علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ! عصرِ حاضر کے تہذیب شناس

جویریہ حسن

ایک زندہ مفکر کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کی فکر کی تہیں وقت کے ساتھ ساتھ کھلتی ہیں۔ اکیسوی صدی کے آغاز میں بساطِ عالم پر انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اقبال کا فکر آج بھی ترو تازہ، عصر حاضر کے لیے زندہ و بامعنی اور دور نَو کے تقاضوں کا بھر پور ساتھ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اقبال نہ صرف اپنے دور کے معاشرتی اقتصادی، سیاسی اور انسانی صورتِ حال کا گہرا شعوراور ادراک رکھتے تھے بلکہ انہیں مستقبل کے بارے میں ایک حکیمانہ بصیرت عطاء ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں بلا تامّل آنے والے زمانوں کا شاعرو مفکر تسلیم کیا جا سکتا ہے۔

تہذیب کسی قوم کی مجموعی طرزِ حیات کا نام ہے۔ ’’تہذیب‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں آراستگی، صفائی، اصلاح، شائستگی، خوش اخلاقی، کانٹ چھانٹ۔ ’’درخت پودے کا کاٹنا چھانٹنا، تراشنا اور بنانا سنوارنا۔‘‘ مجازی مفہوم میں یہ لفظ ’’شائستگی‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ایک طویل عرصے تک یہ لفظ اسی محدود مفہوم میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے فرانسیسی مصنفین نے ’’بربریت‘‘ کے تصور کے خلاف ’’شائستگی یا تہذیب‘‘ کا لفظ وضع کیا۔ اردو میں سر سید احمد خاں وہ پہلے دانشور ہیں جنہوں نے تہذیب کا وہ مفہوم جو انیسویں صدی میں رائج ہوا، سب سے پہلے پیش کیا۔ تہذیب کیا ہے؟ انسان کے افعالِ ارادی اخلاق و معاملات اور معاشرت اور تمدن اور طریقہ تمدن اور صرفِ اوقات اور علوم اور ہر قسم کے فنون و ہنر کو اعلیٰ درجے کی عمدگی پر پہنچانا جس سے وحشیانہ پن اور انسانیت میں تمیز نظر آتی ہے‘‘۔

