امّ المومنین حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا

ساجدہ کوثر نعیمی، دینہ ضلع جہلم

نام و نسب

حفصہ نام، قریش کے خاندان عدی سے تھیں۔ نسب نامہ یہ ہے۔

حفصہ بنت عمر فاروق بن خطّاب بن نفیل بن عبدالعزّیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرطہ بن زراح بن عدی بن کعب بن لُوَئ۔ آپ کی والدہ کا نام حضرت زینب بن مظعون رضی اللہ عنہا تھا، جو بڑی جلیل القدر صحابیہ تھیں۔ عظیم المرتبت صحابی حضرت عثمان بن مظعون حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ماموں اور فقیہ اسلام حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ انکے حقیقی بھائی تھے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بعثت نبوی سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں۔ آپ کا سارا خاندان تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے ساتھ ہی اہل ایمان کی حسین و جمیل اور مقدس ومطہر صف میں شامل ہوچکا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ چھ سن نبوی میں نور اسلام سے بہرہ ور ہوئے اور اس دن ان کے تمام اہل خانہ اس دولت سے سرفراز ہوئے اس وقت سیدہ حفصہ بنتِ عمر رضی اللہ عنہا کی عمر دس برس تھی۔

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا نکاح

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا جب سن شعور کو پہنچیں تو آپ کا نکاح قریبی عزیز حضرت خنیس بن حذافہ سے کردیا گیا۔

حضرت خنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ بھی ایک جلیل القدر صحابی تھے اور السابقون الاوالون کا تاج ان کے سر کو زیب دیتا ہے کیونکہ انھیں بھی دو دفعہ ہجرت کی سعادت نصیب ہوئی۔ ایک حبشہ کی طرف اور ایک مدینہ الرسول کی طرف۔ بدر کے غزوہ میں شامل ہوئے۔ غزوہ احد میں بھی شامل ہوئے اور داد شجاعت دیتے ہوئے شدید زخمی ہوگئے اور پھر زخمی حالت میں مدینہ منورہ میں گھر پر ہی علاج اور مرہم پٹی ہوتی رہی مگر کوئی بھی علاج کارگر نہ ہوا وقت اجل آ چکا تھا آپ وصال فرما گئے۔ (اناللہ واناالیہ راجعون)

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوئیں تو آپ کے والدین کو پھر انکو رشتہ ازواج میں منسلک کر نے کی فکر دامن گیر ہوئی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بہت غور و فکر کے بعد اپنے ہر دلعزیز دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی تو آپ نے انکار کردیا چونکہ وہ راز دار اسرار نبوتؐ تھے مگر حضرت عمر فاروق کو آپ کا اعراض ناگوار گزرا پھر دھیان حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی طرف گیا کیونکہ آپکی زوجہ حضرت رقیہ بنت رسول بدر کے موقع پر انتقال فرماگئیں تھیں۔ ان سے بات ہوئی تو انھوں نے غور و فکر کے لیے کچھ مہلت مانگی اور تقریباً ایک ماہ کے بعد انہوں نے بھی معذرت کرلی۔

اس صورتحال پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بہت دل برداشتہ ہوئے کہ بظاہر کوئی رکاوٹ بھی نہیں نظر آتی اس کے باوجود دونوں ساتھی خاموش ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی علیہ والہ و سلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور دبے لفظوں میں ذکر چھیڑ ا اور دونوں صحابہ کا نام بھی لیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زخمی دل کو مرہم لگاتے ہوئے ارشاد فرمایا عمر دلبرداشتہ نہ ہو۔ حفصہ سے وہ شادی کر ے گا جو عثمان سے بہتر ہے اور عثمان اس سے شادی کر ے گا جو حفصہ سے بہتر ہے۔

حضرت عمر فاروق کے لیے اشارہ ہی کافی تھا آپ کے مغموم دل میں خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ گئی کہ میری بیٹی حفصہ خاتم الانبیاء صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عقد میں آئے گی۔ ام المومنین کا شرف پا کر پوری دنیا کے انسانوں کے لیے عقیدتوں کامرکز بن جائے گی۔

