عورت معاشرے کا بنیادی ستون

انٹرویو: ڈاکٹر عثمان، میو ہسپتال

جدید معاشرے انسانی رویوں کی پیچیدگی نے خود اس کی ذات کو ذہنی دباؤ کا شکار کررکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرد و زن اس ذہنی دباؤ کا شکار نظر آتے ہیں۔ معاشرے میں دن بدن پرتشدد واقعات کا بڑھتا ہوا رجحان ہمارے سماج کی ذہنی ابتری کو واضح کررہا ہے۔ عورت خصوصاً دن بدن ذہنی دباؤ کے زیر اثر جارہی ہے۔ جبکہ خاندانی نظام کی بقاء کے لیے عورت کا ذہنی طور پر صحت مند ہونا بہت ضروری ہے۔ذہنی طور پر صحت مند ہونا کیوں ضروری ہے؟ اس کے لیے ذہنی صحت کے حوالے سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق:

It's Biological, Phscychological, spiritual and cultural state.

یعنی ذہنی صحت سے مراد ہے حیاتیاتی، نفسیاتی، روحانی اور ثقافتی سماجی طور پر بہترین حالت ہے۔

There is no health without mental health

یعنی ذہنی طور پر صحت مند ہونے سے مراد وہ بغیر کسی خوف و ڈر کے بغیر کسی External Force سے اپنے Potential کو پانے کا سفر طے کرسکتا ہے۔

عورت کی صحت کا دارومدار درج ذیل 4 عوامل پر ہے:

  1. Biological عوامل

  2. Phscychological عوامل

  3. Spiritual عوامل

  4. Cultural عوامل

پاکستان میں بدقسمتی سے جیسے ہی لڑکی پیدا ہوتی ہے وہ Unwanted سمجھی جاتی ہے جیسے ہی پیدا ہوئی ایک غم کی لہر پیدا ہوگئی کہ لڑکی پیدا ہوئی۔ لڑکی ہونے کا اپنا کوئی نقصان نہیں تھا لیکن معاشرے کی سوچ نے اسے ایسا بنادیا۔ کیا ہمارے ہاں پید اکرنے والی ماں کی ایسی تربیت ہے کہ وہ اپنی بچی کو منحوس نہ سمجھے۔ اب بحیثیت لڑکی کا منحوس ہونا معاشرے نے مل کر بنادیا ہے حالانکہ دین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ دین مرد کو عورت کے برابر کھڑا کررہا ہے کوئی ایسا حق نہیں جو دین نے کہا ہو کہ مرد کرسکتا ہے عورت نہیں۔ دین نے مرد و عورت کے لیے تمام مواقع اکٹھے پیدا کئے ہیں۔ اسلام نے اس سوچ کا خاتمہ کیا ہے۔

تاریخ میں دیکھئے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ تجارت کیا کرتی تھیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ تعلیم دیا کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے جنگ بھی لڑی۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہ نے پورے کا پورا Historical revival کیا اور اپنے شہدا کا کیس لڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب جنگ میں تھے ان کی حفاظت پر خواتین مامور ہوتی تھیں۔ عورتیں بہترین جرنیل بھی تھیں کیا ہم نے یہ سب بتایا لوگوں کو۔ جب ہم دین کی بات کرتے اس میں جو عورت کے rights ہوتے انہیں ہم غضب کرلیتے وراثت کے اختیار نہیں دیئے جاتے۔

قرآن جو کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ متقین کے لیے ہدایت ہے لیکن ہم معاشرے میں اس کتاب کا استعمال عورت کو کنٹرول کرنے کے لیے کرتے ہیں۔

عورت معاشرے کا بنیادی ستون کیوں ہے کیونکہ اس نے نسل نو کی پرورش کرنی ہے۔ اب ایک مغربی سوچ ہے کہ مرد اور عورت برابر ہیں تو یہ اس قسم کی بات ہے کہ کیااونٹ اور گھوڑا برابر ہیں۔ اب دو قسم کہ جانور ہیں تو کیا کس بنا پر ایک کو دوسرے پر بہتر قرار دیا جاتا ہے۔ کون بہتر ہے اور کون نہیں۔ تربیت کے لیے بہتر انسان کو چنا جائے گا ایک گن مین اچھا چوکیدار ہوسکتا ہے لیکن اگر گھر کے لیے ایک اچھے Trainer کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کام چوکیدار نہیں کرسکتا۔ عورت گھر کے نظام میں، بچوں کی تعلیم و تربیت میں آدمی سے بہتر Act کرسکتی ہے۔ اکثر کربھی رہی ہوتی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں مرد کا کام صرف کمانا ہے اور جدید دور میں عورت نے گھر سے باہر جاکر کام بھی کرنا ہے، گھر کے کام اور بچوں کی تربیت اور تعلیم کے لیے بھی عورت ہی ذمہ دار ہے اور اگر کوئی کمی رہ جائے تو الزام بھی عورت کو ہی کیا جاتا ہے کہ عورت نے ہی بچوں کو خراب کیا ہے۔