تہذیبوں کا تقابلی مطالعہ، تصادم اور مفاہمت عصرِ حاضر کا ہم ترین مسئلہ ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ تہذیبی کشمکش میں اسلام وقت کی کسوٹی پر کسا جارہا ہے۔ آج دنیائے اسلام کو اپنے کلیدی اقدار کی شناخت اور ازسرِ نو تعین، دنیا میں اپنے مناسب مقام کے حصول کی جدوجہد، اس کے ساتھ مغرب اور اسلام کے تقابلی مطالعے اور موازنے کے حوالے سے سنگین چیلنج اور مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے کیونکہ مغربی دانشوروں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ سویت یونین کی شکست وریخت کے بعد اب مغرب کا اگلا نظریاتی چیلنج اسلام ہے۔ ان تمام حالات میں تہذہبی تقابل اور تہذیبی تفاہم نے انتہائی اہمیت اختیار کر لی ہے اور ضروری ہے کہ اسلامی اور مغربی تہذیبوں کے حقیقی عناصر اس طرح واضح کرنے کی کوشش کی جائے کہ ایک طرف تو یہ تہذیبیں اپنی انفرادیت برقرار رکھیں، دوسری طرف ہر قسم کی غلط فہمیوں سے نکل کر امن و محبت باہمی رواداری، بقائے باہمی، انسانی حقوق کی بالادستی، بین المذاہب ہم آہنگی اور تہذیبی سنگم کے طرف لوٹ آئیں۔ مختلف دانشور اور اُدباء اس موضوع پر اظہار خیال کرتے رہے ہیں۔ اقبال وہ دانشور ہیں جنہوں نے مختلف تہذیبوں، اسلام اور مغرب کے مطا لعے اور ان میں افتراق و اتصال پر غیر معمولی فکری گہرائی، توازن اور غیر جانب داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں آج بھی ’’روح اسلام‘‘ اور ’’روحِ مغرب‘‘ ایک متوازن ٹھوس وسیع النظر، مدلل، تجزیاتی، ناقدانہ، معروضی اور منصفانہ فکرِ اقبال کی متقاضی ہے۔ ضروری ہے کہ مغرب اور عالم اسلام کی تاریخ اور عصری تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھ کر ٹھوس، مدلل اور منضبط اور معروضی انداز میں تہذیبوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اقبال کے افکار کو سمجھا جائے اور اقبال کے حوالے سے ’’روح اسلام‘‘ اور ’’روحِ مغرب‘‘ کو آشکار کیا جائے تاکہ اسلامی اور مغربی تہذیبوں میں افتراق و اتصال، تصادم اور اس کے اسباب، مفاہمت اور اس کی بنیادیں اقبال کے حوالے سے انسانی اور اصولی طور پر سامنے آسکیں اور اس طرح ایک نئے اور پر امن عالم کی تخلیق کی طرف گامزن ہواجاسکے۔ کوئی بھی تہذیب دیگر تہذیبوں سے کٹ کر پروان نہیں چڑھ سکتی۔ ماضی کے تہذیبوں کے تجربات، گردوپیش میں پائی جانے والی ہم عصر تہذیبیں کسی بھی تہذیب پرمختلف انداز میں اپنا اثر ڈالتی ہیں۔ کسی تہذیب پر نہ صرف کسی قوم کے ذاتی میلانات کا اثر ہوتا ہے بلکہ دوسری تہذیبیں بھی اسے متاثر کرتی ہیں۔ یہ اثر پذیری اور لچک تہذیبوں کے نمایاں خصوصیات ہیں۔ دوسری تہذیبوں کے خواص قبول کرنے کی صلاحیت کسی تہذیب کو زندہ و تابندہ اور ہر آن متحرک رکھتی ہے۔ کوئی بھی تہذیب دوسری تہذیبوں سے کٹ کرمحدود ہو کر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ رابرٹ بریفالٹ کے نزدیک ترقی ہمیشہ ثقافتوں کے ربط اور خیالات و تصورات کے تصادم سے پیدا ہوتی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ کتنا ہی مہذب ہی کیوں نہ ہو اس کے ترقی کے امکانات دوسرے معاشروں کے تعاون و اشتراک کے بغیر بے حد محدود ہوتے ہیں کوئی بھی انسانی تہذیب دیگر تہذیبوں سے کٹ کرترقی کی جانب گامزن نہیں ہو سکتی ایسی تہذیب ایک خاص مرحلے پر پہنچ کر جامد و ساکت ہوجاتی ہے اور زوال اس کا مقدر بن جاتا ہے۔

