قرآن معانی و معارف کا بحرِ بیکراں

محمد فاروق رانا

اللہ رب العزت نے تخلیق انسانیت کے بعد ان کی رہنمائی کے لیے قرآن کی صورت میں دستور حیات مہیا فرمایا ہے۔ انسانیت اخلاقی بلندیوں پر فائز ہونا چاہتی ہے تو اسے تعلیماتِ قرآن کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا:

کَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنُ

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلند اخلاق کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو قرآن کا مطالعہ کرو۔گویا مطالعہ قرآن میں زندگی کے تمام مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ اُخروی کامیابی کا راز بھی مضمر ہے۔ آج ہمارا معاشرہ ذہنی و فکری انتشار اور اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے۔ اسے مثالی اسلامی معاشرہ بنانے کے لیے رجوع الی القرآن کی ضرورت ہے۔ ویسے تو قرآن مجید کو جو اللہ کا کلام ہے، دیکھنا، پڑھنا اور سننا بھی باعثِ اجر و ثواب ہے مگر اسے دستورِ حیات اور تعمیرِ اخلاق و کردار کے لیے رہبر و رہنما بنانے کے لیے معنی کے ساتھ سمجھنا اَز حد ضروری ہے۔

قرآن معانی و معارف کے اعتبار سے بحرِ بیکراں ہے۔ اس کی ہر سورت، آیت، حرف حتی کہ سورتوں کے ناموں، حروف کی ترتیب و تعداد میں بھی مختلف اسرار و معانی مضمر ہیں، جن میں غور و خوض کے بعد ہی ان کی روحانیت و نورانیت سے مستفیدہوا جا سکتا ہے۔ قرآن فہمی کے لیے جس دِقت نظری اور لغوی مہارت کی ضرورت ہے وہ غیر عربی میں تو دور کی بات، عربی الاصل میں بھی خال خال پائی جاتی ہے۔ پھر آج کی مادیت پرستی اور لامحدود خواہشاتِ نفس کو پورا کرنے کے لیے حصولِ مال کی دوڑ، حبِ جاہ منصب اور حُبِّ دنیا نے انسان کو قرآن فہمی سے دور کر دیا ہے جس کا لامحالہ نتیجہ انسانیت کی گراوٹ ہے۔ انسان نے اپنی ناسمجھی کی بنا پر خود ہی یہ نتیجہ قائم کر لیا کہ قرآن صرف ایک کتابِ ثواب ہے جسے گھروں میں حصولِ برکت کے لیے محفوظ رکھا جاتا ہے اور کسی مشکل اور مخصوص وقت میںاس کی تلاوت کی جاتی ہے یا دم درود کے لیے کافی و شافی ہے۔

جب ہم نے قرآن مجید کو عام علوم کا مصدر اور منبع و مرکز نہ مانا تو ہم نے ان علوم کو دیگر ذرائع سے حاصل کرنے پر اپنی زندگیاں صرف کر دیں، جس نے ہمیں قرآن گریزی پر مجبور کر دیا۔ جب ہم قرآن سے دور ہوئے توہم اپنے اصل مقصد کو بھول گئے جس کے لئے انسان کی تخلیق ہوئی تھی۔ ہم اپنے رب سے دور ہو گئے کیونکہ ہم نے قرآن کے ذریعے اس سے ہم کلام ہونا چھوڑ دیا، اس طرح انسانیت نے اعلیٰ کے بجائے ادنی کی طرف، کامیابی کے بجائے ناکامی کی طرف اور تعمیر کے بجائے تخریب کی طرف سفر شروع کر دیا۔

آج جب ہمارا معاشرہ اخلاقی بے راہ روی اور گراوٹ کا شکار ہے، اپنے اصل مقصد اور وطن کو بھول کر شیطان کی مزین کردہ مال و دولت والی اس عارضی دنیا سے لو لگا بیٹھا ہے۔ ایسے وقت میں ضرورت ہے کہ اس بھولی بھٹکی انسانیت کو پھر اصل منزل کی طرف گامزن کیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ قومیں جن اقدر کو چھوڑ کر برباد ہوتی ہیں انہی کے ذریعے دوبارہ اَوجِ ثریا پر گامزن ہوتی ہیں۔ ہمیشہ اپنی ناکامی میں کامیابی تلاش کی جاتی ہے، لہٰذا آج اس بگڑے معاشرے کو راہِ راست پر لانے کے لیے قرآن فہمی کی اشد ضرورت ہے۔ اگر معاشرے کا قرآن سے ٹوٹا تعلق پھر سے جوڑ دیا جائے تو قرآن مجید انسانیت کو منزلِ مقصود تک لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ قرآن مجید کو اس کے اسرارو رموز اور معارف و معانی کی گہرائی کے ساتھ سمجھا جائے، کیونکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انسانیت کو دانش و حکمت کے اس خزینے اور بحرِ صداقت کے اس سفینے میں سوار ہوئے بغیر راہ نجات نصیب نہیں ہو سکتی۔

