انہیں عطا ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے اور اپنے اوپر (کی گئی) اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔

ان ٹوٹے ہوئے دلوں کو پھر سے جوڑنا اور گروہوں میں بٹی ہوئی انسانیت کو رشتہ اخوت و محبت میں پرودینا اتنا بڑا واقعہ ہے جس کی کوئی نظیر تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ لہذا میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوشی منانا اور شکر الہٰی بجا لانا امت مسلمہ پر سب خوشیوں سے بڑھ کر واجب کا درجہ رکھتا ہے۔