کسی تہذیب کے اثرات مثبت بھی ہوسکتے ہیں اور منفی بھی۔ مسلم تہذیب پر جہاں مغربی تہذیب کے مثبت اثرات ہیں وہاں منفی بھی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کشادہ دلی اور روشن خیالی کے ساتھ اعتدال و توازن سے کام لیتے ہوئے اپنی تہذیب کے بنیادی مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے مثبت عناصر کو اپنی تہذیب میں جگہ دی جائے اور دوسری تہذیبوں سے شعوری موازنہ نہ کرتے ہوئے اپنی تہذیب کے مردہ اور فرسودہ اجزء کو خارج کر کے ترقی کی طرف لے جایا جائے۔ سویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد بالخصوص 11 ستمبر ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون پر حملوں کے بعد ہماری دنیا مکمل طور پر تبدیل ہو کہ رہ گئی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ موجودہ دنیا واضح اور نمایاں منطقوں میں تقسیم ہو گئی ہے جن میں ایک منطقہ اسلامی دنیا کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ دوسرا امریکہ اور مغربی دنیا کی۔ نتیجتاً اسلام اور مغرب یا اسلامی اور مغربی تہذیب کا تقابلی مطالعہ یا موازنہ ایک انتہائی اہم مسئلہ کی صورت اختیا ر کر گیا ہے۔ بعض مغربی دانشوروں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ سویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد اگلا نظریاتی چیلنج اسلام ہے اور اکیسویں صدی میں اسلام اور مغرب کے درمیان تصادم کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ اسلام اور مغرب کی تہذیب میں تصادم اگرچہ جدید تصور ہے لیکن اس کی جڑیں قدیم ادوار میں پیوست میں۔ مثلاً صلیبی جنگوں کا اہم ترین دور، عثمانی دور کی وسیع ترین سلطنت جو یورپ میں پھیل گئی، مغرب کا دور اقتدار اور نوآبادیاتی نظام اور پھر موجودہ دور اس تصادم کے ساتھ ساتھ اتصال کی صورتیں بھی موجود رہی ہیں مثلاً یونانیوں کے نظری علوم کے مسلمانوں پر اثرات، مسلمانوں کے سائنسی علوم کا اثر مغرب پر پھر مغرب کے تہذیبی اثرات وغیرہ۔ موجودہ دور میں تصادم و اتصال کی کیفیت شدت سے جاری ہے مختلف جنگیں اور بالخصوص میڈیا کے ذریعے مغربی کلچر کے اثرات کا واضح ثبوت ہیں تاہم چودہ سو سال کی تاریخ کے دوران اسلام اور مغرب کے روابط زیادہ تر طوفان خیز رہے ہیں۔ صدیوں سے اسلام اور عیسائیت زبردست شورشوں، وقفوں، اور جوابی شورشوں کے سلسلے میں عروج وزوال سے گزر رہے ہیں۔ بعض اوقات دونوں میں صلح اور پر امن بقائے باہمی کی صورتحال بھی رہی بالخصوص صلیبی جنگوں کے کچھ عرصے بعد تک: سید ابوالحسن علی ندوی کے بقول: ’’مغربی تہذیب کی زد میں سب سے زیادہ عالمِ اسلام رہا ہے۔ اس مادی اور میکانی تہذیب کے چیلنج کا رُخ بہ نسبت کسی دوسری قوم اور معاشرے کے زیادہ تر عالمِ اسلام کی طرف ہی رہا ہے‘‘۔ موجودہ دور کے تناظر میں جبکہ مغربی تہذیب اپنی ظاہری آرائشوں کے باعث اسلامی معاشروں میں اپنے قدم جما چکی ہے۔ اقبال کی فکر نہ صرف تہذیب ِ مغرب کے پنہاں گوشوں سے پردہ اُٹھاتی ہے بلکہ تہذیب اسلامی کو قابلِ عمل اور نتیجہ خیز قوت کے طور پر بھی پیش کرتی ہے۔ اقبال کی شخصیت داخلی طور پر تربیت وتہذیب یافتہ، منظم اور توانا تھی۔ انھیں یورپی تمدّن کا ظاہری طمطراق، مادی آسائشیں اور چمک دمک متاثر نہ کرسکی۔ شخصی حیثیت میں وہ مغرب کے جس قدر قریب ہوئے، ان کے ذہن میں اس کے خلاف ایک ناقدانہ ردعمل پیدا ہوتاگیا۔ سیّد بوالاعلیٰ مودودی نے اس صورت حال کو ان الفاظ میں پیش کیا ہے: مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے ہوئے وہ جتنا مسلمان تھا، اس منجد ھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایاگیا، اس گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا، اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتاگیا، یہاں تک کہ اس کی تہ میں جب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہو چکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی ہی نہیں رہا۔ اقبال کا یہ ردعمل بالکل فطری تھا۔ وہ ایسے مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے، جو اسلام کی بہتری روایات واقدار کا امین تھا۔ چاہیے کہ وہ فطرتاً، طبعاََ، افتاداً، ذہناً اور تربیتاً، مشرقی اور اسلامی تھے۔ یورپ کے مشاہدات نے علامہ کو یہ کہنے پر مجبور کردیا:

تمھاری تہذیب، اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جوشاخ نازِک پہ آشیانہ بنے گا، ناپایدار ہوگا

ٍٍ آئندہ تیس برسوں میں بھی اقبال نے اپنے نتائج میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی:

جہانِ نور ہورہا ہے پیدا، وہ عالم پیر مررہا ہے
جیسے فرنگی مقامِروں نے بنادیا ہے قمارخان

