’انسان اور کائنات کی تخلیق و ارتقاء کا جائزہ‘

ڈاکٹر فرخ سہیل، اسسٹنٹ پروفیسر منہاج یونیورسٹی

ہر صاحب شعور انسان فطرتاً اپنے وجود کی تخلیق اور کائنات کی تخلیق شدہ اشیاء پر غورو فکر کرتا ہے اور کبھی کبھی یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ انسانی وجود نے تخلیق و تکمیل کے مراحل کس طرح سر کیے اور انسان کا اس دنیا میں بھیجے جانے کا کیا مقصد ہے۔ اس کے علاوہ یہ سوال بھی انسانی ذہن میں ابھرتا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق کیسے ہوئی اور انسان کا اس کائنات کے ساتھ کیا تعلق ہے۔

مفکر اسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی کتاب ’’انسان اور کائنات کی تخلیق و ارتقاء کا جائزہ‘‘ میں انتہائی دلچسپ طریقے سے ان تمام سوالوں کو علمی مباحث میں سمیٹتے ہوئے دور جدید کی سائنسی معلومات کو قرآنی حقائق کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ جیسا کہ نظام ربوبیت اور انسانی زندگی کا کیمیائی ارتقاء اس کے علاوہ انسانی زندگی کے حیاتیاتی ارتقاء پر بھی اسلامی معلومات فراہم کی ہیں۔ انسانی زندگی اور اقسام ہدایت کے مختلف طریقے بیان کیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف ذرائع علم کا ذکر بھی کیا ہے۔

جیسا کہ اقسام ہدایت کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ

’’مطالعہ قرآن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہدایت بنیادی طور پر درج ذیل پانچ اقسام پر مشتمل ہے:

  1. ہدایت فطری
  2. ہدایت حسی
  3. ہدایت عقلی
  4. ہدایت قلبی
  5. ہدایت ربانی (ہدایت بالوحی)
  • ہدایت عامہ (ہدایت الفایہ)
  • ہدایت خاصہ
  • ہدایت ایصال

اللہ تبارک وتعالیٰ کے نظام ربوبیت کا کمال یہ ہے کہ اس نے نہ صرف انسان کو مختلف قسم کی ہدایتوں سے نوازا بلکہ ہر ذی روح کو اس کے حسب حال ہدایت سے نوازا۔ ہدایت کی ان اقسام میں فطری و ہدایت حسی ہر جاندار میں اللہ کی طرف سے الہام کی گئی ہے جبکہ ہدایت کی باقی اقسام درجہ بدرجہ انسان کو منزل مقصود تک پہنچاتی ہے اور اس کی مثال ہدایت ایصال ہے اور یہ راہنمائی کی اعلیٰ ترین صورت ہے۔

اسی طرح ڈاکٹر صاحب انسانی زندگی اور مختلف ذرائع علم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان کو ذرائع علم عطا کیے جانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ بھرپور طریقے سے کائنات میں زندگی بسر کرسکے، دیگر مخلوقات اور ان کے اوصاف کو جانے اور ان کی حقیقتوں کا ادراک کرتے ہوئے ان ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مختلف زاویوں سے غورو فکر کرسکے۔

کتاب کے پہلے حصے میں مصنف نے انسانی قلب کے لطائف کا ذکر کرتے ہوئے پانچ مدارج میں تقسیم کیا ہے۔ ان لطائف کے ذریعے انسان کے دل کی آنکھ بینا ہوجاتی ہے۔ حقائق سے پردے اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ روح کے کان سننا شروع ہوجاتے ہیں اور یوں انسانی قلب بعض ایسی حقیقتوں کا ادراک کرنے لگتا ہے جو حواس و عقل کی زد میں نہیں آسکتے اور بالآخر وحی الہٰی کے نور سے انسانی فکر و شعور کی ساری منزلیں قیامت تک اسی روشنی میں طے ہوتی رہتی ہیں۔

حصہ دوم میں قرآن کے سائنسی مطالعے کی حکمت اور تصور تخلیق کے عناصر اربعہ پر بھی مفصل بحث موجود ہے۔ جن میں انسانی ذہن پر ہونے والے سوالوں کے ممکن تک تسلی بخش جوابات موجود ہیں۔

مصنف کے نزدیک دور جدید کے سائنسی علوم کے حوالے سے بعض مقامات قرآنی کے جائزے کی ہمارے نزدیک دو وجوہ ہیں۔

