اقراء مبین

ذخائر القرآن

’’ذخائر القرآن‘‘ عرفان الہدایہ کے زیر اہتمام قرآنی سورتوں اور مضامین پر مشتمل ایسا مجموعہ ہے جسے عوام الناس کے لیے مرتب کیا گیا ہے۔ ذخائرالقرآن کے نام سے مرتب کردہ کتاب میں قرآن پاک کی 114 سورتوں کا مفصل و جامع تعارف بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں سے دو سورتوں کا تعارف بطور ماڈل پیش نظر ہے:

سورۃ الفاتحہ:

نام سورۃ

الفاتحہ

الفاظ

25

آیات

7

سورۃ نمبر

1

دور نزول

مکی

رکوع

1

حروف

123

سجود

کوئی نہیں

پارہ نمبر

1

تعارف

سورۃ فاتحہ قرآن حکیم کی پہلی سورۃ ہے۔ فاتحہ کا لفظی معنی ابتداء کرنے والی کے ہیں۔ اس سورۃ کا نام فاتحہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس کی حقیقت جو بیان ربوبیت پر مبنی ہے اس کائنات میں انسانی حقیقت کا نقطہ آغاز اور کلمہ اولین ہے۔ اس نام کی نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ دیگر اسماء مثلاً فاتحہ الکتاب، السبع المثانی، الشفاء ، سورۃ الحمد، الوافیہ، الکافیہ، سورۃ الصلوٰۃ، سورۃ الدعا، سورۃ کنز وغیرہ کا جامع ہے اور کم و بیش اس کے تمام اوصاف و امتیازات کو محیط ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سورۃ فاتحہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق فی الواقعہ شفاء سمجھتے اور کئی امراض کا علاج اس سورۃ کے ذریعے کرتے تھے۔ صحیح مسلم، سنن نسائی اور دیگر کتب حدیث میں منقول ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سانپ اور بچھو کے کاٹے پر، مجنون اور اہل صرع (یعنی مرگی کے مریض) پر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کرتے تھے جس سے مریض اسی وقت تندرست ہو جاتا تھا۔ بزرگوں نے بھی مختلف امراض کے لیے سورۃ فاتحہ کو مخصوص اوقات میں یا مخصوص تعداد میں پڑھ کر دم کرنے کی وہی تاثیر بیان کی ہے۔

سورۃ الفاتحہ کی تاثیر سے انسان پر حقیقی برکت و سعادت کا راستہ کھلتا ہے، ذہنی کرب، فکری الجھنوں اور پریشانیوں سے نجات ملتی ہے۔ رنج و الم اور غم و اندوہ رفع ہوتے ہیں۔ بیمار کو تندرستی ملتی ہے، تنگدست کو فراخی رزق عطا ہوتی ہے، محروم کو فتح نصیب ہوتی ہے اور سب غموں اور دکھوں کا مداوا ہو جاتا ہے۔ (وظائف کے لیے الفیوضات محمدیہ کو ملاحظہ کریں)

شان نزول

اس کا شان نزول یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں جب جنگل میں جاتا تو ایک آواز سنتا یا محمد ایک نورانی شخص کو زمین و آسمان کے درمیان لٹکتے ہوئے زریں تحت پر دیکھا۔ اس آواز سے خوف محسوس کرتے ہوئے بھاگ جاتا۔ جب یہ واقعہ کئی دفعہ رونما ہوا تو میں نے حضرت خدیجہj کے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل سے یہ واقعہ بیان فرمایا۔ وہ تورات اور انجیل کے عالم تھے اور انہوں نے نصرانی علماء سے کافی علم حاصل کیا تھا تو انہوں نے مجھے کہا کہ اب جب آپ سنیں تو بھاگیں نہیں اور توجہ کریں کہ کہنے والا کیا کہتا ہے۔ میں نے اسی طرح کیا جب پھر آواز آئی یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے لبیک کہا۔ اس نے کہا میں جبرائیلe ہوں اور آپ اس امت کے نبی ہیں۔ پھر اس نے کہا کہ یہ پڑھیے اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمداً عبدہ ورسولہ پھر اس نے کہا کہ کہیے لْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ لْعَٰلَمِینَ میں نے سورۃ فاتحہ آخر تک تلاوت کی۔کہا بلکہ کہو لا الہ الا اللہ۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر ورقہ بن نوفل کے پاس آئے اور سب کچھ بتایا۔ ورقہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا بشارت ہو، بشارت ہو میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ہی وہ ذات ہیں جن کی بشارت ابن مریم نے دی تھی اور آپ کے پاس موسیٰe والا فرشتہ آیا ہے اور آپ بھیجے ہوئے نبی ہیں۔

مضمون

  1. توحید کا بیان
  2. نبوت پر ایمان کا بیان
  3. عبادات کا بیان
  4. وعدہ و وعید کا بیان
  5. قصص و امثال کا بیان

تعارف سورۃ الکوثر وجہ تسمیہ، شانِ نزول اور اہم مضامین

نام سورۃ الکوثر الفاظ 1 آیات 3
سورۃ نمبر 108 دور نزول مکی رکوع 1
حروف 40 سجود کوئی نہیں پارہ نمبر 30

تعارف

اس سورۃ کے شروع میں کوثر کا لفظ آیا ہے اس لیے اس کو سورۃ کوثر کہتے ہیں۔ کوثر کے معنی خیر کثیر کے ہیں۔ اس سورۃ کادوسرا نام نحر بھی ہے۔ اس سورۃ کی فضیلت یہ ہے کہ اگر کوئی اس سورۃ کوجمعہ کی شب ایک ہزار مرتبہ پڑھے، ایک ہزارمرتبہ دروشریف بھی پڑھے توخواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوگی۔ علاوہ ازیں اگر معاشی تنگی اور باوجود محنت و کوشش کے رزق میں فراوانی نہیں ہوتی تو ایسے حالات میں سورۃ کوثر کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کے حضور مدد طلب کریں اور معاشی تنگی اور کاروباری مشکلات سے نجات حاصل کریں۔ (وظائف کے لیے الفیوضات محمدیہ کو ملاحظہ کریں)

شان نزول

اس سورۃ کا شان نزول یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو صاجزادے حضرت قاسم رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے وصال فرمانے کے بعد قریش کے کفار نے آپ کو ابتر کہنا شروع کیا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رنج و ملال کا باعث تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تسلی کے لیے یہ سورۃ مبارکہ نازل فرما کر کفار کو جواب دیا کہ یہ خیال غلط ہے کیونکہ ابتر درحقیقت وہی ہے جس کا نام دنیا میں مرنے کے بعد زندہ نہ رہے۔

مضامین

  1. اللہ تعالیٰ کا اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام نعمتیں اورعزتیں عطا فرمانا۔
  2. نمازاورقربانی خالصتاً اللہ کے لیے اداکرنا۔
  3. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو طعنہ دینے والوں کا بے نسل ہونا۔