ناقدانہ ردِعمل کے سلسلے میں علامہ اقبال کے ایک خط کا ذکر ضروری ہے۔ وحید احمد کے نام مراسلہ میں 7 ستمبر 1921ء کو لکھتے ہیں: اس زمانے میں سب سے زیادہ بڑا دشمن، اسلام اور اسلامیوں کا، نسلی امتیاز و ملکی قومیت کا خیال ہے۔ پندرہ برس ہوئے، جب میں نے پہلے پہل اس کا احساس کیا، اس وقت میں یورپ میں تھا اور اس احساس نے میرے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آب و ہوانے مجھے مسلمان کردیا۔ اس اعتبار سے یورپ اور وہاں کے صاحبان حکمت و دانش کے بھی ممنون ہیں، اقبال کی اس حکیمانہ بصیرت میں، جس نے انھیں فکری و ذہنی توازن عطا کیا، مغربی علوم حکمت کے سرچشموں کا بھی دخل ضرورہے۔ درج بالا اقتباس میں اقبال نے نسلی ووطنی قومیت کودشمنان اسلام و ملت اسلامیہ میں سر فہرست قراردیا ہے۔ فی الحقیقت اقبال کی ذہنی تبدیلی میں تین عناصر کارفرماتھے: مغرب کی ملحدانہ مادّہ پرستی، علاقائی اور وطنی قومیت کا تصور، لادین سیاست اگرچہ اقبال، مغرب کی تمدّنی اور معاشرتی خوبیوں، جیسے: وقت کی پابندی، صفائی کاروباری دیانت، محنت پیہم اور سلیقہ شعاری وغیرہ کے قائل ہیں اور اس کی صنعتی ترقی، سائنسی ایجادات، روشنی علم و ہنر اور ختراعی و تخلیقی کاوشوں کے بھی مدّاح ہیں، مگرانھیں اندیشہ تھا کہ ہم مشینی ترقی کے ظاہری طمطراق ہی میں الجھ کر نہ رہ جائیں۔

علامہ قبال نے ہمیں متوجہ کیاکہ:

فسادِ قلب و نظر ہے، فرنگ کی تہذیب
کہ روح، اس مدنیّت کی، رہ سکی نہ عفیف

رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیرِ پاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف

اقبال نے تہذیب حاضر کو اس کے باطن میں اتر کر اور گہرائی میں جاکردیکھا تو ان پر اس کی صلیت ظاہر ہوئی اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کی اس کی خیرہ کن چمک دمک اور صناعی فقط چند جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے:

نہ کر، افرنگ کا اندازہ، اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے، اس جوہر کی، برّاقی

اس سلسلے میں بالِ جبریل کی نظم لینن میں ہمیں ایک نہایت جامع تبصرہ ملتاہے:

یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ کہ بے چشمۂ حیواں، ہے یہ ظلمات

رعنائی تعمیر میں، رونق میں صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے، ہیں بنکوں کی عمارت

ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جوا ہے
سودا ایک کالاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات

یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبّر، یہ حکمت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات

بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیّت کے فتوحات؟

وہ قوم، کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم
حداس کے کمالات کی ہے برق و بخارات

ہے دل کے لیے موت، مشینوں کی حکومت
احساس مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات

بنیادی بات یہ ہے کہ تہذیب مغرب کی بنیاد الحادولادینیّت پر ہے: اقبال کے نزدیک الحاد جملہ برائیوں کی جڑ ہے۔

