فکر شیخ الاسلام: دعوت و تبلیغ دین میں خواتین کا کردار

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ناقل:محمد ظفیر ہاشمی
مرتبہ: نازیہ عبدالستار

ہمارے بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ عورت کو صرف گھر میں بیٹھ کر امور خانہ داری انجام دینے ہیں، یہ عورت کے مقام و منصب کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے۔ اسلامی تاریخ اس بات کی شاہد ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا آپ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے جس فرد و ہستی نے اسلام قبول کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عظیم سفر میں شریک ہوئیں وہ ایک عورت حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا تھیں۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رسالت کی ذمہ داری ڈالی گئی:

یٰٓااَیُّهَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَاَنْذِرْo وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْo

اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!)۔اُٹھیں اور (لوگوں کو اللہ کا) ڈر سنائیں۔ اور اپنے رب کی بڑائی (اور عظمت) بیان فرمائیں۔

(المدثر، 74 :1-3)

جب یہ پیغام رسالت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک آیا تو آپ کے جسم پاک پر ایک کپکپی سی طاری تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا سے فرمایا:

زَمِّلُونِيْ زَمِّلُونِيْ.

مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو۔

(بخاری، الصحیح، کتاب بدء الوحی، 1: 4، الرقم: 3)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کملی لے کر لیٹ گے، اس وقت حضرت خدیجۃ الکبر ی رضی اللہ عنہا نے آپ کے شریک سفر ہونے کے ناطے سے سب سے پہلا بیان سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اللہ پاک آپ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گا۔ اللہ پاک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی ناکام نہیں کریں گا۔ اللہ پاک اپنی شفقت و رحمت کا سایہ کبھی آپ کے سر انور سے نہیں اٹھائیں گے اس لیے کہ آپ یتیموں کے کام آنے والے ہیں، آپ بیوہ عورتوں کا سہارا بننے والے ہیں، آپ مسکینوں، محتاجوں کی مدد کرنے والے ہیں۔ آپ لوگوں کے سروں سے قرض کے بوجھ اٹھانے والے ہیں۔ آپ مہمانوں پر احسان کرنے والے ہیں۔ یہ تمام تر تفصیلات جو آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کی بیان فرمائیں، پس سب سے پہلے جنھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کی گواہی دی وہ حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا ہیں اور یہی سب سے پہلے دعوت اسلام کو قبول کرنے والی بنیں۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں نماز ادا کی۔

انہوں نے ہی اپنی دولت اسلام کی تبلیغ اور اسلام کے دفاع پر خرچ کی۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا بڑی مالدار خاتون تھیں، عرب کے سارے تاجروں کا سرمایہ ایک طرف اور حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کا سرمایہ اور دولت ایک طرف۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلان نبوت فرمانے کے بعد آپ کو وسائل کی ضرورت تھی اور حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا نے اپنا سارا سرمایہ اسلام کی تبلیغ پر خرچ کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں نچھاور کر دیا اور آپ نے اسلام کی خدمت کی اور پھر تین برس تک جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعب ابی طالب میں قید کیے گے۔ چالیس برس کی عمر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان بنوت فرمایا، دس سال کی تبلیغی زندگی کے بعد جب آپ کی عمر مبارک پچاس برس کی تھی تو آپ کو قید کر دیا گیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کا پورا خاندان شعب ابی طالب میں قید ہوگیا اور اتنے مصائب و آلام آئے اس تین برس کی قید کے زمانے میں کہ جن کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا بھی اس قید میں ساتھ تھیں۔ تین برس قید میں گزر گے اوران قید کے تین برسوں کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے تو آپ کی عمر مبارک 53 برس تھی اور جب عمر کے اس سال میں پہنچے تو حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا اس جہاں فانی سے رخصت ہو گئیں۔ تو گویا تیرہ برس اعلان نبوت کے بعد حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا مسلسل اسلام کے لیے خدمات پیش کرتی رہیں۔اس سے ثابت ہوا کہ مشن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تھا اور اس کے لیے معاون خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا تھیں۔

