اداریہ: بجٹ کے اعداد و شمار، خواتین کے مسائل اور زمینی حقائق

ام حبیبہ اسماعیل، چیف ایڈیٹر دختران اسلام

تحریک انصاف کی اتحادی حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کر دیا ہے، جس پر اسمبلیوں میں بحث بھی ہوئی اور لڑائی بھی ، البتہ بجٹ کس وجہ سے شاندار ہے اور بجٹ کس وجہ سے عوام دشمن ہے اس حوالے سے اراکین اسمبلی کے ٹھوس دلائل سننے کو کان ترستے رہے، ہماری جمہوریت کا یہ المیہ ہے کہ سارے فیصلے اور تبصرے پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں، حکومتی اراکین بجٹ کو شاندار قرار دیتے ہیں اور اپوزیشن والے اسے عوام دشمن قرار دیتے ہیں ، یہ راز اب راز نہیں رہا کہ اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت بجٹ دستاویز کا مطالعہ کیے بغیر اسے بہترین قرار دیتی اور مستردکرتی ہے، یہ بات دعویٰ کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ بجٹ دستاویزات جو کم و بیش 5 ہزار اوراق پر مشتمل ہوتی ہیں انہیں پڑھنے اور دیکھنے کی بھی ایک خاص ٹریننگ ہوتی ہے لیکن بجٹ کی تعریف کرنے اور اسے مسترد کرنے کیلئے کسی ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہوتی، بجٹ سازی کے عمل میں پارلیمنٹرین کا کردار برائے نام ہوتا ہے، وہ بجٹ دستاویزات کو فقط دور سے دیکھتے ہیں، بیوروکریٹس اور دیگر ٹیکنوکریٹس بجٹ کے خدوخال سنوارتے ہیں اور پھر پڑھنے کیلئے کسی جمہوری وزیر خزانہ کے سپرد کر دیتے ہیں، بہرحال بجٹ کسی بھی حکومت کی ایک سالہ معاشی ترجیحات اور پالیسیوں کاآئینہ دار ہوتا ہے، کوئی بھی حکومت ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو وہ اسے بجٹ میں ظاہر کرتی ہے، دختران اسلام کو بجٹ کی ماہیت، خدوخال ، اثرات اور ثمرات سے صرف اس حد تک لگاؤ ہے کہ بجٹ میں خواتین کیلئے کیا ہے؟

یہ ایک ناقابل تردید تلخ حقیقت ہے کہ بجٹ کے بعد یا بجٹ سے پہلے مہنگائی کا جو طوفان آتا ہے اس کی سب سے زیادہ متاثرہ فریق خاتون ہوتی ہے، بجلی، گیس کے بلوں میں اضافہ ہو یا مہینہ بھر کے راشن کی خریداری یا مہمان داری اس سے خاتون خانہ براہ راست متاثر ہوتی ہے اور سربراہ خانہ کے تندوتیز سوالات کا نشانہ بنتی ہے، محدود اور فکس آمدن کی وجہ سے ماہ بہ ماہ بڑھنے والی مہنگائی پورے مہینے کے اہداف اور اعداد و شمار کو بری طرح متاثر کرتی ہے اور یہیں سے گھریلو جھگڑے اورناچاقی جنم لیتی ہے، اس لیے حکومت جب کبھی بھی بجٹ بنائے تو مہنگائی کے باب میں اس بات کا ضرور خیال رکھے کہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے سب سے زیادہ خواتین پستی ہیں جو ملکی آبادی کا 50 فیصد ہیں۔

ہر حکومت خواتین کی امپارومنٹ، ان کی فلاح و بہبودکے خوشنما سلوگن کے ساتھ بجٹ پیش کرتی ہے، موجودہ حکومت بھی ان دعوؤں میں کسی طور پیچھے نہیں ہے، پنجاب حکومت نے خواتین کی ترقی اور بہبود آبادی کیلئے لانگ ٹرم پالیسی کے تحت 8.3 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے جس میں 5.5 ارب روپے کرنٹ منصوبوں میں خرچ کیے جائینگے جبکہ 2.8 ارب روپے ترقیاتی مد میں خرچ ہونگے، حکومت 100 ملین کی رقم فیملی پلاننگ پر خرچ کرنا چاہتی ہے، دیہاتی خواتین کی معاشی بہتری کیلئے 300 ملین، خواتین کے ہاسٹل بنانے کیلئے 300 ملین، ڈے کیئرسنٹرز کیلئے 200 ملین، خواتین سے متعلق مختلف ایشوز کی تشہیر کیلئے 100 ملین، ورکنگ ویمن کے ہاسٹل کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے 70ملین اور سرکاری شعبہ جات میں کام کرنے والی خواتین کی کیپیسٹی بلڈنگ کیلئے 50 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔اسی طرح خواتین کی بہتری کیلئے سٹرٹیجک پلاننگ کیلئے 175 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں، فیصل آباد میں ایک ریجنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ قائم کیا جارہا ہے جس پر 150 ملین خرچ ہونگے۔بجٹ کے اعداد و شمار عام خواتین کے فہم سے ماورا ہوتے ہیں البتہ عام خاتون یہ سمجھتی ہے کہ اس کی بچی کو گھر کی دہلیز پر سستی، معیاری تعلیم میسر آئے اور اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسے ایک باعزت اور محفوظ روزگار میسر آئے۔ خواتین کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے بجٹ کے اعداد و شمار میں کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آئی، حکومت کو اس طرف بطور خاص توجہ دینی چاہیے، خواتین ٹرانسپورٹ کی عدم سہولت کی وجہ سے بری طرح متاثر ہیں، ان کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا ہونی چاہیے تاکہ وہ سہولت کے ساتھ کالج، یونیورسٹی یا دفتر تک پہنچ سکیں۔خواتین کا تحفظ اور لاء اینڈ آرڈر بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، گزشتہ عشرہ میں سٹریٹ کرائم بڑی تیزی سے بڑھا ہے اور سٹریٹ کرائم کا نشانہ بھی سب سے زیادہ خواتین بنتی ہیں، ان کے تحفظ کیلئے بھی خصوصی اقدامات ہونے چاہئیں۔