اقبال کے تصور تہذیب کا امتیاز

اقبال نے اپنے تصور تہذیب کی اسا س محکمات پر مبنی اصولوں کو قراردیا ہے۔ نہ صرف مسلم تہذیب بلکہ عالمی تہذیبی مسائل پر غور و فکر کرتے ہوئے اقبال قرآن حکیم سے براہ راست رہنمائی لیتے ہیں۔ یہ مغربی فکر کی بہت بڑی کوتاہی ہے کہ اسلامی تہذیبی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتے ہوئے نہ ہی کسی فکر نے قرآن حکیم سے استفادہ کیا اور نہ ہی قرآن حکیم کے بیان کردہ قانون عروج وزوال کو پرکھا بلکہ اس اسا سی ماخذ کو نظرانداز کر کے علمی غفلت اور تجاہل کا مظاہرہ کیا۔ مثلاََ سپنگر اورٹائن بی جیسے مفکرین نے قرآن حکیم کا ذکر تک نہیں کیاجبکہ ہن ٹنگن نے صرف منفی انداز سے کیا۔ ہن ٹنگن کے مطابق قرآن حکیم تشدد کی تعلیم دینے والی کتاب ہے۔ جس میں امن سے متعلق تعلیم موجود نہیں اور دنیا میں مسلمان پر تشدد جدوجہد قرآن سے متاثر ہو کر اور اس پر حلف اٹھاکر شروع کرتے ہیں جبکہ اقبال کے ہاں دیگر تہذیبوں کے بارے میں اس طرح کا کوئی اندھا تعصب نہیں پایاجاتا۔ اقبال کے تصور تہذیب کا دیگر افکار سے تقابل اقبال کے ان امتیازات کو نمایاں کرتا ہے:

اقبال کے ہاں تہذیب کی اساس روحانی اقدار پر استور ہے۔ یہ مرتبہ صرف اسلامی تہذیب کو حاصل ہے کہ یہ اعلی اور ابدی روحانی اقدار پر مبنی ہے : کلمہ لاالٰہ الا للہ محمد رسول اللہ پر مسلمانوں کی قومیت قائم ہے جب مسلمانوں اس اصول کا دوسروں کی قومیت سے تقابل کی کیاجاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی قومیت غیر مرئی ہے جو نہ ہاتھ سے چھوئی جاسکتی ہے اور نہ آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہے بلکہ وہ دل کی چیز ہے۔ دوسروں کا اصول قومیت مادی چیز ہے جس کو ہم دیکھ سکتے ہیں ایک مسلمان تاتاری ہے، ایک مسلمان کشمیری ہے، ایک مسلمان افغانی ہے مگر جب وہ لاالٰہ الا للہ محمد رسول ا للہ کہتے ہیں تو ان کا تمام اختلاف و امتیاز اس کلمہ کی آتش سے جل کر خاک سیاہ ہوجاتاہے، لیکن مسلمانوں کو نکتہ یاد رکھنا چاہیے کہ لاالٰہ الا للہ محمد رسول اللہ کہنے سے ہی کوئی مسلمان نہیں ہوجاتا جب تک وہ اسلام کے معاشرے اور تمدن کو اپنے اندر جذب نہ کرے۔ کیونکہ محض عقیدے کے مسلمان معزز ثابت نہیں ہو سکتے جب کہ ان کی عملی زندگی بھی اسلامی تمدن کے مطابق نہ ہو۔

یہی سبب ہے کہ مسلم امہ کی وحدت کی بنیاد بھی دینی ہو گی۔ کبھی بھی مسلم امہ مادی اقدار یا مادی اساس پر متحد نہ ہوسکے گی۔ مسلم تہذیب کی سیاسیات کی اسا س بھی روحانی نوعیت کی ہوگی، اسی پہلو کے باعث علامہ نے مسلم معاشرے کے لیے روحانی جمہوریت کا تصور بھی دیا تھا، سیاسیات کی روحانی اساس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: سیاسیات کی جڑ انسان کی روحانی زندگی میں ہوتی ہے۔ میرا عقیدہ ہے کی اسلام ذاتی رائے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک سوسائٹی ہے یا بھر سوک چرچ (Civic church) سیاسیات میں میری دلچسپی بھی دراصل اسی وجہ سے ہے۔

مسلم تہذیب کی روحانی اساس اس کے رجعت پسند ہونے کی نہیں بلکہ اس کے اقدامی مزاج کی مظہر ہے۔ علامہ فرماتے ہیں: مسلمانوں کے مذہبی تفکر کی تاریخ میں احمد یت کا وظیفہ ہندوستان کی موجودہ سیاسی غلامی کی تائید میں الہامی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ خالص مذہبی امور سے قطع نظر سیاسی امور کی بنا پر بھی پنڈت جواہر لال نہرو کے شایان شان نہیں کہ وہ مسلمانان ہند پر رجعت پسند اور قدامت پسند ہونے کا الزام لگائیں۔