آقا علیہ السلام باہر تشریف لے جاتے تبلیغ کرتے تو کفار پتھر برساتے۔ تیر اندازی کرتے آپ کے جسد پاک کو لہولہان کرتے طائف کے بازاروں سے پلٹتے تو پتھروں کی بارش ہوتی۔ قدم مبارک زخمی ہو گئے، جسم پاک لہولہان ہو گیا اور اتنے زخمی ہوئے کہ قدم مبارک اٹھانے کی سکت نہیں رہی اور فرشتہ حاضر ہوا عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!آپ پر ظلم کی انتہاء ہو گئی، اگر آپ اجازت دیں تو طائف کی بستی کو پہاڑوں کے درمیان پیس کر تباہ کردوں۔ اگر آپ اجازت دیں تو طائف کی بستی کو اتنی بلندی تک اٹھائیں اور واپس پلٹیں تو اس کی آبادی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہو جائے، مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، جن لوگوں نے آج مجھ پر پتھربرسائے ہیں میں ان کی اولادوں سے ایمان کی امید رکھتا ہوں۔ آج مجھے یہ نہیں پہچان رہے ہیں۔ امید ہے کل پہچان جائیں اور مان جائیں۔ اتنے تکلیف دہ سفر سے جب واپس آتے تو گھرمیں حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا مسکراتے چہرے کے ساتھ استقبال کرتی تھیں۔ آپ کو حوصلہ دیتیں آپ کے صبر میں شریک ہوتیں، آپ کی عزیمت میں شریک ہوتیں۔ اور اس طرح ان حالات میں ان کی معاونت بڑی گراں قدر سرمایہ تھی اور یہی وجہ ہے مدینہ طیبہ کی زندگی میں جب حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کا وصال ہوگیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی زوجیت کا زمانہ تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کا تذکرہ کرتے تو جس طرح عورتوں کو رشک ہوتا ہے تو بطور رشک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پوچھتی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! مدت ہوئی حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا انتقال کرچکی ہیں مگر آپ کو آج تک یاد آتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! جتنا احسان حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا نے اسلام پر کیا اورجنہوں نے دکھوں اورمصائب کے زمانے میں میرا ساتھ دیا ہے ان سب کی نیکیاں ایک طرف اور حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی نیکیاں ایک طرف۔

میں اُسے کیسے بھول سکتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کبھی قربانی دیتے، اس کا گوشت حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو بھیجتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ کے سفر اسلام میں سب سے پہلا ساتھ حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا نے دیا اور اتنی خدمات انجام دیں جس کی بناء پر انھیں محسنِ اسلام کا لقب دیا گیا، (اسلام پر احسان کرنے والی) یہ شرف ایک خاتون کو ملا۔ محسنِ اسلام کا لقب صحابہ کرام میں سے بھی کسی کو نہیں ملا، مگرحضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کو ملا۔ آج اگر ہم چاہتے ہیںکہ ہمارا مشن فروغ پذیر ہو اور اسلام ایک عظیم قوت بن کے آگے بڑھے اور مصطفوی انقلاب کا قافلہ اپنی منز ل مقصود تک پہنچے۔

تو پھر سے حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی سنت کو زندہ کرنا ہوگا۔ ہماری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کے نقشِ قدم پر چلنا ہو گا اور اس سنت اور اس اسوہ کو پھرسے زندہ کرکے اسلام کے فروغ اور مصطفوی انقلاب کے لیے فرزندان اسلام کے ساتھ خواتین اسلام کو شانہ بشانہ چلناہو گا۔ اور حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ سے آٹھ ہزار صحابہ پڑھا کرتے تھے۔

یہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی گود کا فیض ہے جس نے اسلام کو حسن اور حسین رضی اللہ عنہما عطا کیے۔ وہ دن کو چکی پیستیں ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتیں، خود بنفس نفیس پانی بھر بھر کے گھر لاتیں۔ جب غزوہ بدر ہوا اور کئی مرد عورتیں اورخواتین اور غلام بن کے قید میں آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو تقسیم فرمایا تو اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت مولاعلی رضی اللہ عنہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں تھے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ابا جان! میرے ہاتھوں پر چکی پیس پیس کر نشان پڑ گے ہیں اور پشت پر مشکیزہ اٹھا اٹھا کر نشان پڑ گے ہیں۔

