فکر شیخ الاسلام: حسنِ اخلاق اور حسنِ معاملات

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

اللہ رب العزت نے فرمایا:

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَکَرِهْتُمُوْهُط وَاتَّقُوا ﷲَط اِنَّ ﷲَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ.

’’اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بے شک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) اﷲ سے ڈرو بے شک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘۔

(الحجرات، 49: 12)

مذکورہ آیت کریمہ میں معاملات میں بدگمانی کرنے سے روکا گیا ہے۔ کیونکہ ان میں کئی ایسے گمان ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گناہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح دوسروں کی عیب جوئی، کمزوریوں کو کریدنے اور چغلی کرنے سے منع کیا ہے۔ ان تمام باتوں سے روکنے کی وجہ یہ ہے کہ لوگو تم تقویٰ شعار بن جائو۔

مذکورہ آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے تین باتیں ارشاد فرمائی ہیں اور معاشرہ میں اخلاقی بگاڑ کو درست کرنے کے لیے تین چیزوں سے بچنے کا حکم فرمایا ہے:

  1. بدگمانی (جو کہ گناہ سے)
  2. ٹوہ لگانا (جستجو کرتے رہنا)
  3. غیبت کرنا (چغلی کرنا)

یہ اگر تم ان تینوں باتوں سے توبہ کرلو اور اللہ سے معافی مانگ لو تو اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا ہے۔

اگر آج امت مسلمہ بالعموم اور پاکستانی قوم بالخصوص ان چیزوں کو ترک کرنے کی بجائے ان کو اپنائے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے حسن اخلاق اور حسن معاملات تباہ و برباد ہوکر رہ گئے ہیں۔ ہم اپنے معاشرہ کو اخلاقی لحاظ سے اگر درست کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ان برائیوں سے بچا جائے۔

آقا علیہ السلام کا فرمان اور ہمارا معاشرہ

نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدگمانی کے متعلق ارشاد فرمایا:

ان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم قال ایاکم والظن فان الظن اکذب. (متفق علیه)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم بدگمانی سے بچا کرو۔ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے‘‘۔

اس حدیث مبارکہ میں تو ارشاد فرمایا گیا ہے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے جبکہ قرآن پاک میں بدگمانی کو گناہ کہا گیا ہے۔

بدگمانی جھوٹ کیسے؟

یہاں ایک قابل غور نکتہ ہے کہ بدگمانی جھوٹ کیسے ہوتی ہے کیونکہ عام طور پر جھوٹ کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ خلاف واقعہ بات کو جھوٹ کہا جاتا ہے لیکن اگر وہ بات کہی جائے جو واقعہ کے عین مطابق ہو تو پھر وہ جھوٹ نہیں رہے گا مثلاً آپ نے کہا کہ فلاں شخص بڑا خائن، متکبر، بددیانت اور بڑا عیار و مکار ہے اگر تو یہ ساری باتیں عین حال کے مطابق ہیں وہ آدمی وہی کچھ ہے جو کہا جارہا ہے تو پھر یہ گمان اور بدگمانی نہ رہی کیونکہ جو بات کہی گئی ہے وہ واقعہ کے عین مطابق ہے اسی طرح گمان اس چیز کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے نہیں ہوئی اور سنی سنائی بات پر اپنے اندازے سے ایک رائے قائم کرلی جائے۔ گمان بدگمانی اس وقت بنے گا نہ آپ اس بات کہ گہرائی تک گئے۔

ہمارے معاشرے میں ہر شخص تقریباً یہ برائیاں اپنائے ہوئے ہے۔ عورتوں میں بالخصوص اور مردوں میں بالعموم یہ رجحان دیکھنے میں آتا ہے بلکہ آج کے زمانے میں پورا معاشرہ غیبت چغلی، بدگمانی اور تجسس میں مبتلا ہوچکا ہے۔

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم کسی شخص میں 100 علامات میں سے 99 کفر کی علامات دیکھو اور ایک مومن ہونے کی علامت دیکھو تو اس کو مسلمان سمجھو۔

یعنی کہ تم ہر ممکن کوشش کرو کہ دوسرے کے متعلق اچھا گمان رکھو۔ مگر آج ہماری معاشرتی حالت یہ ہوچکی ہے کہ جس میں 99 علامتیں ایمان کے دیکھیں اور ایک علامت کفر کی دیکھیں تو ہم اس کو فوراً ملعون، بدبخت اور کافر تصور کرلیتے ہیں۔ مطلب کی بات نکال لیتے ہیں تمام اچھائیاں چھوڑ کر اس پر برائی کا رنگ چڑھادیتے ہیں۔ یہ ہماری معاشرتی سوچ ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ ہم معاشرہ میں رہتے ہوئے دوسروں کی ہزار نیکیاں اور اچھائیاں چھوڑ کر کسی ایک غلطی اور برائی کی بنا پر اس کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے ملعون بنادیتے ہیں ہمیں اس معاشرتی سوچ کو بدلنا ہوگا۔

