راہ نوردِ شوق: عظمیٰ کاردار کا انٹرویو

انٹرویو پینل: ام حبیبہ، زینب ارشد

سانحہ ماڈل ٹاؤن ریاستی جبرو بربریت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ جس میں چودہ لوگوں کو دن دیہاڑے گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایک طرف اگر عورت کو سر عام تھپڑ بھی ماردیا جائے تو از خود نوٹس لے لیا جاتا ہے یا خواتین کے حقوق کی تنظیمیں آواز ضرور بلند کرتی ہیں مگر افسوس سانحہ ماڈل ٹاؤن میں شہید کی گئی شازیہ مرتضیٰ اور تنزیلہ امجد کے لیے ہماری سماجی تنظیمیں بھی خاموش رہیں جس سانحہ کی گواہ پوری 20 کروڑ عوام تھی۔ گذشتہ حکومت چونکہ اس سانحہ میں براہ راست ملوث تھی لہذا اس سانحہ پر خاطر خواہ اور حکومتی ایوانوں میں بلند نہیں کی گئی جبکہ موجودہ حکومت کی رہنما محترمہ عظمیٰ کاردار نے حال ہی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن پر پنجاب اسمبلی میں مذمتی قرار داد پیش کی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شہداء خواتین محترمہ شازیہ اور تنزیلہ کے لیے آواز اٹھائی۔ ان کی اس کاوش پر منہاج القرآن ویمن لیگ کے وفد نے ان سے ملاقات کرکے شکریہ بھی ادا کیا اور دختران اسلام کے لیے ان کا انٹرویو بھی کیا گیا جو قارئین کی نذر کیا جارہا ہے:

س: آپ اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیں؟

ج: میرا تعلق ایک سیاسی خاندان سے ہے۔ میرے نانا قائداعظم کے ساتھی تھے۔ میرے ماموں پنجاب کے پہلے فنانس منسٹر تھے جبکہ میں پہلی مرتبہ 1997ء میں ڈسٹرکٹ کونسل منتخب ہوئی۔ بعد ازاں ق لیگ میں کوآرڈینیٹر بھی رہی۔ بنیادی بطور پر میرا پیشہ تدریس ہے جس کے ایک بہت جانے پہچانے سکول میں اپنی خدمات دیتی رہی ہوں۔ جہاں سے حال ہی میں 22 سال بعد فارغ ہوئی ہوں۔ گذشتہ دس سال سے پی ٹی آئی میں ہوں جوکہ میں نے اپنے طلبہ کے اصرار پر جوائن کی تھی۔

س: پی ٹی آئی میں شمولیت کی کوئی خاص وجہ؟

ج: میرے نزدیک عمران خان ایک جہاں دیدہ انسان ہیں، انہیں کسی چیز کا لالچ نہیں ہے، ایماندار اور منکسرالمزاج انسان ہیں۔ قوم کے ساتھ انہوںنے جو وعدے کئے ہیں۔ ان شاء اللہ وہ ضرور پورے کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے مقصد میں حصول کے لیے تعاون کرنا پڑتا ہے۔ جلد ہی پاکستان کا سنہری دور شروع ہوگا۔

س: آپ نے پنجاب اسمبلی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن پر مذمتی قرار داد پیش کی اس حوالے سے کیا کہیں گی؟

ج: 4 سال قبل جب یہ سانحہ رونما ہوا تب سے تحریک انصاف حصول انصاف کے لیے تحریک منہاج القرآن کے ساتھ کھڑی ہے۔ عمران خان صاحب اور ہماری جماعت کے دیگر قائدین نے بارہا اس سانحہ کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ جولائی 2018ء میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی ہم اب بھی تحریک منہاج القرآن کارکنان کے قصاص کے لیے ان کے ساتھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے پنجاب اسمبلی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خلاف مذمتی قرار داد پیش کی کہ ریاستی جبر کے خلاف اعلیٰ ایوانوں میں آواز بلند ہو تاکہ پھر دلخراش واقعہ دہرایا نہ جائے۔

س: تحریک انصاف کی حکومت خواتین کے حقوق کے لیے قانون سازی پر عمل درآمد کے لیے کیا اقدامات کریں گے؟

ج: یہ بات درست ہے کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے عمل درآمد پر ہمارا نظام کمزور ہے جبکہ باہر کے ممالک میں قوانین سخت ہیں لیکن پاکستانی قانون میں عورت کے لیے کوئی تحفظ نہیں۔ باہر کے ممالک میں اگر مرد عورت کو طلاق دیتا ہے تو اس کی آدھی جائیداد ضبط کرلی جاتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستانی معاشرہ میں ماؤں کو بچوں کی پرورش کے لیے باپ کی طرف سے رقم نہیں ملتی۔ مائیں نوکریاں کرکے بچوں کی پرورش کرتی ہیں۔ خواتین کے حوالے سے جن سطحوں پر قانون سازی کی ضروت ہے آپ اپنی سفارشات بھیج سکتی ہیں جیسا کہ تحریک منہاج القرآن خواتین کے حقوق کے حوالے سے پروگرام کرواتا رہتا ہے۔ اس کا ایک ریسرچ کا شعبہ ہے۔ میں ضرور یہ کہوں گی کہ منہاج القرآن کا ویمن ونگ ہمیں خواتین کے حقوق کی بالادستی کے لیے اپنی سفارشات بھیجے میں اس کو قومی اسمبلی میں ضرور زیر بحث لاؤں گی۔

