احوال و مقامات صوفیاء

ثمن زہرہ

مقامات تصوف میں مقام التوبۃ کے بعد اگلا مقام ’’الزہد‘‘ ہے یعنی جو شخص راہ سلوک و تصوف کی سیڑھی پر توبہ کے ذریعے قدم رکھتا ہے تو اس کے لیے اگلا مقام الزہد کا آتا ہے۔

حضرت ابو خلاد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں اور ان کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اذا رایتیم الرجل قد اوتی زهدا فی الدنیا وقلة منطق فاقتربوا منه فانه یلقن الحکمة.

’’جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ اسے دنیا سے اعراض کرنے اور اس سلسلہ میں گفتگو کی (یعنی دوسروں کو نصیحت کرنے کی) توفیق دی گئی ہے تو تم اس کا قرب اختیار کرو کیونکہ اسے حکمت عطا کی گئی۔‘‘

(سنن ابن ماجه، کتاب الزهد، باب الزهد فی الدنیا، رقم: 4101)

زُہدکی تعریف

حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ دنیا میں زہد امید کم کرنا ہے۔ غیر لطیف چیز کھانا اور جُبہ نہ پہننا زہد نہیں ہے۔

حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے دوستوں سے دنیا کو سلب کرلیا اور اصفیاء سے اس کو محفوظ رکھا اور اپنے اہلِ محبت کے دلوں سے اس کو نکال دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ انہیں دنیا دینے پر راضی نہیں ہے۔

ارشاد خداوندی ہے:

لِّکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰـکُمْ.

’’تاکہ تم اس چیز پر غم نہ کرو جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی اور اس چیز پر نہ اِتراؤ جو اس نے تمہیں عطا کی۔‘‘

(الحدید، 57: 23)

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دل کا اس چیز سے خالی ہونا زہد ہے جس سے ہاتھ خالی ہے۔

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: زہد یہ ہے کہ فقر کو پسند کرتے ہوئے اللہ کی ذات پر اعتماد کیا جائے۔

حضرت ابو سلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس چیز کو چھوڑنا زہد ہے جو اللہ سے غافل کردے۔

حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص زہد کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک اس میں 3 خصلتیں نہ ہوں۔

  1. عمل میں اللہ کے سواء کسی سے کوئی تعلق نہ ہو۔
  2. اس کی گفتگو میں کوئی لالچ نہ ہو۔
  3. اور حکومت کے بغیر اپنے آپ کو باعزت بنائے۔

حضرت ابن خفیف رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’زہد کی علامت یہ ہے کہ دنیا کو اپنی ملکیت سے نکالنے کے بعد راحت محسوس ہو‘‘۔

حضرت رویم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے زہد کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: ’’زہد، دنیا کو حقیر جانے اور دل سے اس کے نشانات کو مٹانے کا نام ہے‘‘۔

حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’دنیا میں زہد یہ ہے کہ تم دنیا والوں اور جو کچھ دنیا میں ہے، اُس سے بغض رکھو (یعنی اللہ سے محبت کرو)

کسی صوفی سے پوچھا گیا کہ ’’دنیا میں زہد کیا ہے؟‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’جو دنیا میں ہے اس کو دنیا والو ںکے لیے چھوڑ دے‘‘۔

زُہد کامل کب ہوتا ہے؟

  • ایک شخص نے حضرت یحییٰ بن معاذ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ میں تو کل کی دکان میں کب داخل ہوسکتا ہوں اور کب زاہدوں کی چادر اوڑھ سکتا ہوں؟ انہوں نے فرمایا جب پوشیدہ طور پر تمہاری ریاضت اس حد تک پہنچ جائے کہ اگر اللہ تعالیٰ تم سے 3 دن رزق منقطع رکھے تو تمہارے نفس میں کمزوری محسوس نہ ہو اور جو شخص اس درجہ تک نہ پہنچے اس کا زاہدوں کے بچھونے پر بیٹھنا جہالت ہے پھر مجھے خطرہ ہے کہ کہیں تم ان صوفیاء کے درمیان رسواء نہ ہوجائو۔
  • حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ زُہد ایک فرشتہ ہے جو صرف ان لوگوں کے دلوں میں سکونت اختیار کرتا ہے جن کے دل دنیا کی محبت سے خالی ہوں۔
  • ایک صوفی سے پوچھا گیا کہ آپ دنیا سے اتنی زیادہ بے رغبتی کیوں اختیار کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا اس لیے کہ وہ مجھ سے روگردانی کرتی ہے۔
  • ایک شخص نے حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ مجھے زہد کا مقام کب حاصل ہوسکتا ہے؟

انہوں نے فرمایا کہ جب تم نفس (کی لذتوں) سے منہ موڑ لو۔

زہد کی اقسام:

زہد کی 3 صورتیں ہیں:

  1. حرام کو چھوڑنا یہ عوام کا زہد ہے۔
  2. حلال میں سے زائد چیزوں کو چھوڑنا یہ خواص کا زہد ہے۔
  3. اس چیز کو چھوڑنا جو اللہ تعالیٰ سے غافل کردے یہ عارفین کا زہد ہے۔

حضرت استاذ ابوعلی دقاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کسی صوفی سے پوچھا گیا آپ نے دنیا میں زہد کو کیوں اختیار کیا۔ انہوں نے فرمایا: جب میں نے دنیا کی اکثر چیزوں سے اعراض کیا تو میں نے دنیا کی قلیل چیزوں میں رغبت کو بھی ناپسند کیا۔

حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دنیا ایک دلہن کی مانند ہے۔ اس کا طالب اس کا بنائو سنگھار کرنے والا اور اس سے اعراض کرنے والا اس کا منہ کالا کرنے والا ہے یہ لوگ اس کے بال نوچنے اور اس کے کپڑوں کو جلاتے ہیں اور عارف اللہ کی ذات میں مشغول ہوتا ہے۔ وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتا۔

حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شر کو ایک مکان میں رکھ کر دنیا کی محبت کو اس کی چابی بنادیا اور تمام خیر کو ایک گھرمیں رکھ کر زہد کو اس کی چابی بنادیا۔

غرض انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی قرار دیا اب بندگی کے تقاضے تب پورے ہوسکتے ہیں جب ہم اس کی ہدایات کے مطابق زندگی بسر کریں۔ اقوالِ صوفیاء سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ان صوفیاء نے اپنی زندگی کو اللہ کی چاہت کے مطابق ڈھال دیا پھر جواباً اللہ نے کائنات کی ہر چیز ان کے تابع کردی۔