آثارِ قلم: تلاوتِ قرآن پاک کے آداب

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب حسنِ اعمال سے اقتباس

اللہ تعالیٰ نے انسان کی رشد و ہدایت کے لیے مختلف ادوار میں آسمانی صحائف نازل کئے تاکہ ہر دور میں لوگوں کی دنیوی و اخروی فلاح و بہبود کے لیے راہنمائی میسر آسکے۔ اس سلسلہ میں سب سے آخر میں قرآن پاک نازل کیا گیا جو رہتی دنیا تک کے لوگوں کی رشد و ہدایت کا باعث ہے۔ اسی لیے اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے لیا اور فرمایا:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ.

’’بے شک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘

(الحجر، 15: 9)

چونکہ قرآن آخری کتاب ہے لہذا اللہ تعالیٰ نے اسے جامع کتاب بنایا اور اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کے کچھ حقوق ہم پر متعین کردیے کہ قرآن سے راہنمائی لینے کے بھی آداب ہیں جنہیں ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ جن میں سرِفہرست آدابِ تلاوت قرآن ہیں۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ادب و احترام اور اخلاص و محبت کے ساتھ شب و روز قرآن کی تلاوت کا حکم فرمایا ہے۔ تلاوتِ قرآن سے قبل اس کے آداب کو ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ تلاوت کے آداب درج ذیل ہیں:

1۔ طہارت و پاکیزگی

قرآنِ حکیم کو چھونے سے قبل باوضو ہونا ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لا یَمَسُّهُٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَo

’’اس کو پاک (طہارت والے) لوگوں کے سوا کوئی نہیں چھوئے گا۔‘‘

(الواقعه، 56: 79)

جس طرح قرآن حکیم کی ظاہری جلد اور اوراق کو انسانی جسم کے ظاہر سے حالت طہارت کے علاوہ عدم طہارت سے محفوظ رکھا گیا ہے اس طرح اس کے معانی کا باطن بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے پردے میں رکھا گیا ہے البتہ وہی دل اس تک پہنچ سکتا ہے جو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک اور تعظیم و توقیر کے نور سے منور ہو۔

2۔ ترتیل سے پڑھنا

قرآن حکیم کا ایک ادب یہ ہے کہ اسے محبت و اخلاص، ذوق و شوق اور گریہ و زاری سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے۔ اس سے مطالبِ قرآن تک رسائی کے علاوہ اجر و ثواب میں بھی اضافہ ہوگا۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاo

’’اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریں۔‘‘

(المزمل، 73: 4)

حضرت ابو حمزہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے عرض کیا:

’’میں قرآن حکیم (اتنی) تیزی سے پڑھتا ہوں کہ تین راتوں میں قرآنِ حکیم ختم کرلیتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا: اگر میں سورہ بقرہ ایک رات میں پڑھوں اور اس میں غور و فکر کروں اور ترتیل سے اس کی تلاوت کروں تو اس طرح کا پڑھنا میرے نزدیک تمہارے پڑھنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘

(بیهقی، السنن الکبری، 2: 396، رقم: 3866)

3۔ خوش آوازی سے قرآن پڑھنا

خوش آوازی اور سنوار کر پڑھنا آداب تلاوت میں سے ہے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

زَیِّنُوْا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِکُمْ.

’’قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو۔‘‘

  1. ابن ماجة، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیها، باب في حسن الصوت بالقرآن، 2: 148، رقم: 1342
  2.  أبوداود، السنن، کتاب الصلاة، باب استحباب الترتیل في القرائة، 1: 546، رقم: 1468

’’اﷲ تعالیٰ اس بندے کی آواز کو جو خوبصورت آواز میں قرآن پڑھتا ہے، اس مالک سے بھی زیادہ محبت سے سنتا ہے جو اپنی خوبصورت آواز والی کنیز (کے گانے) کی آواز سنتا ہو۔‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  سے فرمایا:

’’اگر تم مجھے کل رات دیکھتے جب میں تمہارا قرآن پڑھنا سن رہا تھا (تو بہت خوش ہوتے) بیشک تمہیں آلِ دائود کی خوش الحانی سے حصہ ملا ہے‘‘۔

(دارمی، السنن، 2: 339، رقم: 3495)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ.

