شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مرتبہ: نازیہ عبدالستار
ناقل:محمد خلیق عامر

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِ.

’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں۔‘‘

(البقرة، 2: 185)

اللہ رب العزت نے اپنی اس عظیم کتاب کا نام ’’قرآن‘‘ رکھا ہے اور یہ نام بھی حضور علیہ السلام کا تجویز کردہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہے اور یہ قرآن مجید کے اعجازات میں سے ہے۔ جتنی کتابیں اللہ رب العزت نے پہلے انبیاء و رسل عظام پر نازل فرمائیں اور مختلف صحائف نازل فرمائے، اُن میں سے کتابوں کو باقاعدہ نام دئیے گئے مثلاً جو کتاب سیدنا موسیٰ علیہ السلام پہ نازل کی گئی اُس کا نام تورات ہے۔ سیدنا داؤد علیہ السلام پر زبور اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل نازل کی گئی۔

مگر یہ ثابت نہیں ہو سکا تورات، زبور، انجیل کے نام خود اُن کتابوں کے اندر کسی آیت میں بھی مذکور تھے یا نہیں مگر ان کے نام قرآن مجید سے معلوم ہوتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰةِ وَالْاِنْجِیْلِ.

’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔‘‘

(الاعراف، 7: 157)

اُن ساری کتابوں کا مجموعہ بائبل کہلاتا ہے۔ اُن میں تحریف ہوگئی، ان کتابوں کا کسی آیت کے اندر نام نہیں ملتا۔ موسیٰ علیہ السلام پر اترنے والی کتابیں ’’خمسئہ موسوی‘‘ ہیں اور بائبل کا پہلا حصہ جس کو ’’عہدنامہ قدیم‘‘ کہا جاتا ہے۔

اس کا دوسرا جزو ’’عہدنامہ جدید‘‘ ہے اُس کی ابتدا میں چار اناجیل ہیں۔ اُن کا عنوان اناجیل اربعہ ہے مگر پہلی آیت سے آخری آیت تک کسی بھی ایک آیت کے اندر یہ درج نہیں کہ یہ کتاب جو عیسیٰ علیہ السلام پر اتری اس کا نام انجیل ہے۔ شاید جب یہ کتابیں نازل ہوئیں تو اُن کے متن میں یہ نام نہ تھے، بعض میں اللہ رب العزت نے ان کتابوں کو نام دیئے بہر صورت یہ بات قطعی طور پہ کسی شکل میں ثابت نہیں ہے مگر یہ اعزاز اور اعجاز قرآن کا ہے کہ اللہ رب العزت نے صرف اس کتاب کو حضور علیہ السلام پر نازل فرما کر اس کا نام ہی نہیں رکھا کہ یہ قرآن ہے بلکہ خود اس قرآن کے متن میں 72 مرتبہ لفظ ’’قرآن‘‘ مختلف آیات کریمہ میں آیا ہے۔ یہ قرآن کا بہت بڑا امتیازمی شرف ہے۔

لفظ ’’قرآن‘‘ اس کتاب کا ذاتی نام ہے۔ جیسے اللہ رب العزت کا ذاتی نام ’’اللہ‘‘ ہے اور باقی اسماء اللہ رب العزت کے صفاتی ہیں۔ وہ نام جو اُس کی صفات کو اجاگر کرتے ہیں اُن کو صفاتی نام کہتے ہیں۔ جیسے الرحمن، الرحیم، مالک، الرب، حفیظ، رؤف، یہ سارے صفاتی نام ہیں۔ یہی ذاتی اور صفاتی ناموں کا فرق حضور علیہ السلام کی ذات پاک میں بھی ہے۔ آقا علیہ السلام کے ذاتی اسم دو ہیں ’’محمد‘‘ اور ’’احمد‘‘۔ حضور علیہ السلام کا ذاتی نام زمین پر ’’محمد‘‘ ہے۔ قرآن مجید نے بیان کیا:

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ ﷲِط وَالَّذِیْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ.

’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں۔‘‘

(الفتح، 48: 29)

محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضور علیہ السلام کا ذاتی نام ہے۔

اسی طرح ارشاد فرمایا:

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ.