1۔ پہلی وجہ یہ کہ قرآن معجزہ بیان ایسا سرچشمہ علم ہے کہ جو ہمہ پہلو اور ہمہ جہت ہے اور یہ مقام و منزلت کسی دوسری الہامی کتاب کو حاصل نہیں۔ لہذا قرآنی معارف و اسرار کو سمجھنے کے لیے انسانی عقل و فہم بھی ہمہ پہلو اور ہمہ جہت ہونی چاہئے تاکہ اس کی قدرو منزلت اور علمی عظمت و وسعت کو مختلف زاویہ ہائے نظر سے سمجھا جاسکے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید نہ صرف عقائد و اعمال اور قلوب و احوال کی اصلاح کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عالم انفس اور عالم آفاق سے متعلق بھی کچھ بنیادی و اصولی نوعیت کی ہدایات عطا فرماتا ہے۔

تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ہر دور کے نامور مسلم مفکرین اور دانشور حضرات نے اپنے اپنے ادوار کے مروجہ فکری و علمی رجحانات و نظریات کے مطابق ان سوالوں کے جوابات دیئے ہیں جو کہ ہر ذی شعور انسانی ذہن میں ابھرتے ہیں اور اس سلسلے میں ان تمام حقائق اور سائنسی نظریات کو بھی قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کیا ہے کیونکہ ہر دور کی سائنسی تحقیقات اس دور کے مسلمانوں کے لیے ایک کھلا چیلنج رہی ہے اور عصر حاضر کی نوجوان نسل بھی اسی جدیدیت کا شکار ہے۔ ہماری نوجوان نسل پر جدید سائنسی علوم کے بھرپور اثرات مرتب ہونے کی وجہ سے اس چیلنج کا مقابلہ کرنا دور حاضر کے علماء مفکرین کا اہم دینی فریضہ ہے۔

عصر حاضر کے چیلنجز کے حوالے سے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی یہ کتاب بھرپور اور موثر ہے کیونکہ اس کتاب میں انہوں نے جدید سائنسی معلومات کی قرآن و سنت کی روشنی وضاحت فرمائی ہے۔ آج سے چودہ سو سال پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے ذریعے جن حقائق سے پردہ اٹھایا تھا۔ عصر حاضر میں جدید سائنسی معلومات ان قرآنی حقائق و علوم کی تصدیق کرتی نظر آرہی ہیں جیسا کہ اس کتاب کے حصہ اول میں تخلیق کائنات کے حوالے سے انسانی زندگی کے کیمیائی ارتقاء کی قرآنی وضاحت پیش کی گئی ہے اور اس کے علاوہ انسانی زندگی کی ارتقائی منازل میں خلیاتی تقسیم کے نظام کی سائینٹفک اصطلاحات کی قرآن مجید کی روشنی میں وضاحت کرتے ہیں اور اسی طرح کتاب کے حصہ دوم میں انتہائی موثر اور خوبصورت انداز سے قرآن کے سائنسی مطالعے کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

جیسا کہ سب اہل علم جانتے ہیں کہ سائنس از خود ہمہ وقت معرض ارتقاء و تغیر ہے اور سائنسی نظریات اور اس کے تحت کی گئی تحقیقات وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی ہیں جبکہ اس کے برعکس قرآن مجید میں بیان کردہ حقائق حتمی اور ناقابل تقسیر ہیں۔

قرآن مجید سرچشمہ علم و ہدایت ہونے کی وجہ سے ہر دور میں زندگی کے تمام پہلوئوں کو اپنے اندر سمٹتے ہوئے ہے اور انسان کو زندگی کے تمام امور و معاملات میں ہدایت و راہنمائی مہیا کرتا ہے۔ لہذا قرآنی معلومات کی وسعت اور جامعیت کے پیش نظر ’’تدبر فی القرآن‘‘ کی از حد ضرورت ہے تاکہ عصر حاضر میں قرآنی تعلیمات کی روشنی میں جدید سائنسی علوم سے بھرپور استفادہ کیا جاسکے۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب اس کتاب میں یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ قرآن مجید صرف عقائد و اعمال کی اصلاحی تعلیمات پر مبنی کتاب نہیں بلکہ ہر دور میں پیش آنے والے واقعات و حقائق کو بھی قطعی و حتمی طور پر پیش کرتا ہے کیونکہ ہر دور کے انسان کی علمی بصیرت صرف اس کے دور تک محدود ہے اور ہر آنے والے دور میں اس کے نظریات و تحقیقات کی تعبیر و تشریح میں اختلاف کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ لہذا قرآنی علوم جو کہ حتمی اور ہمہ وقت و ہمہ جہت ہیں اور ہر ذی شعور انسان کو دعوتِ تفکر و تدبر دیتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے عصر حاضر میں جدید سائنسی تحقیقات کو حتمی و ابدی قرآنی حقائق کی روشنی میں ہی پرکھا جائے۔