پرامن سوسائٹی کی تشکیل میں خواتین کا کردار

نوراللہ صدیقی

رواں صدی کی پہلی دو دہائیاں دہشت گردی کے حوالے سے تباہ کن اثرات کی حامل رہیں، پوری دنیا نے کسی نہ کسی شکل میں دہشت گردی کے زخم سہے، یہاں تک کہ نیوزی لینڈ جیسا پرامن ملک بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مضر اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا، اگرچہ دہشت گردی کی متعدد وجوہات ہیں جن میں جہالت، غربت، تنگ نظری، ناقص تعلیمی نظام، بیڈگورننس، تربیت سے محروم تعلیمی سسٹم اور گمراہ کن مذہبی خیالات رجحانات شامل ہیں، تاہم اب دنیا اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کچھ بنیادی تربیتی اقدامات بروئے کار لانے ہونگے، بالخصوص اس ضرورت کو اسلامی ممالک شدت سے محسوس کررہے ہیں، اگر ہم انتہا پسندی کے سدباب کیلئے بنیادی اقدامات پر غور کریں تو ہمیں اس ضمن میں پہلا کردار ماں کا نظر آتا ہے کیونکہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے، پڑھی لکھی اور تربیت یافتہ ماں ایک خوشحال و پرامن نسل اور معاشرہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے، یہ بات نفسیاتی سائنس سے ثابت شدہ ہے کہ 2 سے 6 سال کا عرصہ بچے کے شعور اور رجحانات کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے اور یہ وہ عرصہ ہے جس کا زیادہ حصہ بچہ ماں کے پاس گزارتا ہے یا پھر سکول میں، ماں اور خاتون ٹیچر بچے کی ذہن سازی میں اہم کردار کی حامل ہوتی ہیں، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو ابتدائی تعلیم خواتین اساتذہ سے دلوائی جاتی ہے چونکہ خاتون قدرتی طور پر بچے کی پرورش کے حوالے سے ایک موافق مزاج کی حامل ہوتی ہے، پرائمری سطح پر اگر ایک پالیسی بنا لی جائے کہ بچے کو صرف خاتون ٹیچر تعلیم دے گی تو اس سے بچے کی اچھی تعلیم و تربیت کے تقاضوں کو بااحسن پورا کیا جا سکتا ہے۔

ماں کا کردار:

بچیوں کو تعلیم دینا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے، ایک بچی جسے مستقبل میں ایک ماں کی صورت میں گھرکی سلطنت سنبھالنا ہے اس کا پڑھا لکھا اور باشعور ہونا ناگزیر ہے، اگر ہم پاکستان کو ایک پرامن ملک بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں قوم کی بیٹیوں کو تعلیم و تربیت سے ہم آہنگ کرنا ہو گا اور خواتین میں شرح خواندگی کو 100 فیصد تک بڑھانا ہوگا تاکہ وہ اپنے بچوں کو اچھے اور برے کی تمیز سکھا سکیں اور اسے امن کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں معلومات مہیا کر سکیں، جب بچے کو اپنی پہلی درسگارہ سے امن، محبت، اخلاق اور رواداری کا درس ملے گا تو وہ انہی بنیادوں پر آگے بڑھے گا، ہم سمجھتے ہیں کہ ابتدائی تعلیم کی فراہمی میں بھی استاد خاتون ہونی چاہیے چونکہ بچہ ماں کی صحبت سے استاد کی صحبت میں آتا ہے، اگر یہاں بھی اسے استاد کی شکل میں خاتون کی تربیت میسر آئے گی تو وہ اسے باسہولت قبول کرے گا۔

خاتون پارلیمنٹرین کا کردار

ماں کی تربیت کے بعد قیام امن کیلئے خواتین پارلیمنٹرین کا کردار اہم ہے، وہ خواتین جو سیاست سے منسلک ہیں اور انہیں اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے رکن اسمبلی بننے کا اعزاز بھی میسر آتا ہے، انہیں چاہیے کہ وہ اسمبلیوں کے اندر ایسی قانون سازی پر فوکس کریں جو پرامن معاشرہ کی تشکیل کیلئے ضروری ہیں، اس ضمن میں نصاب تعلیم کو ہر قسم کی نفرت اور تعصب سے پاک بنانے کیلئے قانون سازی پر انہیں زور دینا چاہیے، دہرے نصاب تعلیم کے خاتمے کیلئے انہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اس کے علاوہ خواتین پارلیمنٹرین غربت، بیروزگاری اور ناانصافی کے خاتمے کیلئے بھی اپنا موثر پارلیمانی کردار ادا کر سکتی ہیں اور انہیں اس محاذ پر اپنی ذمہ داریاں انجام دینی چاہئیں، افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ خواتین پارلیمنٹرین قومی مفادات اور مقاصد کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے اپنی اپنی جماعتوں کے قائدین کے سیاسی مفادات کا جائز ناجائز طور پر تحفظ کرتی ہیں اور اس طرح ان کا جو ایک قومی کردار ہے وہ ابھر کر سامنے نہیں آپاتا۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کا کردار

الحمداللہ پاکستان میں خواتین نے ہر شعبے اور محاذ پر اپنی اہلیت اور صلاحیت کا لوہا منوایا ہے، ان شعبہ جات میں تعلیم کا شعبہ سرفہرست ہے جس میں بڑی تعداد میں خواتین لیکچررز، پروفیسرز، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اور پرنسپلز کی صورت میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں، ایسی خواتین کو چاہیے کہ وہ امن کی اہمیت پر تحقیق اور تربیت پر کام کریں، وہ جس ادارے سے منسلک ہیں وہاں پر امن کی افادیت پر لیکچرز کااہتمام کر سکتی ہیں اور اپنی سفارشات تیار کر کے محکمہ تعلیم کو بھجوا سکتی ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کو سوسائٹی کو پرامن بنانے کیلئے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہیے۔

فروغ امن کیلئے مذہب کا کردار

دنیا کا کوئی بھی مذہب بے گناہوں کی جان لینے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی فساد فی الارض کی تعلیمات دیتا ہے، اس حوالے سے مذہب اسلام سب سے نمایاں ہے جو ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اور فساد فی الارض کو ناقابل معافی جرم قرار دیتا ہے، مذہبی حلقوں سے وابستہ علمائے کرام، آئمہ مساجد اور مبلغین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ امن کی اہمیت کو اجاگر کریں اور اس ضمن میں قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات عام آدمی تک پہنچائیں، خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ مذہبی تعلیم حاصل کریں اور دینی سکالر کے طور پر امت کی کردار سازی کیلئے اپنا کردار ادا کریں، ہمیں خوشی ہے کہ منہاج القرآن واحد بین الاقوامی دینی اصلاحی تحریک ہے جس نے فروغ امن کیلئے انسانیت کی بے مثال خدمت انجام دی اور خواتین سکالرز کی ایک ایسی کھیپ تیار کی جو گھر گھر جا کر علم اور امن کی اہمیت کو اجاگر کررہی ہے، منہاج القرآن کی انہی خدمات پر حال ہی میں او آئی سی کی طرف سے خراج تحسین پر مبنی قرارداد پیش کی گئی۔