’’اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تو) رسول ہی ہیں (نہ کہ خدا)۔‘‘

(آل عمران، 3: 144)

محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور شخصیت کو جاننا چاہتے ہو کہ وہ کون ہیں؟ وہ کچھ نہیں ہیں مگر سراپا رسول ہیں، اس لیے اُن کا ہر کہنا، عمل، حرکت، سکوت وہ سارا کا سارا پیغامِ رسالت ہے، ذاتی نام ’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘۔

اور آسمانوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ’’احمد‘‘ ہے۔ جیسے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے زمانے میں لوگوں کو بتایا اس وقت حضور علیہ السلام کا ظہور اور ولادت ابھی کرّہ ارضی پر نہیں ہوئی تھی، آپ عالمِ ارواح میں آسمانوں پر تھے اُس وقت حضور علیہ السلام کا وہ نام بتایا جو آسمانی نام تھا:

وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ.

اے لوگو! میں تمہیں بشارت دے رہا ہوں اُس برگزریدہ رسول اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی جو میرے بعد تشریف لانے والے ہیں اور اِس وقت اُن کا نام ’’احمد‘‘ ہے۔

(الصف، 61: 6)

چونکہ حضور علیہ السلام اُس وقت آسمان پر تھے۔ پس ’’احمد‘‘ اور ’’محمد‘‘ ذاتی نام ہیں مگر باقی نام آقا علیہ السلام کے سب صفاتی ہیں۔ اُس میں رؤف ہے، رحیم ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اسمائے گرامی جو 99 ہیں۔ سارے صفاتی ہیں اور اللہ رب العزت کے بھی 99 نام ہیں ’’اللہ‘‘ کے سوا سب صفاتی نام ہیں۔

جو کتاب حضور علیہ السلام پہ نازل ہوئی اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَیْبَج فِیْهِ.

(البقرة، 2: 2)

یہ وہ عظمت والی کتاب ہے، جس کے کتاب الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں اور نہ ہی اس کتاب میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہے۔ یہ کتاب جو حضور علیہ السلام پہ نازل ہوئی اس کا ذاتی نام اللہ رب العزت نے خود قرآن مجید کے اندر ’’قرآن‘‘ رکھا۔

اس قرآن کے صفاتی ناموں پر امام ابو المعالی نے اپنی کتاب ’’البرہان‘‘ میں بیان کیا ہے، اس کی مختلف خوبیاں، خصائص، صفات، اوصاف، تاثیرات اور برکات اُن کے حوالوں سے جو قرآن میں اس کے صفاتی نام بیان ہوئے ہیں وہ 55 ہیں۔ مثلاً الکتاب، الکلام، النور، الفرقان، الذکر، الھدیٰ، الشفاء، الموعظۃ (نصیحت)، الحکمۃ البالغۃ، الرحمۃ، احسن الحدیث، التنزیل، التذکرۃ، العروۃ الوثقیٰ، البلاغ، الصحف القیمۃ وغیرہا۔ یہ سارے صفاتی نام ہیں۔

گویا قرآن مجید کا یہ ایک امتیازی و نادر مقام اور عظیم شان ہے کہ قرآن مجید کے 72 مرتبہ ذاتی اور 55 مرتبہ صفاتی نام دونوں کو ملا کر 127 مرتبہ صرف قرآن مجید کا ذکر ہوا ہے جہاں قرآن مجید کا کوئی ذاتی یا صفاتی نام تو نہیں آیا مگر قرآن مجید کا کسی نہ کسی حوالے سے بیان ہے۔ مثلاً ارشاد فرمایا:

اِنَّآ اَنْزَلَنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِo

ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل فرمایا۔

(القدر، 97: 1)

اِنَّـآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰـرَکَةٍ.

’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔‘‘

(الدخان، 44: 3)

اس میں کوئی ذاتی اور صفاتی نام تو بیان نہیں کیا مگر اس کا شب قدر میں نازل کیا جانا بیان ہوا ہے۔ تو اس طرح قرآن مجید کا ذکر کئی عنوانات سے، کئی حوالوں سے آیا ہے۔ اُن کو جمع کیا جائے تو تعداد اور بڑھ جاتی ہے۔

قرآن مجید میں اس کے صفاتی نام بیان کئے اس کے ذاتی نام کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح ہوتا ہے۔ سورۃ الواقعہ میں فرمایا:

اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌo

’’بے شک یہ بڑی عظمت والا قرآن ہے (جو بڑی عظمت والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتر رہا ہے)۔‘‘

(الواقعه، 56: 77)

سورۃ یوسف میں فرمایا:

اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ هٰذَا الْقُرْاٰنَ.

’’جسے ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے۔‘‘

(یوسف، 13: 3)

اور سورۃ البقرۃ جس کی آیت آج ہم نے تلاوت کی فرمایا:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ.