آقا علیہ السلام نے فرمایا: بیٹی فاطمہ! کہنا کیا چاہتی ہو؟ عرض کیا حضور کوئی ایک خادمہ ان جنگی قیدیوں سے مجھے بھی عنایت فرما دیںکہ گھرکے کام کاج سے میرا ہاتھ بٹھا لیا کرے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ! جہاں سے یہ جنگی قیدی آئے ہیں وہاں کئی گھر یتیم بھی ہو گئے ہیں، جب تک ان یتیموں اور ان بیوگان کی مدد کے لیے ان کو تقسیم نہ کر لوں گا، اس وقت فاطمہ میں تجھے کوئی باندی اور غلام نہیں دے سکتا۔ آپ رضی اللہ عنہا بڑی مشقت کی زندگی بسر کرتیں، روزہ رکھتیں، عبادت کرتیں، حسنین کریمین کی تربیت کرتیں، امور خانہ داری نبھاتیں، خدمت دین کرتیں اور جب رات ہوتی اورتمام امور سے فارغ ہوجانے کے بعد مصلے پر چڑھتیں، اور نوافل ادا کرتیں اوراللہ کے حضور سجدہ ریزیاں کرتیں اور موسم سرما کی ساری رات اللہ کے حضور عبادت گزاری اور سجدہ ریزی میں بسر ہو جاتی اور ادھر فجر کی اذان کا وقت ہوتا۔

سجدے سے سر اٹھا کر نماز مکمل کرنے اور سلام پھیرنے کے بعد ایک آہ بھر کے عرض کرتیں۔ مولا! اتنی چھوٹی راتیں بنائی ہیں کہ جی بھرکے تیرے حضور سجدہ بھی ادا نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی زندگیاں کتنی مشقت کی زندگیاں تھیں۔ اتنی ریاضتیں اور مجاہدے تھے اسلام کے لیے اتنی محنت میں ان کے دن و راتیں گزرتیں اگر ہم اپنی زندگیوں کے حالات ان سے موازنہ کرنا چاہیں تو تصور بھی نہیںکیا جاسکتا۔

ان کے اس احسان کا بدلا نہیں چکایا جاسکتا جس گود نے امت کو امام حسین رضی اللہ عنہ عطا کیے ہمیں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے اس اسوہ کو زندہ کرناہے اور یہ صرف تب ہی ممکن ہے جب آج ہماری ماؤں، بہنوں کی گود تقویٰ کی ہوگی تو یہ تقویٰ اولاد کو منتقل ہوگا۔ باپ کا تقوی اولاد کو کم منتقل ہوتاہے مگر ماں کا تقویٰ اولاد کوزیادہ منتقل ہوتا ہے۔ باپ کو اولاد کی تربیت کا کم موقع ملتا ہے ماں کی گود خود اولاد کے لیے مکتب ہے۔ ماں اپنی اولاد کے لیے تربیت گاہ ہے۔ دودھ پلانے کے زمانے سے لے کر بچے کی نوجوانی کی عمر میں داخل ہونے تک یہ سارا تربیت کا زمانہ ہے۔ اس لیے آج اگر خاتون سنور جائے تومعاشرے کو نیک بیٹی، بہن، ماں میسر آئے گی معاشرے کے اندر انقلاب آ جائے گا، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کہ:

الجنة تحت أقدام الامهات.

جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔

( قضاعی، مسند الشهاب، 1: 102، رقم: 199)

یہ نہیں فرمایا: جنت باپ کے قدموں کے نیچے ہے، باپ کے لیے فرمایا: اللہ کی رضا باپ کی رضا میں اور اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے اور ماں کے لیے فرمایا: اولاد کی جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے یہاں ماں کو ایک ذمہ داری سونپی جا رہی ہے۔ اولاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماں کی عزت کرے اور یہ اسلام کی تعلیم ہے اورآج کے معاشرے میں اولاد پڑھ کر جوان ہوتی ہے وہ ماں باپ کی عزت اوراحترام کو جائز نہیں سمجھتی۔ اگرماں باپ پرانے لوگ ہیں کم پڑھے لکھے ہیں تو اولاد بڑی ہو کر پڑھ لکھ کرسمجھتی ہے کہ جاہل ماں باپ شاید وہ ادب و عزت واحترام کے قابل نہیں رہتے۔ نہیں ماں ماں ہے باپ باپ ہے والدین کی عزت ان کی اولاد پر ان کی تعلیم کی وجہ سے نہیں، والدین کی عزت اولاد پر ان کی نیکی اور تقوی کی وجہ سے بھی لازم نہیں، والدین کی عزت اولاد پر ان کی مالداری اورکسی وجہ سے نہیں صرف والدین ہونے کے ناطے سے ہے اور یہ ماں کے بس میں ہے اگر اللہ کا فضل ہو اور ماں چاہے تو اپنی اولاد کی ایسی تربیت کرے جو اس کو جنت کی راہ پر ڈال دے اورچاہے تو اولاد کی ایسی تربیت کرے، اس کو دوزخ کی راہ پہ ڈال دے گھر کے اندر اچھا یا برا ماحول پیدا کرنا خاتون کے ہاتھ میں ہے یا مرد کے۔

ماں اگر گھرکے ماحول کو پاکیزہ کر دیں، تو اولاد جنت کی رہ پرچل پڑے گی، اگر ماں خود گھر کے ماحول کو دین سے محرو م کردے تو باپ کے چاہنے کہ باوجود اولاد نیکی کی رہ پر نہیں چل سکتی۔

حضورسیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا ساراخاندان ولی تھا۔ان کی پھوپھی جان، عارفہ اور ولی کاملہ تھیں،جیلان میں ان کا گھر تھا اس گاؤں میں بارش نہ ہوتی، قحط پڑتا۔ایک عرصہ درراز گزر جاتا گاؤں کی عورتیں آپ کے گھر آتیں اور عرض کرتیں کہ بارش کتنے عرصے سے نہیں ہوئی قحط ہے۔ سخت پریشانی ہے ہم نے ہر ممکن کوشش کی، نوافل پڑھے، نماز استسقاء پڑھی بارش نہیں ہوئی، قحط ختم نہیں ہوا آپ اللہ کے حضور التجاء کریں۔ سیدناغوث اعظم رضی اللہ عنہ کی پھوپھی اتنی عابدہ، زاہدہ خاتون تھیں، اٹھتیں اور کیا کرتیں کہ صحن میں جھاڑو پھیرتیں اور جھاڑو پھیر کر عرض کرتیں مولا! جھاڑو میں نے پھیر دیا ہے چھڑکہ آپ کردیں۔ بس اتنے کلمات پر بارش برستی۔

حضرت بابا فریدگنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ ہے کہ جب آپ جوان ہوئے ایک روز فرمانے لگے امی جان اللہ کا کتنا شکرہے کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا میری نماز تہجد کبھی قضا نہیں ہوئی۔

حضرت بابافرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ فرمانے لگی فرید! یہ تیرا کمال نہیں یہ تیری ماں کے دودھ کا کمال ہے کہ جب سے تو پیدا ہوا رب ذوالجلال کی عزت کی قسم میں نے بے وضو کبھی ایک بار بھی دودھ نہیں پلایا۔ اگر ماں بے وضو دودھ پلانے والی نہ ہو تو پھر بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ پیدا ہوں گے؟ ثابت ہوا کہ نیک اولاد کاپیداکرنا خواتین پر ہے۔ تحریک منھاج القرآن میں ویمن لیگ کے کام کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی اگر تحریک میں صرف مرد ہوں، تو صر ف تنہا مرد کی کوشش سے کوئی بھی اسلامی تحریک منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتی۔