نیک گمان سے اجر ملتا ہے

اگر کوئی شخص آپ کے گمان میں نیک نہیں بھی ہے تو مگر آپ اس کے متعلق اچھی رائے رکھیں اور نیک گمان کرلیں تو اس پر کون سا خرچ آتا ہے یا بدگمانی کرنے سے کون سے کچھ پیسے مل جاتے ہیں دونوں صورتوں میں کچھ نہیں جاتا۔ بدگمانیاں کرنے سے نیکیاں جاتی ہیں اور برائیاں آتی ہیں جبکہ نیک گمان کرنے سے بغیر کچھ خرچ کرنے سے نیکیاں آجاتی ہیں۔

سورۃ ن کے آخری رکوع میں بھی اللہ پاک نے ایسا ہی ارشاد فرمایا ہے کہ آپ نے اللہ کے حکم پر نیک گمان کرکے اجر کمالیا۔ آپ کے نامہ اعمال میں مفت میں نیکیاں بڑھ گئیں نہ نماز پڑھی نہ روزہ رکھا نہ حج کیا نہ عمرہ نہ صدقہ و خیرات محض مسلمان بھائی کے لیے اچھا گمان کیا اتنے سے عمل پر اللہ پاک نے آپ کو نیکی عطا کردی۔

نیکی کرنے سے نور آتا ہے جب ہزارہا لوگوں کے ساتھ حسن ظن قائم کیا اس سے نور ملا۔ ہر نیک عمل کا نور ہوتا ہے۔ درود شریف پڑھنے کا بھی نور ہے، عبادت کا بھی نور ہے، نماز پڑھی اس کا بھی نور ہے، صدقہ و خیرات کیا اس کا بھی نور ہے، حج عمرہ کیا اس کا بھی نور ہے۔ حضور کی سنت پر عمل کیا نور ہے۔ مسجد میں داخل ہوتے دایاں پائوں رکھا نور ہے باہر نکلتے بایاں پائوں باہر رکھا نور ہے۔ جوتا پہنتے وقت پہلے دایاں جوتا پہنا نور ہے اتارتے وقت پہلے بایاں اتارا نور ہے یہ سب کام سنت سمجھ کر ادا کرنے سے نور حاصل ہوتا ہے۔ کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھوئے بسم اللہ پڑھی نور مل گیا بستر پر قبلہ رو ہوکر سوئے سنت سمجھ کر نور مل گیا۔

نیک گمان نور ہے

جو بھی کام آقا علیہ السلام کی سنت سمجھ کر ادا کیا نور بن گیا آقا کی سنت سمجھ کر اور اس خیال کو ذہن میں لاکر دائیں پائوں کو بائیں کے اوپر رکھ کر ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر لیٹے رہنے سے خیال کرلیا آقا کی سنت کی ادائیگی کا نور مل گیا مسلمان بھائی سے ملے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا نور مل گیا کتنا سستا سودا ہے۔ من کو اگر آدمی صاف کرلے تو یہ سودا بڑا سستا ہے۔

بدگمانی اندھیرا ہے

گناہ تاریکی ہے، ظلمت ہے، بدگمانی اندھیرا ہے، جھوٹ بولا گناہ ملا، تاریکی مل گئی، ظلم کیا اندھیرا مل گیا، بدگمانی کی اندھیرا مل گیا چغلی کی گناہ مل گیا، غیبت کی اندھیرا مل گیا جھگڑا کیا اندھیرا مل گیا زبان درازی کی اندھیرا مل گیا دھوکہ کیا اندھیرا مل گیا سارا دن اسی طرح گناہ کرتے رہے نہ چوری کی نہ ڈاکہ ڈالا نہ بدکاری کی مگر عملاً ایسا کوئی عمل نہیں کیا اندر ہی اندر زبان و دل سے کچھ عمل ہورہے ہیں گناہ کے عمل پر اندھیرے جمع ہورہے ہیں نیکیاں کرتے ہیں تو نور ملتے ہیں جب سارا دن چغلی غیبت شکوے شکایت پہ برائیاں کرتے ہیں تو اس سے گناہ ملتے ہیں جس سے اندھیرے آتے ہیں اندھیرے نور پر چھا جاتے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان اور بے برکت زندگی

