فقہ النساء: اعضاء کی خریدو فروخت ممنوع ہے

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: اسلام میں جسم کے اعضاء کی خریدوفروخت حرام ہے، کیا جان بچانے کے لیے گردے خرید سکتے ہیں؟

جواب: انسان اپنے اعضاء کا امین ہوتا ہے لیکن مالک نہیں ہوتا، لہٰذا کوئی شخص اپنے اعضاء بیچنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اس بناء پر جسمانی اعضاء کی خرید و فرخت جائز نہیں ہے۔

سوال: کیا مالی تنگی یا ضرورت کی وجہ سے گردے فروخت کیے جا سکتے ہیں؟

جواب: مالی تنگی اور ضرورت کی بناء پر بھی کوئی شخص گردے فروخت نہیں کر سکتا۔ ایسا عمل جائز نہیں ہے۔

سوال: آج کل جگر کے کچھ حصے بھی مریض کو دیئے جا رہے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟

جواب: مستند ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جگر کا چھوٹا سا ٹکڑا کسی مریض کو ڈونیٹ کرنے کی وجہ سے ڈونر کی صحت میں خرابی پیدا نہیں ہوتی جبکہ دوسری طرف کسی مریض کی جان بچ جاتی ہے۔ لہٰذا یہ عمل جائز ہے۔

سوال: وفات کے بعد کون سے اعضاء دوسرے لوگوں کو دیئے جا سکتے ہیں؟ مثلاً گردے، آنکھیں وغیرہ۔

جواب: ہم اپنی جان کے امین ہیں مالک نہیں ہیں جبکہ عطیہ اپنی ملکیت سے کیا جاتا ہے۔ دنیا جنگوں سے ماری ہوئی اور حادثات سے چور چور ہے کسی کو ٹانگ کی ضرورت ہے، کسی کو بازو کی، کسی کو آنکھ کی ضرورت ہے، کسی کو گردوں کی، کسی کو ہڈی کی ضرورت ہے اور کسی کو ناک، کان، انگلی، پنڈلی، ران، پسلی، دل، گردہ، جگر، پھیپھڑے، دماغ کی۔ مستقبل کا نقشہ یوں سامنے آتا ہے کہ جونہی کوئی شخص قدرتی یا حادثاتی موت مرا ضرورت مندوں کی لائن لگ جائے گی۔ ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کانا کارہ ہونا اور درد کمر تو عام ہوگیا ہے جس احساس ہمدردی نے جسم کے ایک حصہ کو عطیہ کرنے پر آمادہ کیا ہے وہ باقی ضرورت مندوں کی قطار پر ترس کھا کر دیگر اعضاء بھی عطیہ کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ دفنانے کفنانے کے لئے شاید ہی چند بوٹیاں ہڈیاں بچیں۔ جبکہ اسلام نے کسی میت یہاں تک کہ میدان جہاد میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے کافر و مشرک کی لاش کو بھی مثلہ کرنے سے منع کیا ہے کہ اس کے ہاتھ، پاؤں، ناک، کان، دل، گردہ، پھیپھڑے چیرے پھاڑے جائیں اور لاش کی بے حرمتی کی جائے۔ جیسا کہ حضرت عدی بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عبد اللہ بن یزید رضی اللہ عنہ کو سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے:

أَنَّهُ نَهَی عَنِ النُّهْبَةِ وَالمُثْلَةِ.

چھینا چھپٹی کرنے اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔

(بخاری، الصحیح، کتاب الذبائح والصید، باب ما یکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 5: 2100، رقم: 2197، بیروت: دار ابن کثیر الیمامة)

لہٰذا میرے نزدیک کسی کا اپنے اعضاء عطیہ کرنا جائز نہیں ہے۔

سوال: پوسٹ مارٹم کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب: میں پوسٹ مارٹم کا اصولاً مخالف ہوں میرے نزدیک یہ مختلف جرائم میں ملوث مجرمین کو سزا سے بچانے اور کیس خراب کرنے کے اسباب میں ایک اور اضافہ ہے۔ پہلے یہ کام پولیس کے دباؤ، رشوت اور ناجائز سفارش کے ذریعہ کیا جاتا تھا اب ڈاکٹر اور سرجن بھی حصہ دار بن گئے ہیں۔ اعتراف جرم اور گواہی کے فطری، سادہ اصولوں سے جرم و سزا کا جو عادلانہ تصور تھا، میڈیکل رپورٹ نے اس سے اونچی حیثیت لے لی ہے ساری دنیا گواہی دیتی رہے کہ فلاں نے فلاں کو فلاں آلہ سے قتل کیا ہے مگر ڈاکٹر چاہے تو کہہ دے کہ مقتول دل کا مریض تھا، بلڈ پریشر کا مریض تھا قاتل نے فائرنگ کے لئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ مریض ہارٹ اٹیک سے مر گیا اور گولیاں مرے ہوئے مردے کو لگیں جو موت کا باعث نہ بنیں پس فائرنگ کرنے والا بے قصور، بری الذمہ بے گناہ ہے یہ قاتل نہیں قصاص و دیت کا کیا جواز رہ گیا؟ ہاں اگر گواہی بھی نہیں، اعتراف جرم بھی نہیں اور شک ہے کہ مرنے والے کو زہر دے کر مارا گیا ہے تو آلات جدیدہ اور جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے بقدر ضرورت معدہ یا دوسرے مقام سے جسمانی اجزاء بغیر مثلہ کئے حاصل کئے جاسکتے ہیں لیکن میڈیکل کے سٹوڈنٹس کے پریکٹیکلز کی خاطر میت کا حلیہ بگاڑنا کسی صورت جائز نہیں یہاں تک کہ لڑنے والے کافر و باغی کو قتل کرنے کا حکم تو ہے مگر اس کے مختلف اعضاء کو چیرنے پھاڑنے اور میت کا مثلہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

سوال: پلاسٹک سرجری کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب: پلاسٹک سرجری بقدر ضرورت جائز ہے۔ مثلاً چہرے پر چوٹ، زخم یا کسی اور وجہ سے بنے بدنما داغ دھبوں کو ختم یا مدہم کرنے کے لیے جائز ورنہ ناجائز ہے۔

سوال: فقہ کا اصول ہے ’ضرورت ممنوع کو جائز کر دیتی ہے‘ اس کا اطلاق کہاں پر ہو گا؟ کیا زندگی بچانے کے لیے یا کسی بھی جگہ؟

جواب: حالت اضطرار یا اکراہ میں جان بچانے یا اعضاء بچانے کے لیے یا عزت بچانے کے لیے، اس قاعدہ کا اطلاق ہوتا ہے۔