فرمانِ الٰہی و فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

فرمان الٰہی

اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ ﷲِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَo الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَo لَهُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِط لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ ﷲِط ذٰلِکَ هُوَ الفَوْزُ الْعَظِیْمُo وَلَا یَحْزُنْکَ قَوْلُهُمْم اِنَّ الْعِزَّةَ ِﷲِ جَمِیْعًاط هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo

(یونس، 10: 62 تا 65)

’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔ (وہ) ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (ہمیشہ) تقویٰ شعار رہے۔ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں (بھی مغفرت و شفاعت کی/یا دنیا میں بھی نیک خوابوں کی صورت میں پاکیزہ روحانی مشاہدات ہیں اور آخرت میں بھی حُسنِ مطلق کے جلوے اور دیدار)، اللہ کے فرمان بدلا نہیں کرتے، یہی وہ عظیم کامیابی ہے۔ (اے حبیبِ مکرّم!) ان کی (عناد و عداوت پر مبنی) گفتگو آپ کو غمگین نہ کرے۔ بے شک ساری عزت و غلبہ اللہ ہی کے لیے ہے (جو جسے چاہتا ہے دیتا ہے)، وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘

(ترجمه عرفان القرآن)

فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

عَنْ سَفِینَةَ رضی الله عنه قَالَ: رَکِبْتُ الْبَحْرَ فِي سَفِیْنَةٍ فَانْکَسَرَتْ فَرَکِبْتُ لَوْحًا مِنْهَا فَطَرَحَنِي فِي أَجَمَةٍ فِیْهَا أَسَدٌ فَلَمْ یَرْعَنِي إِلاَّ بِهِ فَقُلْتُ: یَا أَبَا الْحَارِثِ أَنَا مَوْلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم  فَطَأْطَأَ رَأَسَهُ وَغَمَزَ بِمَنْکَبِهِ شِقِّي فَمَا زَالَ یَغْمِزُنِي وَیَهْدِیْنِي إِلَی الطَّرِیْقِ حَتَّی وَضَعَنِي عَلَی الطَّرِیْقِ فَلَمَّا وَضَعَنِي هَمْهَمَ فَظَنَنْتُ أَنَّهُ یَوَدِّعُنِي. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِی الْکَبِیْرِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَغَوِيُّ فِي شَرْحِ السُّنَّةِ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِسْنَادِ.

’’حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوا۔ وہ کشتی ٹوٹ گئی تو میں اس کے ایک تختے پر سوار ہوگیا اس نے مجھے ایک ایسی جگہ پھینک دیا جو شیر کی کچھار تھی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ (اچانک) وہ شیر سامنے تھا۔ میں نے کہا: اے ابو الحارث (شیر)! میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا غلام ہوں تو اس نے فوراً اپنا سر خم کردیا اور اپنے کندھے سے مجھے اشارہ کیا اور وہ اس وقت تک مجھے اشارہ اور رہنمائی کرتا رہا جب تک کہ اس نے مجھے صحیح راہ پرنہ ڈال دیا پھر جب اس نے مجھے صحیح راہ پر ڈال دیا تو وہ دھیمی آواز میں غر غرایا۔ سو میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے الوداع کہہ رہا ہے۔‘‘

(المنهاج السوّی، ص: 707)