اداریہ: سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 5 سال، اسیرانِ انقلاب اور حصولِ انصاف کی جدوجہد

ایڈیٹر ماہنامہ دختران اسلام

ہم شہدائے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی 5 ویں برسی اس دعا کے ساتھ منا رہی ہیں کہ اللہ رب العزت ہماری شہید بہنوں تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ کی قبروں کو جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنائے اور ہمارے بھائی جو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں شہید کر دئیے گئے ان کے درجات بلند اور ان کے ورثاء کو ہر قسم کی دنیاوی تکالیف سے محفوظ و مامون رکھے۔ 17 جون 2014ء کے دن سابق ’’شریف‘‘ حکمرانوں نے اپنی غنڈہ پولیس کے ذریعے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر دھاوا بولا اور مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے نہتے کارکنان جن میں خواتین بھی شامل تھیں کو گولیوں سے چھلنی کرتے ہوئے چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا، پولیس ماڈل ٹاؤن ایم بلاک میں جن حفاظتی بیریئرز کو تجاوزات قرار دے کر ہٹانے آئی تھی وہ بیریئرز لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر اسی ماڈل ٹاؤن پولیس نے اپنے ہاتھوں سے لگائے تھے اور ان کی حفاظت بھی آخری دن تک پولیس ہی کرتی رہی، پانچ سال کے بعد بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے ورثاء کو انصاف نہیں ملا، تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجد حصول انصاف کے لیے عدالتوں اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے دفتر کے چکرکاٹ رہی ہے مگر کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ 5 سال سے شہدائے ماڈل ٹاؤ ن کے ورثاء کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش کروائی جائے، سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے انصاف اور انسانیت دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بسمہ امجد کی درخواست پر نوٹس لیا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش کی قانونی راہ ہموار کی مگر ان کے رخصت ہوتے ہی غیر جانبدار جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک دیا گیا، جس وقت غیر جانبدار جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روکا گیا اس وقت وہ اپنا بیشتر کام مکمل کر چکی تھی اور محض رپورٹ کی کمپوزنگ کا مرحلہ باقی تھا، شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء غیر جانبدار جے آئی ٹی کو کام اور رپورٹ مکمل کرنے سے روکے جانے والے عدالتی حکم کو معطل کروانے کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں قانونی جنگ لڑ رہے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ کامل انصاف اور سانحہ کے ذمہ داروں، ماسٹر مائنڈز، سہولت کاروں کو انجام تک پہنچانے تک لڑی جاتی رہے گی۔ 17 جون 2014ء کے دن درندہ صفت پولیس اہلکاروں نے بچوں، بوڑھوں، خواتین کو انتہائی سفاکیت سے تشدد کا نشانہ بنایا، بعض پولیس افسران نے بےحمیتی کی تمام حدود پار کرتے ہوئے ہماری بہنوں تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ کو میڈیا کے کیمروں کے سامنے گولیاں مار کر شہید کیا گیا، گولیاں چلانے والوں اور انہیں حکم دینے والے اعلیٰ پولیس افسران نے خواتین کو شہید کر کے جو ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا ا س کی سیاہی پورے پنجاب پولیس ڈیپارٹمنٹ کے چہرے پر آج بھی ملی ہوئی ہے۔ دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں خواتین کا احترام کیا جاتا ہے، ان کو تحفظ دینے کیلئے خصوصی قوانین بنائے جاتے ہیں، ان کی غلطیوں سے بھی درگزر کیا جاتا ہے مگر اسلامی ملک پاکستان کی پنجاب پولیس نے 17 جون 2014ء کے دن ایک بکاؤ، کرایہ کی فورس کا کردار ادا کیا اور جرائم پیشہ مقتدر عناصر کے ذاتی باڈی گاڈز کی طرح ظلم کیا۔ پنجاب پولیس کا سابق آئی جی مشتاق سکھیرا 14 بے گناہوں کے قتل عام میں براہ راست ملوث ہے، اسے انسداد دہشت گردی عدالت کی طرف سے بطور ملزم طلب کیا گیا اور بعدازاں لاہو رہائیکورٹ نے بھی اس کی درخواست مسترد کر کے اسے ٹرائل کا حصہ بننے کا حکم دیا، جس فورس کا سربراہ بے گناہوں کے قتل عام کا نامزد ملزم ہو وہ اپنے عرصہ ملازمت میں کیا کیا گل کھلاتا رہا ہو گا، اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ سابق آئی جی کا قتل عام کے سنگین جرم میں ٹرائل ہونا پوری فورس کے لیے مر ڈوبنے کا مقام ہے، پولیس افسران عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری نبھانے کے عوض بھاری مراعات لیتے ہیں، یہ مراعات اور بھاری تنخواہیں انہیں عوام کے خون پسینے کے ٹیکسوں کی کمائی سے ادا کی جاتی ہیں، پولیس فورس کو جو بندوقیں اور گولیاں خرید کر دی جاتی ہیں وہ بھی عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے خرید کر دی جاتی ہیں کہ جب کبھی ریاست پاکستان کے