الفقہ النساء: خلع، تنسیخِ نکاح، طلاقِ بائن

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال:خلع اور تنسیخ نکاح سے کونسی طلاق واقع ہوتی ہے؟

جواب: خلع اور تنسیخ نکاح سے طلاق بائن واقع ہوتی ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:

أَنَّ النَّبِیَّ صلی الله علیه وآله وسلم جَعَلَ الْخُلْعَ تَطْلِیقَةً بَائِنَةً.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلع کو طلاق بائن قرار دیا۔

(دار قطنی، السنن، 4: 45، رقم: 134، بیروت: دارالمعرفة)
(أبو یعلٰی، معجم، 1: 196، رقم: 230، فیصل آباد: ادارة العلوم الأثریة)
(بیهقی، السنن الکبریٰ، 7: 316، رقم:، مکة المکرمة: مکتبة دار الباز)

اور حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

الْخُلْعُ تَطْلِیقَةٌ بَائِنٌ وَالإِیلاَء ُ وَالْمُبَارَأَةُ کَذَلِکَ.

خلع طلاق بائن ہے، ایلاء اور لاتعلقی (کے الفاظ سے بھی طلاق بائن واقع ہوتی ہے)۔

(ابن أبی شیبة، المصنف، 4: 109، رقم: 18339، ریاض: مکتبة الرشد)

اور مصنف عبدالرزاق میں بھی حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے:

الْخُلْعُ تَطْلِیقَةٌ بَائِنَةٌ وَالْخُلْعُ مَا دُونَ عِقَاصِ الرَّأْسِ وَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَتَفْتَدِیَ بِبَعْضِ مَالِهَا.

خلع طلاق بائن ہے اور خلع سر کے جوڑے سے بھی کم تر ہو سکتی ہے اور عورت بعض مال دے کر جان چھڑوا سکتی ہے۔

(عبد الرزاق، المصنف، 6: 481، رقم: 11752، بیروت: المکتب الاسلامی)

صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:

فَإِذَا فَعَلَا ذَلِکَ وَقَعَ بِالْخُلْعِ تَطْلِیقَةٌ بَائِنَةٌ وَلَزِمَهَا الْمَالُ.

جب ایسا کر لیا تو خلع سے ایک طلاق بائن واقع ہو گی اور عورت پر مال دینا لازم ہو گا۔

(مرغیانی، الهدایة شرح البدایة، 2: 113، المکتبة الاسلامیة)
(ابن همام، شرح فتح القدیر، 4: 211، بیروت: دار الفکر)

جب شوہر بیوی کے حقوق پورے کرنے سے قاصر ہو اور طلاق بھی نہ دے تو ایسی صورت میں عورت علیحدگی کے لئے عدالت سے رجوع کرسکتی ہے، جیسے صاحب ہدایہ بیان کرتے ہیں:

فَإِذَا امْتَنَعَ نَابَ الْقَاضِی مَنَابَهُ فَفَرَّقَ بَیْنَهُمَا وَلَا بُدَّ مِنْ طَلَبِهَا لِأَنَّ التَّفْرِیقَ حَقُّهَا وَتِلْکَ الْفُرْقَةُ تَطْلِیقَةٌ بَائِنَةٌ.

’جب خاوند اس پر آمادہ نہ ہو قاضی خود اس (خاوند)کا قائمقام ہوکر دونوں میں تفریق کردے چونکہ یہ بیوی کا حق ہے، لہٰذا اس کا مطالبہ کرنا ضروری ہے''ور یہ تفریق و تنسیخ طلاق بائن ہوگی۔‘

(مرغینانی، الهدایة شرح البدایة، 2: 26، المکتبة الإسلامیة)

فتاو ی ہندیہ میں بھی عدالتی تنسیخ کو طلاق بائن قرار دیا گیا ہے:

إنْ اخْتَارَتْ الْفُرْقَةَ أَمَرَ الْقَاضِی أَنْ یُطَلِّقَهَا طَلْقَۃً بَائِنَۃً فَإِنْ أَبَی فَرَّقَ بَیْنَهُمَا ...وَالْفُرْقَةُ تَطْلِیقَةٌ بَائِنَةٌ.

اگر بیوی جدائی چاہتی ہے تو قاضی (عدالت) اس کے خاوند کو طلاق بائن دینے کا حکم دے۔ اگر انکار کرے تو قاضی دونوں میں تفریق کردے یہ فرقت طلاق بائن ہوگی۔

(الشیخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندیة، 1: 524، دار الفکر)

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ خلع و تنسیخ نکاح سے طلاق بائن واقع ہوتی ہے اور فوراً نکاح ٹوٹ جاتا ہے،لہٰذا خلع وتنسیخ کے بعد بغیر تجدید ِنکاح رجوع نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی جوڑا از سرِ نو بطورِ زن و شو تعلقات قائم کرنا چاہے تو باہمی رضا مندی سے دوران عدت یا عدت کے بعد تجدید نکاح کرسکتے ہیں مگر یاد رہے کسی اور سے نکاح کرنے کے لئے عورت پر عدت گزارنا لازم ہوگی اور عدت کے بعد وہ جہاں چاہے دستور کے مطابق نکاح کرسکتی ہے۔

سوال: کیا خلع و تنسیخ نکاح کے بعد تجدید نکاح کے لئے نیا حق مہر دینا اور گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے؟

جواب: جب طلاق بائن واقع ہو کر عورت آزاد ہو جائے تو وہ دستور کے مطابق اپنی مرضی سے جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے خواہ یہ بینونت طلاق رجعی کی عدت کے بعد ہو یا خلع و تنسیخ نکاح سے ہو، ہر صورت میں تجدید نکاح کے لئے نئے سرے سے حق مہر دینا لازم ہے اور اس نکاح میں دو عاقل و بالغ، مسلمان مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوںکی گواہی ہونا بھی شرط ہے۔