’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن حکیم کو نغمگی والی خوبصورت (مترنم) آواز کے ساتھ نہیں پڑھتا۔‘‘

(بخاری، الصحیح، کتاب التّوحید، باب قول ﷲ تعالیٰ وأسرّوا قولکم أو اجهروا به، 6: 2737، رقم: 7089)

عبد الرزاق رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:

لِکُلِّ شَیْئٍ حِلْیَةٌ وَحِلْیَةُ الْقُرْاٰنِ الصَّوْتُ الْحَسَنُ.

’’ہر چیز کا ایک زیور ہوتا ہے اور قرآن کا زیور اچھی آواز ہے۔‘‘

(عبد الرزاق، المصنف، 2: 484، رقم: 4173)

اس روایت میں بھی خوش آوازی سے قرآن پڑھنے کی فضیلت اور ترغیب ثابت ہوتی ہے۔ بعض روایات میں مقاماتِ عذاب پر غم و حزن کے ساتھ قرآن پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

4۔ قرآن کی تعظیم و توقیر کرنا

تلاوت کے وقت قرآنِ حکیم کی عظمت و رفعت کا خیال اپنے اوپر حاوی کرلینا اور اس بات کا یقین رکھنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا عظیم فضل و کرم ہے کہ اس نے عرش معلّیٰ سے مخلوق کے دلوں میں اپنے کلام کا جلوہ نازل فرما دیا ہے اور اس پر نظر و فکر کرنا کہ اﷲ رب العزت کا کس قدر احسان ہے کہ اس نے اپنے اس کلام کے معانی کو اپنی مخلوق کے دماغوں میں جگہ دی۔

سلفِ صالحین میں سے بعض کی عادت تھی کہ جب تلاوت کرتے اور دل حاضر نہ ہوتا تو اس حصہ کو دوبارہ پڑھتے اور جب تسبیح کا ذکر پڑھتے یا تکبیر کا ذکر پڑھتے تو سبحان اﷲ اور اﷲ اکبر کہتے اور اگر دعا اور استغفار کا ذکر پڑھتے تو دعا کرتے اور استغفار کرتے اور اگر کسی خوف اور امید والی چیز کا ذکر پڑھتے تو خوف سے پناہ مانگتے اور نعمت کا سوال کرتے یہاں تک کہ وہ تلاوت کا حق ادا کرتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلاَوَتِهٖ.

’’(ایسے لوگ بھی ہیں) جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسے پڑھنے کا حق ہے۔‘‘

(البقرة، 2: 121)

5۔ دورانِ تلاوت گریہ و زاری اور رِقتِ قلب

تلاوت قرآن کا ایک اہم ادب یہ ہے کہ پڑھنے والے کے دل پر رقت طاری ہو اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوں۔دوران تلاوت اہل گریہ پر مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں۔کچھ لوگ خوف سے روتے ہیں اورکچھ خوشی و مسرت کے جذبات سے مغلوب ہو کر آنسو بہاتے ہیں۔

حضرت عبید ابن عمیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے عرض کیا کہ آپ رضی اللہ عنہا نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حیات مبارکہ میں جو حیران کن بات دیکھی اس کے بارے میں مجھے بتائیے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ رضی اﷲ عنہا کچھ دیر خاموش رہیں۔ پھر فرمایا ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اٹھے اور وضو کیا پھر نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مسلسل روتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی گود مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی پھر فرماتی ہیں کہ اشک فشانی یہاں تک بڑھی کہ زمین بھی تر ہو گئی۔ پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو نماز فجر کی اطلاع دینے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو روتے دیکھا تو عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ رو رہے ہیں حالانکہ (آپ کے توسل سے تو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا کیا میں (اپنے رب کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں؟

6۔ خود کو مخاطبِ قرآن سمجھ کر تلاوت کرنا

یہ اس صورت میں ہی ممکن ہے کہ قرآن کی تلاوت کرنے والا خود کو قرآن کا مخاطب سمجھے یعنی اگر امر و نہی کا ارشاد سنے تو سمجھے کہ حکم مجھے ہوا ہے اور مجھے ہی منع کیا گیا ہے اسی طرح اگر وعدہ، وعید کا بیان سنے تو اپنے آپ کو اس کا مصداق جانے اور اگر پہلے لوگوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کے قصے سنے تو جان لے کہ ان قصوں کا مقصود عبرت حاصل کرنا ہے اور ان قرآنی قصوں میں جو کچھ اپنی حاجت کی بات ہو اس کو اختیار کرلینا چاہئے کیونکہ قرآن حکیم کے جتنے حصے ہیں ان کے مضامین میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی امت کے لئے فائدہ رکھا گیا ہے۔ قرآن سے متاثر ہونے سے یہ مراد ہے کہ جس طرح آیات مختلف مضامین لے کر وارد ہوئی ہیں اسی طرح دل میں مختلف کیفیات پیدا ہوں اور جس مضمون کو حزن و خوف اور امید سے مختص سمجھے اسی حالت اور کیفیت سے دل معمور ہوتا جائے۔

جو قرآنِ حکیم کے مضامین کو سمجھ کر نہیں پڑھتا وہ یہ جان لے کہ اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کا ذکر درج ذیل آیت میں کیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَج حَتّٰی اِذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِکَ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ اٰنِفًاقف اُولٰٓـئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اﷲُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ وَاتَّبَعُوْا اَهْوَآئَهُمْo

’’اور ان میں سے بعض وہ لوگ بھی ہیں جو آپ کی طرف (دل اور دھیان لگائے بغیر) صرف کان لگائے سنتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ آپ کی بارگاہ سے نکل کر (باہر) جاتے ہیں تو ان لوگوں سے پوچھتے ہیں جنہیں علم (نافع) عطا کیا گیا ہے کہ ابھی انہوں نے (یعنی رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے) کیا فرمایا تھا؟ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اﷲ نے مہر لگا دی ہے اور وہ اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں۔‘‘

(محمد، 47: 16)

7۔ قرآنِ حکیم میں غور و فکر اور تدبرکرنا

تلاوتِ قرآن کا بنیادی مقصد اس کے مضامین میں غور و فکر اور تدبر کر کے اس کے صحیح معانی و مطالب اور مفاہیم تک رسائی ہے۔ اﷲ گ نے کثرت کے ساتھ قرآن میں غور و فکر اور تدبر کا حکم دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

افَـلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ.

’’تو کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے۔‘‘

(النساء، 4: 82)

تدبر کے معنی کسی چیزکے انجام اور نتیجے پر غور کرنے کے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ قرآن حکیم کے رموزو اسرار فکر و تدبر کے بغیر نہیں کھلتے۔ فہم قرآن کی نعمت اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب قرآن حکیم کو سمجھنے اور اس کے منشاء کو جاننے کی کوشش کی جائے۔ قرآن حکیم کو اﷲ تعالیٰ نے ہدایت کا صحیفہ بنا کر اتارا ہے اور ہر انسان کے اندر طلبِ ہدایت کا داعیہ ودیعت کر دیا گیا ہے۔ اگر اسی داعیہ کے تحت اللہ کا بندہ قرآن حکیم کی طرف متوجہ ہو تو اسے فہمِ قرآن کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَیَهْدِیْ اِلَیْهِ مَنْ اَنَابَ.

’’اسے اپنی جانب رہنمائی فرما دیتا ہے۔‘‘

(الرعد، 13: 27)

عصرِ حاضر میں امتِ مسلمہ کے زوال کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ غور و فکر اور تدبر و تفکر سے قرآن کی تلاوت کا معمول نہ رہا اور نہ ہی اس کی تعلیمات کے سانچے میں اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کا عمل برقرار ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر پڑھا جائے۔ وہ مقامات جہاں رموز و اسرار ہوں وہاں رک رک کر اور سمجھ کر پڑھا جائے حتی کہ ہر آیت کا معنی و مفہوم مکمل طور پر سمجھ آجائے۔