آج کل پاکستانی عورت ہر شعبے میں آگے بڑھ چکی ہے۔ Medical میں 20/30 کی Ratio ہے۔ کھیلوں میں آگے نکل چکی ہیں ہم لوگوں نے ایک سوچ دے دی کہ عورت کمزور ہے۔ اب وہ کیسے کمزور ہے؟ کیا ہم نے اس سے دوڑ لگوائی ہے اور اگر معاملہ عقل کا ہے تو عقل میں تو دونوں برابر ہیں تو دونوں کے پاس Equal oppertunity ہونی چاہئے۔

ہمارے ہاں عورت کو مواقع کم میسر آتے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکے اب یہ فرق بھی ختم ہورہا ہے۔ اب گھر میں موبائل، کمپیوٹر ہر چیز موجود ہے ہر دماغ کے پاس مواقع آتے رہے ہیں چاہے اب آپ اسے موقع دیں یا نہ دیں اس کا ذہن نشوونما پارہا ہے۔

خواتین کے ذہن پہ کون سے عناصر کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بحیثیت عورت آپ کے دماغ پہ کون سی چیز اثر انداز ہورہی ہیں انہیں پانچ چیزوں میں دیکھ لیتے سب سے پہلے خوراک اور یہ جو خوراک ہے وہ جسمانی نہیں روحانی بھی ہے۔ کلچر میں اس کا مقام کون سا ہے اسلام نے عورت کی غلامی ختم کی تو ہم نے اور طرح کی غلامی پیدا کرلی۔ اسلام نے مساوات دی ہم نے اپنے طبقات پیدا کیے ہوتے ہیں۔ ذہنی صحت میں سب سے اہم مساوی حقوق کا ہونا ہے۔ خوراک دونوں کو مل جاتی، مواقع بھی مل جاتے لیکن مساوی حقوق میں مسئلہ یہ کہ عورت کو برابر سمجھیں اور انہیں حق دیں بھی۔ سائنس نے یہ ثابت کیا ہے برابر مواقع ملنے پہ اگر کوئی پیچھے رہ بھی جائے تو غم اور غصہ نہیں ہوتا کیونکہ اگر برابر مواقع نہ ملیں تب غصہ آتا ہے۔ یہ صرف عورتوں کے لیے نہیں اکثر اقلیتوں کے لیے بھی ہے۔

خواتین میں ذہنی شعور کی ضرورت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ شعور کو ایک Activation ضرور چاہیے ہوتی ہے ہمارے دماغ کو ایک Motivation ضرور چاہئے ہوتی۔ حوصلہ افزائی کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ خواتین زیادہ حساس طبیعت کی مالک ہوتی ہیں۔ ان کے شعور میں تغیر و تبدل رونما ہوتا رہتا ہے۔

مساوی حقوق کی بات کریں تو دور جانے کی ضرورت نہیں جو قرآن میں لکھا وہی مساوی حقوق ہے۔ جیسے کہ زیادہ فضیلت والے لوگ وہ ہیں جو تقویٰ میں افضل ہیں۔ تقویٰ سے کیا مراد ہے ایک مطلب Self Discipline بھی ہے۔ چھوٹا level یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے کے لیے برائی سے بچ رہے ہیں دوسرا یہ کہ آپ نے بچنے کے لیے کیا کام کیا۔ بچنا ہے تو پہلے سے سوچیں گے نہ کہ کون کون سے خطرے ہیں جن سے بچنا ہے۔ جیسے قرآن کہتا ہے کہ ہر ذی شعور کو مرتے دم تک تعلیم حاصل کرنی چاہئے۔ ہم نے تو تعلیم پہ حد لگائی ہوئی کہ اتنی تعلیم کافی ہے جبکہ علم تو مومن کی میراث ہے جہا ںسے ملے لے لیں۔ اس بنیادی قانون کوہم Follow نہیں کررہے تعلیم سے ہاتھ نہیں روکنا چاہئے عورت کو پورا حق حاصل ہونا چاہئے کہ تعلیم سے ہی شعور بیدار ہوگا۔ اکثر لوگ پڑھائی رکوادیتے ہیں میں نے ایک ماہر نفسیات کے طور پر یہ محسوس کیا ہے۔

جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتنی تلقین کی کہ اگر آپ 3بیٹیاں پالتے ہیں تو آپ جنت میں ہیں یہ نہیں کہا کہ تین لڑکوں کو پالا تو جنت ملے گی۔ وہ جانتے تھے کہ ہمارے اندر کہیں نہ کہیں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ عورت کمزور چیز ہے اس نے دوسرے گھر چلے جانا ہے۔ یورپ میں ایسا نہیں سمجھا جاتا کیونکہ وہاں ان کی سیکیورٹی کا بھی انتظا م ہے پڑھائی کا بھی انتظام ہے۔

ہمارے ہاں خواتین کو ایک بوجھ کی طرح ڈیل کیا جاتا ہے مثلاً اگر لڑکے سے پوچھا جائے تو وہ بہن کو ایک ڈیوٹی سمجھ کر ڈیل کرتا اسی طرح اکثر والد بھی ایسا ہی کرتے جس سے وہ بیٹیوں کو بوجھ تصور کرنے لگتے۔ ہمارے ہاں لوگ ٹریننگ پر توجہ ہی نہیں دیتے۔

وجہ یہ ہے کہ ہمارے میڈیا چینلز نے بھی کبھی عورت کی ذہنی صحت یا شعور کے حوالے سے اقدامات زیادہ نہیں کیے نہ کسی نے Mental health پہ کوئی Focused پروگرام کیا۔ health based کوٹا بھی بہت کم گورنمنٹ کی طرف سے مقرر ہوتا۔ ہمیں احساس ہی نہیں کہ ذہنی صحت کتنی اہم ہے اگر پتہ ہوتا تو ہمارا معاشرہ یہاں تھوڑی ہوتے جہاں آج کھڑا ہے۔

اس تناظر میں شعور کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

اب شعور کہاں سے آئے۔ اس کے لیے بہت سارے ذرائع ہیں مثلا ٹی وی چینلز، انٹرنیٹ، چھوٹے بچوں کے سلیبس کا حصہ، بڑوں کے سلیبس کا حصہ، ٹریننگ ورکشاپس وہ تمام ذرائع جو کسی بھی Awareness پراجیکٹ کے لیے استعمال ہوتے ہیں وہ ادھر بھی ہوسکتے ہیں، خواتین کے جو گروپس بنے ہوتے ہیں کوئی بھی Initiativeلے لے سوسائٹی پہ انحصار ہونے کی بجائے جو کوئی بھی کچھ کرنا چاہتا ہے وہ خود انحصار ہو۔ خواتین کو کسی کام پر لگادیں وہ پورا کرکے رکتی ہیں۔ اگر انہیں کام نہیں کرنے دیں گے تو وہ اپنی صلاحیتیں ڈرامے دیکھنے یا وغیرہ میں ضائع کردیتی ہیں۔ انسان کا بنیادی مقصد حیات کیا ہے؟ مقصد حیات تو بنانا پڑتا ہے۔ لہذا اپنی صلاحیت کو پہچانیں پھر اسے پڑھائیں پڑھاکر اس سے کام لیں اور اسے پھیلائیں۔

خواتین کی صحت کے حوالے سے اپنے پیغام میں ڈاکٹر عثمان نے کہا کہ ہر انسان کے اندر ایک بنیادی صلاحیت ہیں اپنے آپ کو سمجھنے، پہچاننے اور کامیاب کرنے کی۔ یہ صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت نہیںہے صرف Activateکرنے کی ضرورت ہے۔ 50% خواتین ہیں اگر وہ آپس میں یہ طے کرلیتی ہیں کہ ہم مضبوط ہیں ہم ایک دوسرے کا حق نہیں مارنے دیں گی، ساس بہو کا تحفظ کرے، بہن دوسری بہن کا تحفظ کرے، ماں بیٹی کا تحفظ کرے، بیٹی ماں کا تحفظ کرے تو یہ بہت بڑی فورس تیار ہوجاتی ہے۔

لہذا معاشرہ میں اگر تباہی سے بچنا چاہتا ہے تو اسے خواتین کی ذہنی صحت پر فوکس کرنا ہوگا۔ حقوق اسے بحیثیت مرد معاشرہ ملنے چاہیں ان کے ساتھ ذہنی مطابقت پیدا کرکے قابل عمل بنانا ہوگا تب ہی معاشرہ صحیح طور پر آگے بڑھ سکے گا۔