سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی عظمت کے بیگانے بھی معترف تھے

ام حبیبہ رضا

خلیفہ دوم سیدناحضرت عمررضی اللہ عنہ اسلام کی وہ بے مثال و باکمال شخصیت ہیں کہ جن کی اسلام کے لیے روشن خدمات، جرات و بہادری، عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شاندار کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تاریخ انسانی کا ایسا نام ہے جس کی عظمت کو اپنے ہی نہیں بیگانے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ مگر ان کی خواہش پر کئی مضامین قرآن کا حصہ بن گئے۔ قبول اسلام کے بعد وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے شیدائی بن کر فاروق کہلائے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام سے اسلام کو بہت تقویت ملی۔ آپ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خصوصی طور پر دعا مانگی تھی کہ:

اللهم اعز باحب هذین الرجلین الیک بابی جهل او بعمر ابن الخطاب...

(جامع ترمذی، کتاب المناقب، رقم: 81، 3)

’’اے اللہ! تو ابو جہل یا عمر بن خطاب دونوں میں سے اپنے پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما۔ ‘‘

نام و نسب اور ولادت

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام عمر بن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ مشہور روایت کے مطابق ہجرت نبوی سے 60 برس قبل پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت اور بچپن کے حالات بالکل نامعلوم ہیں۔ حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی زبانی ایک روایت نقل کی ہے کہ میں چند احباب کے ساتھ ایک جلسے میں بیٹھا ہوا تھا کہ دفعتاً ایک غل اٹھا دریافت سے معلوم ہوا کہ خطاب کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہے۔ اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پیدا ہونے پر غیر معمولی خوشی کی گئی تھی۔

(شمس العلماء از علامه شبلی نعمانی)

علوم و فنون

شباب کا آغاز ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ مختلف علوم و فنون کے حصول میں میں مشغول ہوئے۔ نسب دانی کا فن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان میں موروثی چلا آتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انساب کا فن اپنے باپ سے سیکھا۔ جاحظ نے تصریح کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب انساب کے متعلق کچھ بیان کرتے تو ہمیشہ اپنے باپ خطاب کا حوالہ دیتے تھے۔

(طبقات ابن سعد (مطبوعه مصر) صفحه: 117، 122)

پہلوانی اور کشتی کے فن میں بھی کمال حاصل کیا۔ اسی زمانے میں انہوں نے لکھناپڑھنا بھی سیکھ لیا تھا او ر یہ وہ خصوصیت تھی جو اس زمانے میں بہت کم لوگوں کو حاصل تھی۔ علامہ بلاذری نے بہ سند لکھا ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معبوث ہوئے تو قریش کے تما م قبیلے میں چند آدمی تھے جو لکھنا جانتے تھے ان میں سے ایک حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب تھے۔ خودداری بلند حوصلگی تجربہ کاری معاملہ دانی یہ تمام اوصاف اُن میں اسلام لانے سے قبل پیدا ہو گئے تھے۔

(فتوح البلدان، للبلاذری، ص: 71)

قبول اسلام کا واقعہ

آپ رضی اللہ عنہ ستائیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کے لیے بہت دعا فرمایا کرتے تھے اس لیے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت خوش ہوئے اور اپنی جگہ سے چند قدم آگے چل کر آپ رضی اللہ عنہ کو گلے لگایا اور آپ رضی اللہ عنہ کے سینہ مبارک پر دست نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھیر کر دعا دی:

یااللہ ان کے سینے سے کینہ و عداوت کو نکال کر ایمان سے بھر دے۔

آپ کے قبول اسلام کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ مسلمانوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے تو مجبور ہوکر فیصلہ کر لیا کہ (نعوذ باللہ) خود بانی اسلام کا قصہ پاک کر دیں۔ تلوارکمر سے لگا کر سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے سے اسلام کی تاریخ میں نیا دو ر پیدا ہوا۔ اس وقت تک اگرچہ 50، 60 آدمی اسلام لا چکے تھے عرب کے مشہور بہادر حضرت حمزہ رضی اللہ عن سید الشہداء نے بھی اسلا م قبول کر لیا تھا۔ تاہم مسلمان اپنے فرائض مذہبی اعلانیہ ادا نہیں کر سکتے تھے۔ اور کعبہ میں نماز پڑھنا توبالکل ناممکن تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے ساتھ دفعتہ یہ حالت بدل گئی۔ انہوں نے علانیہ اپنا اسلام ظاہر کر دیا۔ کافروں نے اول اول ان پر بڑی شدت کی لیکن وہ برابر ثابت قدمی کرتے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ کعبہ میں جا کر نماز ادا کی۔ ابن ہشام نے اس واقعہ کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زبانی ان الفاظ میں روایت کیا ہے:

فلما اسلم عمر قاتل قریشا حتیٰ صلی عند الکعبه و صلینا معه.