’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔‘‘

(البقرة، 2: 185)

اور سورۃ الاسراء میں فرمایا:

اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ.

’’بے شک یہ قرآن اس (منزل) کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو سب سے درست ہے۔‘‘

(بنی اسرائیل، 17: 9)

تو گویا قرآن مجید نے اس طرح مختلف آیات کریمہ میں اپنے ذاتی نام کا بھی ذکر کیا ہے۔

قرآن جو ہدایات الہٰیہ کا مجموعہ ہے، اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ رُشد و ہدایت پر مبنی ایک کتاب ہے۔

اس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا ﷲَ ذِکْرًا کَثِیْرًاo

’’اے ایمان والو! اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔‘‘

(الاحزاب، 33: 41)

کہیں ارشاد فرمایا:

وَ اذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًاo

’’اپنے رب کے نام کا ذکر کر، اپنے رب کے نام کو یاد کرو کثرت کے ساتھ اور ہر شے سے کٹ کر کہ جیسے غیر سے کٹ جانے کا حق ہوتا ہے۔‘‘

(المزمل، 73: 8)

حضور علیہ السلام نے بیان فرمایا:

أَفْضَلُ الذِّکْرِ لَا إِلَهَ إِلَّا ﷲُ.

(جامع الترمذی، ابواب الدعوات، 5: 462، الرقم: 3383)

اب ’’لَا إِلَهَ إِلَّا ﷲُ‘‘ تو ایک عقیدہ ہے کہ ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘‘ کوئی عبادت اور پرستش کے لائق نہیں۔ ’’محمد رسول اللہ‘‘ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں۔ حضور علیہ السلام نے اس ذکر کو تمام اذکار میں افضل قرار دیا۔ حضور علیہ السلام نے بیان کیا کہ اگر اس کا ورد 100 بار کیا جائے تو اس کی بہت برکتیں ہیں۔ حتیٰ کہ بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ صحاح ستہ کی کتب اور دیگر کتب حدیث میں ابواب قائم ہیں۔

گویا اللہ رب العزت نے انسان کو اپنے نام سے جوڑنے کی ترغیب دی۔

جب انسان کا تعلق اللہ کے نام سے جڑ جائے گا تو نام پھر آگے ذات و صفات تک پہنچائے گا۔ کیونکہ نام ذات و صفات تک رہنمائی کرتا ہے اور راستے کے ذریعے منزل پر جاتے ہیں۔ سورۃ فاتحہ میں بھی یہی نصیحت فرمائی:

هْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo

’’ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت فرما۔‘‘

(الفاتحه، 1: 5)

راہ ہی ایسی شے ہے جو بندے کو منزل تک پہنچاتی ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ نصیحت فرمائی کہ میرے نام سے آغاز کرو۔

جب پہلی وحی آقا علیہ السلام پر غار حرا میں اتاری تو پہلی معرفت اللہ کی ذات کی دی۔

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo

’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔‘‘

(العلق، 96: 1)

’’پڑھیے‘‘ الفاظ و حروف کی طرف اشارہ کرتا ہے ذات کی طرف نہیں۔ معرفت میں قدم رکھنے کے لیے اُس کے نام سے تعلق جوڑیں چونکہ نام راستہ ہے اور دروازہ ہے، اس سے گزریں گے تو پھر وادی میں داخل ہوجائیں گے۔

اس طرح پورے قرآن میں جو خیر ہے، اُس کی جھلک لفظ قرآن میں ہے۔ قرآن کی پوری 114 سورتوں کا خلاصہ سورۃ فاتحہ ہے اور پھر پوری سورۃ فاتحہ کا خلاصہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے اور اگر پورے قرآن مجید کے جتنے الفاظ و حروف ہیں اُن تمام الفاظ اور آیات اور سورتوں کا خلاصہ، لفظ ’قرآن‘ میں ہے۔

تو اُسی لفظ کو اس کتاب کا نام رکھا گیا ہے۔ قرآن کے پڑھنے میں بھی برکت ہے اور اس لفظ کے اندر سے معرفت اور علوم کے چشمے پھوٹتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں خود قرآن مجید کے مضامین کے معارف سے بہرہ یاب فرمائے، قرآن مجید کے اسم کی معرفت بھی دے کہ اُس اسم ’قرآن‘ کے لفظ کی معرفت سے وہ دروازے کھلیں جو ہمیں معارف قرآن تک لے جائیں۔