تخلیقِ کائنات کی ابتداء سے لے کر جب جب انسانیت اپنی اصل راہ سے بھٹکی اللہ رب العزت نے ان کی رہنمائی کے لیے کسی نبی و رسول کو مبعوث کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ بابرکات پر نبوت کا خاتمہ کر دیا گیاہے۔ اب انسانیت کی راہنمائی کا یہ فریضہ وارثانِ نبوت یعنی علمائے کرام کے پاس ہے۔ جوں جوں معاشرہ بگاڑ کا شکار ہوتا ہے اور دین کے بنیادی اُصولوں اور اقدارمیں بگاڑ پیدا ہوتا ہے ویسے ہی اللہ تعالیٰ اپنے کسی خاص بندے کو یہ توفیق بخشتا ہے کہ وہ دینِ اسلام کے چہرے پر پڑی اس گرد کو مٹا کر اس کی اصل صورت سامنے لائے اور بھولی بسری انسانیت کو راہِ راست پر لائے۔

تحریک منہاج القرآن نے اپنے آغاز ہی سے رجوع الی القرآن کو تاسیس کے بنیادی مقاصد میں سے اہم مقصد قررا دیاہے۔ تحریک منہاج القرآن کے زیر انتظام قرآن فہمی کے موضوع پر جہاں اور بہت سے تعلیمی و تربیتی منصوبہ جات کام کر رہے ہیں، وہاں بالخصوص منہاج القرآن ویمن لیگ نے معاشرے کی نصف سے زائد عورتوں پر مشتمل آبادی کے لیے ’’الہدایہ‘‘ کے نام سے قرآن فہمی اور مطالعہ دین کے مختلف کورسز،کلاسز،ورکشاپس اور کیمپس کا آغا زکیا ہے، جس کے لیے پورے ملک میں تدریسی ورکشاپس کروائی جاتی ہیں۔ قرآن فہمی کی ورکشاپس میں قرآن مجید کی اُصولِ تجوید کے مطابق تلاوت کے ساتھ الفاظ و آیاتِ قرآنیہ کے مطالب و معانی کو سمجھ کر روح و عمل کی غذاء بنایا جاتاہے۔

قرآن فہمی کے لیے درج ذیل چند ضروری اُمور ہیں، جن کے بغیر قرآن مجید پڑھنا اور سمجھنا محال ہے۔ ان میں اُصولِ تجوید، عربی حروف کی ادائیگی کا درست طریقہ، الفاظ کے معانی و مطالب اور بامحاورہ ترجمہ و تفسیر شامل ہیں۔ اس مقصد کے لیے حال ہی میں عرفان الہدایہ کے پلیٹ فارم سے پہلا پارہ طبع کیا گیا ہے۔

عرفان الہدایہ پلیٹ فارم سے طبع کردہ پارہ جات کی خصوصیات:

’’الہدایہ‘‘ کی طرف سے قرآن فہمی کے لیے طبع کردہ ان پارہ جات کی چند خصوصیات بیان کی جاتی ہیں:

  1. ’’الہدایہ‘‘ پراجیکٹ کے تحت تدریسی اُمور کو مدِنظر رکھتے ہوئے قرآن مجید کا لفظی و بامحاورہ ترجمہ (اردو و انگریزی زبان میں)، گرامر اور تجوید سمیت ایک طالبِ علم کی ضرورت کے تمام امور کو ایک آیت کے ذیل میں جمع کر دیا گیا ہے۔
  2. الفاظ، حروف کا مرکب ہوتے ہیں، لہٰذا لفظ سے پہلے حرف کی پہچان اور درست ادائیگی، الفاظِ قرآن کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے۔ اس پارے کے شروع میں عربی حروفِ تہجی کو، عربی، رومن عربی اور ان کے متبادل انگریزی حروف کے ذریعے واضح کیا گیا ہے تاکہ جو عربی حروف کی پہچان نہیں رکھتا وہ بھی رومن عربی اور متبادل انگریزی حرف کے ذریعے بآسانی عربی حروفِ تہجی سیکھ سکے۔ یاد رہے یہ اُسلوب نہ صرف پاکستانی معاشرے بلکہ یورپی معاشرے کو بھی مدِنظر رکھ کر اپنایا گیا ہے تاکہ ایسے افراد جو عربی حروف کی پہچان تک نہیں رکھتے وہ بھی اس اُسلوب کے ذریعے قرآن سیکھ، پڑھ اور سمجھ سکیں۔
  3. آیات کی تلاوت کرتے وقت کس جگہ رکنا ہے، کس جگہ نہیں رکنا، کہاں رکنا لازمی ہے اور کہاں اختیاری، ان تمام امور کے لیے کچھ رموزِ اوقاف ہیں جن کے جانے بغیر درست تلاوت ممکن نہیں۔ اس پارے کے شروع میں ان تمام رموزِ اَوقاف کی اصل علامت کو اردو اور انگریزی تشریح و توضیح کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔
  4. ابتدا میں ہی قرآن مجید کا اجمالی تعارفی خاکہ پیش کیا گیا ہے جو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں ہے۔
  5. درست تلاوتِ قرآن اور مطالب و معانی کے ساتھ مطالعۂ قرآن کی اہمیت و افادیت کو احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں واضح کیا ہے جو انتہائی مختصر مگر جامع بیان ہے۔
  6. پارہ کا اُسلوب یہ ہے کہ قرآن کی ایک آیت لکھی جاتی ہے، اس آیت کے نیچے ایک ایک لفظ کا الگ کالم میں اردو ترجمہ لکھا جاتا ہے، اسی لفظ کے نیچے ایک لائن میں مکمل بامحاوہ اردو ترجمہ بیان کیا گیا ہے۔تیسرے کالم میں اس لفظ کا انگریزی معنیٰ اور چوتھے کالم میں مکمل انگریزی ترجمہ بیان کیا گیا ہے۔آخری کالم میں اس لفظ کی عربی گرامر کے اعتبار سے جو حیثیت ہے اسے واضح کیا جاتا ہے کہ یہ لفظ اس آیت میں بطور فاعل، مفعول، مبتدا، خبر، جار و مجرور یا موصوف صفت میں سے کس حیثیت میں واقع ہوا ہے۔
  7. ایک صفحے پر آیت کی مکمل تفصیل بیان کرنے کے بعد سامنے والا صفحہ خالی چھوڑا گیا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ طالب علم اپنے طور پر اگر اس آیت سے متعلق کوئی اضافی نوٹس لینا چاہتا ہے تو وہ اپنے مکمل ملاحظات اس صفحے پر لکھ سکتا ہے، اسے الگ سے نوٹ بک کی ضرورت نہیں پڑتی۔
  8. اس طرزِ ترجمہ کا فائدہ یہ ہے کہ تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھنے والا ایک عام آدمی اپنے طور پر بھی اس کا بآسانی مطالعہ کر سکتا ہے۔ گویا یہ کتاب خود ہی استاد بھی ہے۔ جو عربی زبان نہیں جانتا وہ اس سے بہت بہتر استفادہ کر سکتا ہے۔ پڑھا لکھا طبقہ بھی اس سے مستفید ہو سکتا ہے حتیٰ کہ عربی اور درسِ نظامی پڑھنے والے طلبا اور علمائے کرام کے لیے بھی یہ اس طرزِ ترجمہ سے استفادہ کی گنجائش موجود ہے۔

مذکورہ بالا خصوصیات کا حامل، تدریسی و قرآن فہمی کے امور کا یہ واحد اور مثالی شاہکار ہے جس کی مثال اس وقت کہیں نہیں ملتی اور یقیناً یہ شاہکار قرآن فہمی کے لیے افرادِ معاشرہ کے ذہنوں میں گہرے نقوش مرتب کرے گا۔

عرفان الہدایہ‘‘ کے پلیٹ فارم سے قرآن فہمی کے لیے یہ ایک ایسا قدم اُٹھایا ہے جو قابلِ ستائش بھی ہے اور لائق تقلید بھی۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہیں کہ ہمیں اس خوبصورت تحفے سے بھرپور استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)