(المعجم الکبیر، للطبرانی، رقم: 8820)

جب عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو قریش سے لڑے یہاں تک کہ کعبہ میں نماز پڑھی اوران کے ساتھ ہم لوگوں نے بھی پڑھی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام پر فرشتوں کا جشن

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’حضرت عمر مشرف بہ اسلام ہوئے تو میرے پاس جبرئیل امین آئے اور کہنے لگے عمر کے اسلام لانے پر فرشتوں نے جشن منائے۔‘‘

(سنن ابن ماجه، باب فضل عمر، رقم: 103)

علمی مقام و مرتبہ

سیدنا ابو حمزہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم نے ارشاد فرمایا:

’’میں سویا ہوا تھا، کیا دیکھتا ہوں کہ میں نے دودھ پیا ہے یہاں تک کہ اس کی سیرابی میرے ناخنوں سے باہر نکلنے لگی پھر میں نے وہ عمر رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔‘‘

(بخاری، جلد: 1، ص: 521)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس روایت کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:

رایت کانی اتیت بقدح لبن فشربت فاعطیت فضلی عمر بن الخطاب.

’’میں نے (خواب میں) دیکھا کہ مجھے دودھ کا ایک پیالہ دیا گیا جسے میں نے پیا اور جو باقی بچا وہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔‘‘

(ترمذی، جلد: 4، ص: 564)

سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کی تعبیر پوچھی گئی تو آپ نے اس کی تعبیر میں فرمایا: ’’العلم‘‘ یعنی وہ دودھ علم تھا۔ اس روایت میں شان فاروقی یہ بتائی کہ آپ کو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیالے سے بچے ہوئے دودھ سے جو دیا گیا وہ علم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے علم میں سرشار صحابی بھی فرمایا کرتے تھے ’’اگر تمام عرب کا علم ایک پلہ میں رکھا جائے اور عمر رضی اللہ عنہ کا علم دوسرے پلہ میں تو عمر رضی اللہ عنہ کا پلہ بھاری رہے گا۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’ہر نبی کے دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں اور دو وزیر آسمان والوں میں سے ہوتے ہیں۔ میرے آسمان والوں میں دے دو وزیر جبرائیل اور میکائیل ہیں اور زمین والوں میں سے دو وزیر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘

(کنزالعمال، جلد: 13، ص: 15)

جمع قرآن کا مشورہ

جنگ یمامہ میں بارہ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ شہید ہوئے جبکہ اس سے پہلے کسی جنگ میں اتنے صحابہ شہید نہیں ہوئے تھے ان میں انتالیس کبار صحابہ اور حفاظِ قرآن تھے۔ اتنی تعداد میں حفاظِ قرآن کی شہادت دیکھ کر رگِ فاروقی پھڑکی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہمت و جرات کرکے امیرالمومنین سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا کہ ’’یمامہ کی جنگ میں قراء و حفاظ کا شدید نقصان ہوا ہے، اس لیے اگر آپ نے قرآن حکیم کو جمع کرنے کا بندوبست نہ کیا تو خطرہ ہے کہ قرآن کا بڑا حصہ ضائع نہ ہوجائے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’جس کام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا، میں اسے کیسے کرسکتا ہوں؟‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’یہ کام تو خیر ہے‘‘۔ انہوں نے بار بار یہی بات کی یہاں تک کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو شرح صدر اور اطمینان ہوگیا۔ چنانچہ انہوں نے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے ذریعہ قرآن حکیم کو جمع کروایا۔ گویا قرآن حکیم کے جمع و تدوین کی تحریک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کی اور اس جمع کی تکمیل سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کی۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زہد و قناعت

آپ کی کتابِ زندگی میں زہد و قناعت کا باب بھی نہایت روشن ہے۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ قدامت اسلام اور ہجرت کے لحاظ سے بہت سے لوگوں کو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر فوقیت حاصل ہے لیکن زہد و قناعت میں وہ سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ ایک طرف قیصر و کسریٰ کی فوجیں ہر محاذ پر شکست کھا رہی ہیں۔ مختلف محاذوں پر جرنیلوں اور کمانڈروں کو خطوط لکھے جارہے ہیں۔ پوری دنیا کے بادشاہوں پر آپ کی شخصیت کی ہیبت طاری ہے لیکن اپنی حالت یہ ہے کہ کئی کئی پیوند لگا کپڑا زیب تن ہے۔ عمامہ پھٹا ہوا ہے، چپل بوسیدہ، بیوہ عورتوں کے گھروں میں پانی بھرنے کے لیے مشک کاندھے پر، سونے کے لیے خاک کا بستر، چشم فلک نے ایسا سربراہ مملکت کم ہی دیکھا ہوگا۔

غذا نہایت سادہ اور معمولی تھی۔ عموماً روٹی اور روغن زیتون دستر خوان پر ہوتا تھا۔ روٹی بغیر چھنے آٹے کے ہوتی جسے مہمانوں اور سفراء کو کھانے میں تکلیف ہوتی کیونکہ وہ ایسی معمولی غذا کھانے کے عادی نہیں ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ فرمایا:

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر قیامت کا خوف نہ ہوتا تو میں بھی تم لوگوں کی طرح دنیوی عیش و عشرت کا دلدادہ ہوتا۔‘‘

(کنزالعمال، جلد: 6، ص: 346)

یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا دور خلافت بھی تاریخ اسلام کا سنہری دور تھا۔ آپ نے اپنی رعایا کا بہت خیال رکھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکومت کے استحکام کے لیے جو معاشی نظام عطا کیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس حقیقی نظام کو باقاعدہ ملکی سطح پر انتظامی محکمہ جات کی صورت میں قائم کیا۔ جس نظم نے تمام طبقات کو متاثر کیا۔ اور آج بھی وہ نظام اور قانون امت مسلمہ اور خصوصا حکمرانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