فرمانِ الٰہی و فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

فرمانِ الٰہی

لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمَ بَعْضًاط قَدْ یَعْلَمُ ﷲُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْکُمْ لِوَاذًاج فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ.

(النور، 24: 63)

’’(اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)، بے شک اللہ ایسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ میں (دربارِ رسالت سے) چپکے سے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آ پہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گا‘‘۔

(ترجمه عرفان القرآن)

فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: أَ تَدْرُوْنَ مَا الْغِیْبَةُ؟ قَالُوْا: اللهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: ذِکْرُکَ أَخَاکَ بِمَا یَکْرَهُ. قِیْلَ: أَفَرَأَیْتَ إِنْ کَانَ فِي أَخِي مَا أَقُوْلُ؟ قَالَ: إِنْ کَانَ فِیْهِ مَا تَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَهُ. وَإِنْ لَمْ یَکُنْ فِیْهِ، فَقَدْ بَهَتَّهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِیْسَی: هَذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: اﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:(غیبت یہ ہے کہ) تم اپنے (مسلمان) بھائی کا اس طرح ذکر کرو کہ جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔ عرض کیا گیا: (یا رسول اﷲ!) اگر وہ بات میرے اس بھائی میں پائی جاتی ہو جو میں کہہ رہا ہوں (تو کیا پھر بھی غیبت ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ بات اس میں ہے جو تم کہہ رہے ہو تو یہی تو غیبت ہے اور اگر (وہ بات) اس میں نہیں تب تو تم نے اس پر بہتان لگایا۔‘‘

(المنهاج السوّی، ص: 826)

حمد باری تعالیٰ

وہی رازداں فنا کا، وہی راز داں بقا کا
یہ جہاں بھی ہے خدا کا، وہ جہاں بھی ہے خدا کا

وہی خالقِ جہاں ہے، وہی رازقِ جہاں ہے
وہی بندگی کے لائق، وہی مستحقِ ثنا کا

وہی نورِ خاک داں ہے، وہی نورِ آسماں ہے
وہی نورِ کہکشاں ہے، وہی نور ہے حِرا کا

یہ ہے میرا جز و ایماں کِہ نگاہِ کبریا میں
جو ہے رتبۂ سکندر، وہی مرتبہ گدا کا

کوئی مصلحت تھی اس میں کہ دکھائے اس نے دونوں
کبھی جشنِ فتحِ مکہ، کبھی سوگ کربلا کا

یہ ہے اعتراف مولا کہ ہمیں خبر نہیں ہے
نہ خبر ہے ابتدا کی، نہ پتا ہے انتہا کا

نہ اگر ہو حکم اس کا، نہ اگر رضا ہو اس کی
نہ ہِلے شجر کا پتا، نہ چَلے نفس ہوا کا

جسے چاہے وہ بنائے، جسے چاہے وہ بگاڑے
وہی شکر اہل ایماں، وہی صبر بے نوا کا

کہیں سر کشی خدا سے، نہ ہمیں مٹادے افسر
یہی وقت ہے دوا کا، یہی وقت ہے دعا کا

(افسر ماہ پوری)

نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کیسے مرجھائے گا مزدوروں کی عظمت کا گلاب
محنتِ سرکار سے مہکا ہے محنت کا گلاب

آج بھی ہے وادیٔ طائف کا ہر ذرّہ گواہ
درمیاں کانٹوں کا تھا امن و اخوت کا گلاب

جس کی خوشبو سے معطر ہے مشام دو جہاں
باغِ طیبہ میں کھُلا ایسا مشیت کا گلاب

جتنے بڑھتے ہیں مصائب اتنا بڑھتا ہے نکھار
شرک کے کانٹوں ہی میں کھُلتا ہے وحدت کا گلاب

کس لیے پھر رشکِ جنت گلشنِ طیبہ نہ ہو
دونوں عالم میں نہیں اس شان و شوکت کا گلاب

اللہ اللہ یہ نوازش یہ کرم اللہ کا
خار زارِ جہل میں اور علم و حکمت کا گلاب

کیوں مدینے پر نہ ہو قربان دنیا کی بہار
گنبد خضرا کے سائے میں ہے رحمت کا گلاب

وہ سراپا رنگ و خوشبو، وہ سراپا ہے بہار
جس کے دل میں کھل گیا اُن کی محبت کا گلاب

کھِل اٹھیں گے ہم گناہگاروں کے چہرے حشر میں
مصطفی کے ہاتھ میں ہوگا شفاعت کا گلاب

مستقل اعجاز جو لکھے گا نعتِ مصطفی
حشر تک مہکے گا اس شاعر کی شہرت کا گلاب

(اعجاز رحمانی)