اقبال مسلم معاشرے کے مختلف مظاہر کی تہذیبی اہمیت اور ثقافتی معنویت کے قائل ہیں۔ بدلتے ہوئے حالات میں مسلم معاشرے کے مختلف مظاہرسے کس طرح استفادہ ممکن ہے، علامہ فرماتے ہیں: زمانہ ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں اور ان سے استفادے کے طریق بھی بدلتے رہتے ہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنے مقدس دنوں کے مراسم پر غور کریں اور جو تبدیلیاں افکار کے تغیرات سے ہونی لازم ہیں ان کو مد نظر رکھیں۔ منجملہ ان مقدس ایام کے جو مسلمانوں کے لیے مخصوص لیے گئے ہیں ایک میلاد النبیaکا مبارک دن بھی ہے۔

ٍ اقوام کی تہذیبی زندگی میں ایسے فکری رجحانات بھی جنم لیتے ہیں جن سے اس قوم کا تہذیبی تشخص متاثر ہو سکتا ہے۔ مسلم تہذیب کے حوالے سے علامہ فرماتے ہیں: مسلمانوں کی ذہنی تاریخ میں عجیب قسم کی عقلی اور مذہبی تحریکوں کا نشانہ ملتا ہے، یہ بات کچھ اسلامی تہذیب کی تاریخ سے خاص نہیں بلکہ دنیا کی ہر تہذیب کی تاریخ میں ایسی تحریکیں پیدا ہوا کرتی ہیں اور مرورزمانہ سے ان تحریکوں میں ایسے عناصر کی آمیزش بھی ہو جاتی ہے جو اس تہذیب کی خاص روایات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔

تہذیبی فکر کے باب میں اقبال کا امتیاز یہ ہے اقبال کے ہاں تہذیبی افکار صرف افکار نہیں بلکہ کووہ اقبال کی ذات کا حصہ ہیں۔ اسلامی اور مغربی تہذیب کے فکری، اعتقادی اور اقداری اختلاف کے باوجود علامہ تہذیبوں کے مابین مکالمے کا امکان مسترد نہیں کرتے۔ اسلام شرق و غرب کے مابین نقطہ اتصال بن سکتا ہے۔ علامہ نے فر مایا: ’’میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں جغرافیائی حیثیت سے یورپ اور ایشیاء کے درمیان واقع ہو نے کے لحاظ سے اور زندگی کے مشرقی ومغربی نصب العین کے امتزاج کی حیثیت سے اسلام کو مشرق و مغرب کے درمیان ایک طرح کا نقطہ اتصال بننا چاہیے۔ لیکن اگر یورپ کی نادانیاں اسلام کو ناقابل مفاہمت بنا دیں تو کیا ہوگا؟عالمہ اقبال تہذیبی مکالمے کو انسانی بہبود کی اساس قرار دیتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تہذیبوں کی اس باہمی کشاکش میں اقبال کی متوازن، وسیع النظر، ٹھوس اور مستحکم فکر سے استفادہ کیا جائے تاکہ کرہ ارضی پر بلا تخصیص بقائے انسانی ممکن ہو سکے۔

حوالہ جات

  • ڈاکٹرجمیل جالبی، پاکستانی کلچر، نیشنل بک فانڈیشن، اسلام آباد، ص: 41
  • مولانا محمد اسماعیل پانی پتی، مقالاتِ سر سید(جلد ششم)، مجلس ترقی ادب، لاہور، ص: 6
  • رابرٹ بریفالٹ، ترجمہ، عبدالمجیدسالک، تشکیلِ انسانیت، مجلس ترقی ادب، لاہور، ء، ص، 123، 119
  • سید ابو الحسن علی ندوی، مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش، مجلس نشریات ِ اسلام، کراچی، س ن، ص: 16
  • محمد قطب، اسلام اور جدید ذہن کے شبہات، البدر پبلی کیشنز، لاہور، ص: 8
  • ڈاکٹر طاہر حمید تنولی، معاصر تہذیبی کشمکش اور فکر اقبال اسباب، اثرات اور حل، بی پی ایچ پرنٹر، لاہور، ص: 40
  • ڈاکٹر محمد آصف، اسلام اور مغرب کی کشمکش اور فکرِ اقبال، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان