فضائلِ قرآن از روئے احادیث

اللہ رب العزت نے کائناتِ انسانی کی رہنمائی کے لیے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دین و دنیا کی فلاح و سعادت اور رُشد و ہدایت کا جامع اور کامل ترین دستور قرآن مجید کی شکل میں نازل فرمایا۔ جس طرح خالقِ کائنات نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے جملہ کمالات، فضائل اور خواص کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر ختم کرکے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین کے درجے پر فائز کیا، اُسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی کتابِ ہدایت کو الوہی علوم و معارف کا آخری ایڈیشن بنایا۔ اب قیامت تک آنے والی نسل انسانی کو زندگی گزارنے کے رہنما اصول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ جلیلہ سے اِسی آخری کتاب سے لینے ہیں۔ چنانچہ تعلیماتِ اسلام کا پہلا بڑا مآخذ قرآنِ مجید ہے اور دوسرا بڑا مآخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارک و سنت مطہرہ ہے۔

بلاشبہ آج امتِ مسلمہ کے زوال و انحطاط، کسمپرسی اور قعرِ ذلت میں ڈوبنے کی بنیادی وجہ اِس زندہ کتاب کی تعلیمات سے اِنحراف اور سنت و سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روگردانی ہے۔ چنانچہ امت کے زوال و اِنحطاط اور پستی کو عروج میں بدلنے اور اس کی فکری و نظریاتی، علمی و عملی، سیاسی و معاشی، تہذیبی و ثقافتی اور معاشرتی بنیادوں کو پھر سے مضبوط اور ٹھوس بنانے کے لیے قرآن و سنت سے ہمی جہتی تعلق کو بحال کرنا ناگزیر ہے۔

قرآن مجید ہدایت کا سرچشمہ ہے

فرمان الہٰی ہے:

ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَیْبَج فِیْهِج هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ.

’’(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔‘‘

(البقرة، 2: 2)

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا.

’’بے شک یہ قرآن اس (منزل) کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو سب سے درست ہے اور ان مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری سناتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔‘‘

(بنی اسرائیل، 17: 9)

امام مالک بیان فرماتے ہیں کہ ان تک یہ روایت پہنچی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بهما: کتاب الله وسنة نبیه.

’’میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں، اگر انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے؛ یعنی اللہ کی کتاب اور اُس کے نبی کی سنت۔‘‘

(مالک، الموطا، 2/899، الرقم: 1594)

قرآن مجید کو دیگر تمام کتب پر فضیلت حاصل ہے

عن ابی سعید رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: یقول الرب: من شغلہ القرآن وذکری عن مسالتی اعطیتہ افضل ما اعطی السائلین وفضل کلام اللہ علی سائر الکلام کفضل اللہ علی خلقہ۔

’’حضرت ابو سعید (خدری) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ رب العزت فرماتا ہے: جس شخص کو قرآن اور میرا ذکر اتنا مشغول کردے کہ وہ مجھ سے کچھ مانگ بھی نہ سکے۔ تو میں اسے مانگنے والوں سے بھی زیادہ عطا فرمادیتا ہوں اور تمام کلاموں پر اللہ تعالیٰ کے کلام (قرآن حکیم) کی فضیلت اسی طرح ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی (فضیلت) اپنی مخلوق پر ہے۔‘‘

(الترمذی، السنن، 5/184، الرقم: 2926)

قرآن مجید بہترین زادِ سفر ہے:

عن جبیر بن نفیر رضی الله عنه، قال: قال النبی صلی الله علیه وآله وسلم: انکم لن ترجعوا الی الله بافضل مما خرج منه یعنی القرآن.

’’حضرت جبیر بن نفیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک تم قرآن مجید سے افضل کوئی شے لے کر اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں لوٹو گے۔‘‘

(الترمذی، السنن، 5/177، الرقم: 2912)

قرآن، اللہ تعالیٰ کو ہر شے سے زیادہ محبوب ہے:

عن عبدالله بن عمرو رضی الله عنه عن رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم انه قال: القرآن احب الی الله من السموات والارض ومن فیهن.

’’حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک قرآن مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کو آسمانوں، زمین اور ان کے اندر موجود ہر شے سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘

(الدارمی، السنن، 2/ 533، الرقم: 3358)

قرآن والے ہی اللہ والے ہیں

عن انس رضی الله عنه، قال: قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: ان لله اهلین من الناس قالوا: من هم یارسول الله؟ قال: اهل القرآن هم اهل الله وخاصته.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں سے کچھ اہل اللہ ہوتے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یارسول اللہ! وہ کون (خوش نصیب) ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قرآن والے، وہی اللہ والے اور اُس کے خواص ہیں۔‘‘

(ابن ماجه، السنن، 1/ 78، الرقم: 215)

قرآن مجید سیکھنے اور سکھانے کی فضیلت

عن عثمان رضی الله عنه، عن النبی صلی الله علیه وآله وسلم قال: خیرکم من تعلم القرآن وعلمه.

’’حضرت عثمان (بن عفان) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو (خود) قرآن حکیم سیکھے اور (دوسروں کو بھی) سکھائے۔‘‘

(البخاری الصحیح، 4/1919، الرقم: 4739-474)

قرآن مجید کے ماہر کیلئے دوگنا اجر ہے

عن عائشة رضی الله عنها، قالت: قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: الماهر بالقرآن مع السفرة الکرام البررة، والذی یقرا القرآن ویتتعتع فیه، وهو علیه شاق له اجران.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجید کا ماہر معزز و محترم فرشتوں اور معظم و مکرم انبیاء کے ساتھ ہوگا۔ وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہو لیکن اس میں اٹکتا ہو اور (پڑھنا) اُس پر (کند ذہن یا موٹی زبان ہونے کی وجہ سے) مشکل ہو اُس کے لیے بھی دوگنا اجر ہے۔‘‘

(البخاری، الصحیح، 4/ 1882، الرقم: 4653)

قرآنِ مجید کو ترتیل سے (یعنی ٹھہر ٹھہر کر) پڑھنے کی فضیلت

عن عبدالله بن عمرو رضی الله عنها قال: قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: یقال لصاحب القرآن: اقرا وارتق ورتل کما کنت ترتل فی الدنیا، فان منزلتک عند آخر آیة تقرابها.

’’حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (روزِ قیامت) قرآن مجید پڑھنے والے سے کہا جائے گا: قرآن مجید پڑھتا جا اور جنت میں منزل بہ منزل اوپر چڑھتا جا اور یوں ترتیل سے پڑھ جیسے تو دنیا میں ترتیل سے پڑھا کرتا تھا۔ تیرا ٹھکانا جنت میں وہاں پر ہوگا جہاں تو آخری آیت تلاوت کرے گا۔‘‘

(الترمذی، السنن، 5/ 177، الرقم: 2914)

گھروں میں تلاوتِ قرآن کی فضیلت

عن عائشة رضی الله عنها، قالت: قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: البیت الذی یقرا فیه القرآن یترائی لاهل السماء، کما تترائی النجوم لاهل الارض.

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جن گھروں میں قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے آسمان والوں کو وہ گھر ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے زمین والوں کو آسمان پر ستارے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

(بیهقی، شعب الایمان، 2/341، الرقم: 1982)

عالمِ قرآن کے والدین کی فضیلت

عن سهل بن معاذ الجهنی رضی الله عنه عن ابیه، ان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم قال: من قرا القرآن وعمل بما فیه البس والداه تاجا یوم القیامة ضوءه احسن من ضوء الشمس فی بیوت الدنیا، لو کانت فیکم فما ظنکم بالذی عمل بهذا.

’’حضرت سہل بن معاذ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے قرآن پاک پڑھا اور اس پر عمل بھی کیا اس کے ماں باپ کو قیامت کے دن ایک ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی میں اس دنیا میں لوگوں کے گھروں میں چمکنے والے سورج کی روشنی سے زیادہ حسین ہوگی۔ تو اُس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جس نے خود اس پر عمل کیا ہو (یعنی اس کے ماں باپ کو تو تاج پہنایا جائے گا اور اس کا اپنا مقام تو اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے)۔‘‘

(ابوداود، سنن، 2/70، الرقم: 1453)

قرآن مجید سے دوری۔۔ دل کی ویرانی ہے

عن ابن عباس رضی الله عنهما، قال: قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: ان الذی لیس فی جوفه شیء من القرآن، کالبیت الخرب.

’’حضرت (عبداللہ) بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جس کے دل میں قرآن مجید کا کچھ حصہ بھی نہیں وہ ویران گھر کی طرح ہے۔‘‘

(الترمذی، السنن، 5/ 177، الرقم: 2913)

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا دستر خوان (عطیہ و نعمت) ہے

عن عبدالله رضی الله عنه، عن النبی صلی الله علیه وآله وسلم قال: ان هذا القرآن مادبة الله فاقبلوا من مادبته ما استطعتم ان هذا القرآن حبل الله، والنور المبین، والشفاء النافع عصمة لمن تمسک به، ونجاة لمن اتبعه لا یزیغ فیستعتب ولا یعوج فیقوم ولا تنقضی عائبه ولا یخلق من کثرة الرد، اتلوه فان الله یاجرکم علی تلاوته کل حرف عشر حسنات اما انی لا اقول: الم حرف، ولکن الف ولام ومیم.

’’حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا دستر خوان (عطیہ و نعمت) ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اس کے دستر خوان میں سے حاصل کرلو۔ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی رسی، چمکتا دمکتا نور اور (ہر روگ و پریشانی کا) نفع بخش علاج ہے۔ جو اس پر عمل کرے اس کے لیے (باعثِ) حفاظت اور جو اس کی پیروی کرے اس کے لیے (باعثِ) نجات ہے۔ یہ جھکتا نہیں کہ اس کو کھڑا کرنا پڑے۔ ٹیڑھا نہیں ہوتا کہ اسے سیدھا کرنا پڑے۔ اس کے عجائب (رموز و اسرار، نکات و حِکم) کبھی ختم نہ ہوں گے اور بار بار کثرت سے پڑھتے رہنے سے بھی پرانا نہیں ہوتا (یعنی اس سے دل نہیں بھرتا) اس کی تلاوت کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کی تلاوت پر تمہیں ہر حرف کے عوض دس نیکیوں کا اجر عطا فرماتا ہے۔ یاد رکھو! میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے۔ بلکہ الف (ایک حرف ہے)، لام (ایک حرف ہے) اور میم (ایک حرف ہے گویا صرف الم پڑھنے سے ہی تیس نیکیاں مل جاتی ہیں)۔‘‘

(الدارمی، السنن، 2/523، الرقم: 3315)