شہریوں کو کسی ڈکیت، امن اور انسانیت کے دشمن سے خطرہ لاحق ہو تو یہ بندوقیں اور گولیاں ان کی حفاظت کریں گی مگر افسوس عوام کے خون پسینے کی کمائی سے خریدے جانے والی یہ بندوقیں اور گولیاں عوام کے تحفظ کی بجائے ایک ایسے خاندان کے تحفظ کے لیے مختص کی گئیں جس کی لوٹ مار کے قصے شرق و غرب میںپھیلے ہوئے ہیں اور اس خاندان کا بچہ بچہ میگا کرپشن کے کیسز میں ٹرائل ہورہا ہے، پنجاب پولیس صوبہ کے 10کروڑ عوام کی حفاظت کی بجائے جس خاندان کی حفاظت کرتی رہی وہ سارے کا سارا خاندان قاتل اور چور نکلا، یہ قاتل کچھ جیل میں ہیں، کچھ ضمانتوں پر ہیں، کچھ مفرور اور اشتہاری ہیں اور کچھ مفرور ہونے کے لیے پرتول رہے ہیں، شریف خاندان کی یہ رسوائی جگ ہنسائی، اللہ کا امر اور انصاف ہے مگر ابھی کامل انصاف ہونا باقی ہے، جب تک شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو انصاف نہیں مل جاتا اور قتل عام کا حکم دینے والے اور اس پر عمل کرنے والے اپنے انجام کو نہیں پہنچ جاتے تب تک انسانیت کے قتل عام کی سیاہی پنجاب پولیس اوراس نظام کے چہرے پر چسپاں رہے گی۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن میں خون بہانے والوں اور انسانیت پر حملہ کرنے والوں میں سے کسی کو 5سال گزر جانے کے بعد بھی سزا نہیں ملی مگر جن افراد نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ان پر پولیس نے دہشتگردی کے جھوٹے مقدمات درج کیے اور ان جھوٹے مقدمات پر 107کارکنان کو 5سال اور بعض کو 7سال کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا، ظلم کے خلاف احتجاج کرنے والے یہ 107 کارکنان اس وقت صوبہ کی مختلف جیلوں میں سزاکاٹ رہے ہیں، اسیران کی فیملیز سے اظہار یکجہتی کے لیے منہاج القرآن ویمن لیگ کی تین ٹیموں نے خوشاب، میانوالی اور بھکر میں متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کی، یہ ٹیمیں جب اسیران کے ورثاء کو ملیں تو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یادیں تازہ ہو گئیں، لواحقین کا عزم، استقامت اور جذبہ دیکھ کر ویمن لیگ کی رہنما اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں، الحمداللہ جس طرح قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک جرأت مند اور باحوصلہ شخصیت ہیں اسی طرح ان کے کارکنان بھی پرعزم، پرجوش، حوصلہ اورصبرو ضبط والے ہیں۔ بھکر کی کئی فیملیز ایسی بھی ہیں کہ جن کے گھر کا واحد کفیل قید کر دیا گیا مگر ان کے لبوں پر بھی کوئی حرف شکایت نہیں ہے، خوشاب، میانوالی، بھکر میں کچھ بزرگ ماؤں سے بھی ملاقات ہوئی، ایک بزرگ ماں نے بتایا کہ میرا جواں سال بیٹا جسے ناحق قید کر دیا گیا وہی مجھے کھانا کھلاتا تھا اور اپنے ہاتھوں سے دوائی پلاتا تھا، اب میں اکیلی ہوں میرے پاس کوئی نہیں لیکن میرا دل مطمئن ہے کہ میرا بیٹا کسی جرم پر جیل نہیں گیا بلکہ وہ مظلوموں کی آواز بنا اور انہیں انصاف دلوانے کی جدوجہد کرتے ہوئے پابند سلاسل ہوا، اللہ ہمارے ساتھ ہے ہم اکیلے نہیں ہیں، اسیران کی فیملیز کی زبانوں پر ایک ہی جملہ تھا کہ ہم حق پر ہیں، ہمیں کوئی ندامت نہیں ہے، اسیران کی فیملیز نے بتایا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تربیت یافتہ یہ اسیران جیلوں میں بھی اسلام، امن، محبت اور رواداری کی خوشبو اور روشنی پھیلارہے ہیں، وہ وہاں پر نمازیں پڑھاتے ہیں، عبادت میں مصروف رہتے ہیں، لوگوں کو دینی علوم اور کردار سے آشنا کررہے ہیں، وہ اپنے قائد کے احکامات جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی بجالارہے ہیں، اللہ نے اس عارضی تکلیف کے ساتھ بھی ان کے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی ہیں۔ بھکرمیں اسیران کی فیملیز سے محترمہ سدرہ کرامت (ناظمہ منہاج القرآن ویمن لیگ)، آمنہ بتول، انیتہ الیاس، ارشاد اقبال نے ملاقاتیں کیں۔ جبکہ میانوالی میں عائشہ مبشر، حاجرہ بی بی اور صائمہ نور نے اور خوشاب میں فرح ناز، سدرہ کرامت اور انیلا الیاس نے ملاقاتیں کیں۔ انسداد دہشتگردی عدالت سرگودھا نے جب 107 کارکنان کو سزا ئیں سنائیں تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بیرونی دورہ پر تھے، انہوں نے اس خبر پر گہرے دکھ کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ تعالیٰ بے گناہ اور مظلوم کارکنان کو انصاف ملے گا اور انہیں انصاف اور رہائی دلوانے کی جدوجہد اسی طرح کریں گے جس طرح شہدائے ماڈل ٹاؤن کے انصاف کیلئے کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک خصوصی پیغام میں کہا کہ میرے کارکن میرے بیٹے اور بیٹیاں ہیں میں ان کے دکھ درد سے خود کو لاتعلق نہیں رکھ سکتا، انہوں نے مرکزی رہنماؤں کو بھی خصوصی ہدایات جاری کیں کہ اسیران کی فیملیز کا بھرپور خیال رکھا جائے، انہوں نے کہا کہ اسیران ظلم کے خلاف سراپااحتجاج تھے اور مظلوموں کا ساتھ دے رہے تھے۔ انشاء اللہ ان کا بال بھی بیکا نہیں ہو گا اور بہت جلد وہ رہا ہوں گے۔ ان کی رہائی کی جنگ ہر بڑی عدالت میں لڑیں گے۔