مگر وہ عورت کے تعاون سے دو گنا کام کر سکتاہے اورجب عورت تعاون کرے گی تو لامحالہ اولاد بھی اس راہ پہ چل پڑے گی۔ پھر رفتار چار گنا ہ ہو جائے گی۔

اس مشن کے اندر ویمن لیگ قائم کرنا اس لیے ضروری تھا کہ اس کے بغیر مشن کا ایک بازو ہوتا اور ایک بازو نہ ہوتا تو جسم ثابت تصور نہیں کیا جاتا اسی صورت میں جب ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیا ں، مردوں، بیٹوں اور بھائیوں کے شانہ بشانہ چلیں گی، گھر کے اندر انقلاب برپا کریں گی، باہر مرد وہ پیغام پہنچائیں گے تو معاشرہ میں انقلاب آئے گا۔

ایران میں بھی انقلاب اس وقت تک نہیں آیا جب تک تنہا مرد شاہ ایران کی آمریت سے ٹکر لیتے رہے لیکن، جب عورتیں باہر نکل آئیں اورعورتوں نے سر پر کفن باندھ لیے تو شاہ ایران کی توپوں اور بندوقوں کے رخ مردوں کے سینوں کی طرف تھے مگر وہ وقت آیا کہ عورتیں میدان میں آئیں سروں پر کفن باندھ کر میدان میں آگئیں۔ گولیاں چلیں مرد بھی شہید ہوئے عورتیں بھی شہید ہوئیں مگر قافلہ انقلاب آگے بڑھتا گیا اورشاہ ایران کی گولیاں انقلاب کے قافلے کی رہ کو روک نہ سکیں، پھرعورتوں نے تیسرے مرحلے پر بچوں کو لے کر سڑکوں، گلیوں میں نکل آئیں، انقلاب کا قافلہ بڑھا بچے شہید ہوئے۔ قربان جائیں ماؤں کی عظمتوں پر جنہوں نے انقلاب کی خاطر اپنے بچے قربان کردیئے۔

جوان بچے اور چھوٹی عمر کے بچے وہ شہید ہو کرسڑکوں پر گرے تو ایران کی عورتوں نے دودھ پیتے بچے ہاتھ پر اٹھا لیے اور کہا شاہ ایران ہم دودھ پیتے بچے بھی راہ انقلاب میں قربان کردیںگی۔ جب مرد بھی میدان میں آئے، عورتیں بھی میدان میں آئیں، نوجوان بھی میدان آئے حتی کہ عورتیں دودھ پیتے بچے لے کر نکل آئیں اس کے بعد اس انقلاب کا راستہ کوئی نہ روک سکا۔ شاہ ایران شکست کھا گیا اور یہ قافلہ اپنی منزل تک پہنچا۔ یہ وہ کام ہے جو مرد نہیں کرسکتا اور انقلاب اس وقت آیا جب ماں نے اپنی ممتا تک قربان کردی۔ آج مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انقلاب بہت بڑی عظیم قربانی کا تقاضا کرتا ہے پاکستان کا معاشرہ دیکھیں تو یہ پاکستان کا معاشرہ دکھائی نہیں دیتا۔

بد دیانتی، جو رشوت، قتل و غارت گری ڈاکہ زنی، لوٹ مار، جان ومال اور عزت و آبرو کا لوٹنا نظر آتاہے، ان حالات میں احساس ہوتا ہے۔ کسی ظالموں اور درندوں کے معاشرے میں ہم آگئے۔ اتنے بگڑے ہوئے معاشرے کو سنوارنا، بدی کی طاقتوں کے ساتھ ٹکرانا، تنہا پاکستان کے مردوں کے بس کی بات نہیں ہے 55 فیصد عورتیں اگر مردوں کے ساتھ ملکر، عزم مصمم کر کے انقلاب کی راہ پر چل پڑے گی تو اس وقت دنیا کی کوئی طاقت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انقلاب کا راستہ نہیں روک سکتی۔ تحریک منھاج القر آن کا بڑا انحصار بہنوں، بیٹیوں پر ہے۔ اور وہ انقلاب کا جھنڈا ہاتھ میں اٹھائیں گی تو بڑے بڑے کفار ان کا راستہ چھوڑ دیں گے۔