اسی خوشی اور مسرت میں اٹھے گھر جا رہے تھے راستے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئی۔ انھوں نے عمر فاروق کو خوش دیکھا تو بات شروع ہونے سے پہلے خود ہی مبارک باد دیتے ہوئے اپنی طرف سے معذرت خوانہ انداز میں کہا میرے علم میں تھا کہ حفصہ عقد مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آنے والی ہیں۔ اس لیے اس سلسلے میں کچھ اپنے لیے کہنا مناسب نہیں تھا اور اسرار نبوت سے قبل از وقت پردہ کشائی بھی مناسب نہ تھی اس لیے خاموش رہا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پہلے ہی خوشیوں سے سر شار تھے دل میں پیدا ہونے والے دل کے غبار کو دھو چکے تھے۔ یوں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بنت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ازواج مطہرات میں شامل ہوکر ام المومنین ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

جب سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیت سے سرفراز ہوئیں تو دو ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہما پہلے سے موجود تھیں۔ ایک سیدہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا اور دوسری سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ۔

مسجد نبوی سے متصل ہی حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کے مکانات تھے جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی خاتون کو شرفِ زوجیت سے نوازتے تو وہ اپنا مکان خالی کردیتے تھے اس طرح انہوں نے یکے بعد دیگرے تمام مکانات اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نذر کردیئے تھے۔ ان میں چار مکان تو کچی اینٹوں کے بنے ہوئے تھے اور پانچ مکان گارے اور کھجور کی شاخوں کے تھے۔ شادی کے بعد حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو جس مکان میں رکھا گیا، وہ مشرقی جانب تھا۔ حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے باہمی قریبی تعلقات کی وجہ سے امہات المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بھی ایک دوسرے سے بہت قریب تھیں۔

مکہ مکرمہ کے چند خاندانوں میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا خاندان بھی تھا جو تعلیم یافتہ تھا۔ فصاحت وبلاغت انکے گھر کی لونڈی تھی۔ معاملہ فہمی اور قوت فیصلہ اور تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت ان کے خاندان کو خصوصی ودیعت فرمائی گئی تھی اور یہ تمام صفات حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو اپنے خاندان اور باپ سے وراثت میں ملیں تھیں۔

حفاظتِ قرآن اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا

قرآن پاک وقفے وقفے سے نازل ہوا تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مقدسہ کے دوران ہی اس بات کا اہتمام فرمادیا تھا کہ جونہی آیاتِ مبارکہ نازل ہوئی تھیں، انہیں متعلقہ سورت میں شامل کرکے احاطہ تحریر میں لایا جائے۔ دوسرے کاتبانِ وحی کے علاوہ یہ ذمہ داری سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے بھی سپرد تھی کیونکہ وہ لکھنا سیکھ چکی تھیں لہذا سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق نازل شدہ آیاتِ مبارکہ کو اپنے پاس موجود قرآنی نسخے میں درج کرلیتی تھیں۔ سیرت نگاروں کے کے مطابق رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی قرآن مجید کے تمام کتابت شدہ اجزاء یکجا کرا کے اپنی زوجہ اطہر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس رکھوادیئے تھے جو تاحیات ان کے پاس رہے۔