س: پاکستان میں تعلیم کا سر دست ہے تحریک انصاف اس مسئلہ کو کیسے حل کرسکتی ہے؟

ج: اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم سے قومیں بنتی ہیں میں کوئی بلند بانگ دعویٰ نہیں کرتی مگر جیسی ترقی تعلیمی میدان میں خیبرپختونخواہ میں ہوئی ہے ایسا ہی پورے پاکستان میں تعلیم کا جال پھیلانا ہے۔ تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے خان صاحب نے CCTV کمرے لگوائے جن اساتذہ کی کارکردگی بہتر تھی ان کو بونس دیئے گئے جس سے گورنمنٹ سطح پر سکول کا معیار بہتر ہوا ہے تقریباً 40 ہزار طلبہ پرائیویٹ سکول سے گورنمنٹ سیکٹر پر آئے ہیں۔ گورنمنٹ سکول کے معیار کو بہتر بنانے کے ساتھ پرائیویٹ سکول کو بھی ایک نظام کے تحت لانا ہے۔ ایسا تعلیمی نظام انہوں نے پورے پاکستان میں متعارف کروانا ہے۔ خان صاحب خیبر پختونخواہ کے صوبے کی تعلیم پر اتنا زور دیا ہے تو کیا باقی صوبے کے بچوں کو اچھی و معیاری تعلیم سے کیسے محروم رکھیں گے۔

اس میں شک نہیں کہ پورے سسٹم کو بہتر بنانے اور ادارے مضبوط کرنے کے لیے میجر سرجری کی ضرورت ہے سابقہ حکمران خزانہ خالی چھوڑ کر گئے ہیں وہ ملک کو مصنوعی طور پر چلارہے تھے۔ پانی اور گیس کی مد میں 6 سو ارب کا قرضہ ہے۔ ہر پاکستانی کو مقروض بنادیا ہے میٹرو بس میں 35 ارب کا خسارہ ہے۔ اب خان صاحب نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ باہر سے پیسہ لانے کے لیے ٹاسک فورس بنائی ہے۔ سوئس گورنمنٹ بھی حکومت سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس طرح سے آہستہ آہستہ کرپٹ عناصر کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ قبضہ مافیا پر بھی کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے۔

س: کیا موجودہ سیاسی نظام میں پرورش پانے والے سیاستدان عمران خان صاحب کے وژن کو لے کر چل سکیں گے؟

ج: بلاشبہ عمران خان مختلف جماعتوں کے سیاسی رہنماؤں کو ملاکر ایک سیاسی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن جن لوگوں کو کرپشن کی عادت ہے وہ ان سے فوری طور پر چھوٹ نہیں سکتی اس کے لیے خان صاحب کا نظریہ ہے کہ اداروں کو مضبوط کیا جائے گا پھر جو کوئی کرپشن کرے گا خواہ ان کی پارٹی سے ہو وہ ان کی سفارش نہیں کریں گے۔ اس طرح قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ ایک بڑی بات جو انہوں نے کہا کہ عوام کا پیسہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہونا چاہئے۔

س: شیخ الاسلام بانی تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں آپ پر دنیا بھر کی مختلف یونیورسٹیز میں Ph.D کے تحقیقی مقالہ جات لکھے جارہے ہیں جو کہ پاکستان کے لیے بھی باعث اعزاز ہے کیا کہیں گی؟

ج: بلاشبہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دنیا کو اسلام کا ایک جدید تصور دیا ہے اور اسلام اور جدید دنیا کا حسین امتزاج پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نہ صرف خود علم سے مالا مال ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس زیور سے آراستہ کررہے ہیں۔ خصوصاً منہاج القرآن ویمن لیگ جو کام کررہی ہے وہ بہت ہی موثر ہے باقی جماعتوں میں ویمن لیگ کی کارکردگی بھی ہمارے سامنے ہے لیکن عصر حاضر میں منہاج ویمن لیگ کا کام بہت ہی قابل ستائش ہے۔ ایک مرتبہ الحمرا ہال میں ایک شخصیت کا بہت ہی پرتپاک استقبال کیا گیا میں بھی وہاں موجود تھی میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں۔ اس کے علاوہ آپ لوگوں کی ایجوکیشن اور کام دیکھ کر میں حیران ہوئی ہوں۔ یقینا یہ ڈاکٹر صاحب کی تربیت ہی ہے۔