معلم حکمت ودانش حضور صل اللہ علیہ والہ و سلم کے پردہ فرما جانے کے بعد خلافت ابو بکر کے دور میں نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کے فتنوں میں یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ قرآن مجید کی حفاظت کے حوالے سے کوئی کوتاہی نہ ہوجائے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مشورہ کر کے مختلف اوراق کتابت جمع کیے اور صحیح ترین نسخہ کی حفاظت کے لیے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا انتخاب ہوا، حضرت سیدنا عثمان غنی کے خلافت کے دور میں ا سلام عرب سے نکل کر عجم تک پہنچ چکا تھا عجمی مسلمانوں کے تلفظ طرز ادائیگی اور عربی سے ناواقفیت کی بنا پر ممکن تھا کہ لاشعوری طور پر اس کے لہجے میں فرق پڑجاتا اس لئے عہد عثمانی میں صحابہ کا ایک بورڈ اور کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے تحقیق و تصدیق سے کام لیتے ہوئے قرآن پاک باقاعدہ ایک کتابی شکل میں ترتیب دیا اور اس کام کے لئے وہی نسخہ بنیاد بنا جو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا ان سے وہ نسخہ لے کر اس تحقیقی بورڈ کی حتمی رائے قائم کرکے سرکاری مہر کے ساتھ مختلف نسخے تیار کر دیے گئے اور سرکاری تصدیقی مہر کے ساتھ بلادِ اسلامیہ تک پہنچا دیے گئے یوں قیامت تک کے لئے اسی فتنے کا بچائو کا بہترین انتظام ہو گیا یہ اعزاز بھی ام المومنین حضرت سیدہ حفصہ بنت سیدنا عمر فاروق زوجہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حصے میں آیا۔

عادات و اطوار

آپ رضی اللہ عنہا احسن طریقے سے عبادت کیا کرتی تھیں، کثرت صوم و صلوٰۃ کی پابند تھیں۔ ابن سعد نے ان کی عبادت کے متعلق لکھا ہے وہ (یعنی حفصہ رضی اللہ عنہا) صائم النہار اور قائم اللیل تھیں۔ دوسری روایت میں ہے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا انتقال کے وقت تک صائمہ تھیںام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نہایت عبادت گزار تھیں وہ گوشہ نشین اور پرہیز گار خاتون تھیں اور ان کا یہ حال تھا کہ اشد ضرورت کے بغیر کبھی گھر سے باہر قدم نہیں نکالا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا زیادہ وقت عبادت میں گزرتا اگرچہ اس زمانے میں جب آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں داخل ہوئیں بالکل جوان تھیں مگر آپ رضی اللہ عنہا میں بزرگوں جیسی سنجیدگی اور علماء اسلام جیسا وقار تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا زیادہ وقت تلاوت قرآن پاک میں صرف ہوتا۔ آپ اس کی باریکیوں کو سمجھتیں ان پر غور فرماتیں اور جو نقطہ سمجھ میں نہ آتا اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے وضاحت طلب کرتیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سخاوت کی دولت سے بھی مالا مال تھیں جو مال آتا اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرکے خوشی محسوس کرتیں یہاں تک کہ اپنی جائیداد بھی وفات کے وقت اللہ عزوجل کی راہ میں صدقہ کردی۔

آپ رضی اللہ عنہا سے ساٹھ (60) احادیث منقول ہیں جو انہوں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سماعت فرمائی تھیں، ان میں سے چار متفق علیہ ہیں، چھ صرف صحیح مسلم شریف میں ہیں اور باقی پچاس احادیث کی مختلف کتب میں ہیں۔

روایات میں ہے کہ عرب کے مشہور مقرر اور شعلہ نوا خطیب مردوں میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت حمزہ بن عبداللہ، حضرت حارثہ بن وہاب، حضرت عبدالرحمن بن حارث اور عورتوں میں حضرت امام مبشرہ انصاریہ اور صفیہ بنت ابی عبیدہ حضرت سیدہ حفصہ بنت عمرفاروق رضی اللہ عنہما کے شاگرد تھے اور 60 احادیث مبارکہ آپ سے مروی ہونا آپ کے گہرے مطالعہ لگن کا بین ثبوت ہے۔

سیرت نگار اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت سیدہ حفصہ کا مدینہ منورہ میں 60 سال کی عمر میں وصال ہوا آپ کی نماز جنازہ مروان بن حکم نے پڑھائی اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میت مبارکہ جنت البقیع تک لے کر گئے حضرت عبداللہ بن عمر حضرت عاصم بن عمر اور سالم بن عبد اللہ اور حضرت حمزہ قبر میں اترے اور آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ اناللہ واناالیہ راجعون