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص نیک عمل کرتا ہے اس کے دل پر نور کا نکتہ لگ جاتا ہے جب گناہ کرتا ہے تو سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے۔ اندھیرے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ روشنی پر چھا جاتا ہے نور کو زائل کردیتا ہے اندھیرا قلب و باطن میں آجاتا ہے۔ جب من تاریک اندھیری کوٹھڑی بن جاتا ہے تو پھر نہ نمازوں کی برکت رہتی ہے نہ روزوں کی اور نہ ہی صدقہ و خیرات کی برکت رہتی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جی دعائیں بھی بڑی کرتے ہیں نمازیں بھی بڑی پڑھتے ہیں عمرے بھی کرتے ہیں۔ صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں آیات کریمہ کے ورد بھی کرواتے ہیں وظیفے بھی پڑھتے ہیں بس برکت نہیں ہورہی۔

من کے اندر سانپ جمع کر رکھے ہیں من کے اندر تو اژدھا ہے من کے اندر تو گندگی کے ڈھیر ہیں نور اس حالت میں نور کہاں پیدا ہوگا، برکت کہاں آئے گی۔ یہ ہماری زندگی کا المیہ ہے زبان سے تاثیر اٹھ گئی ہے۔ ساری زندگی بے برکتی ہوگئی۔ عورت گھر کے تمام کام کرتی ہے خدمت کرتی ہے، کام کاج کرتی ہے مگر فارغ ہونے کے بعد بدگمانی کرتی ہے۔ ساس ہے تو بہو سے بدگمانی کرتی ہے بہو ساس کے بارے میں کرتی ہے مسلمان بھائی مسلمان بھائی کے متعلق بدگمانی رکھتے ہیں۔ساری زندگی بدگمانی میں مبتلا ہوکر سیاہی اور تاریکی میں ڈوب جاتی ہے نور رخصت ہوجاتا ہے جب نور رخصت ہوجائے تو مایوسی آجاتی ہے جس سے ذہن اچھے فیصلے نہیں کرپاتے، منفی ہوجاتے ہیں مثبت نہیں ہوتے۔ لوگوں کے بارے میں رویہ بدل جاتا ہے۔ اس کی زندگی بدگمانی پر مبنی ہوجائے گی پھر طبیعت خراب ہوجائے گی۔ اس نے کیا کمایا سارا کچھ برباد کردیا۔

امام اعظم کا عمل

ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہا کہ فلاں جگہ علما کی مجلس لگی ہوئی تھی وہ لوگ آپ کی چغلی اور غیبت کررہے تھے اور آپ کو برا بھلا کہہ رہا تھا آپ نے جب یہ سنا تو خوش ہوگئے طشتری پھلوں سے بھر کر شاگرد کو دی کہ اس کے گھر جاکر دو اور بتانا کہ میری طرف سے ہے اور شکریہ ادا کرنا وہ اگر پوچھیں کہ کس بات کا شکریہ کہنا کہ آپ نے مجھ پر احسان فرمایا ہے اور میری طرف سے شکریہ ادا کرنا۔

وہ شخص پریشان ہوکر دوڑا آپ کے پاس آیا اور کہا کہ امام اعظم میں نے تو آپ پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ چغلی کی ہے غیبت کی ہے یہ احسان کس طرح ہوگیا آپ نے فرمایا کہ تو نے مجلس میں بیٹھ کر میری چغلی کی ہے مجھے برا بھلا کہا مجھے تو خبر ہی نہیں تھی میں گھر بیٹھا تھا میرے گھر بیٹھے بیٹھے میرے گناہ معاف ہوگئے تیری نیکیاں میرے حصے میں آگئیں تو نے بیٹھے بیٹھے اپنا دامن نیکیوں سے خالی کرلیا اور میرا دامن بھرگیا اس سے بڑا احسان کیا ہوگا۔

پرندوں میں کوے اور جانوروں میں کتے کا عمل

دوسروں میں کسی برائی یا خرابی کو نکالنا غیبت ہے یعنی کسی کی برائیوں کو کرید کرید کر نکالنا برائی ہے غیبت ہے۔ پرندوں میں کوّے کا یہ کام ہوتا ہے اور جانوروں میں کتے کا وہ گندی جگہوں پر بیٹھ کر گندگی کو نوچتا ہے گندگی کو کرید کرید کر نکالتا ہے کوّا پرندوں سے سب سے قبیح پرندہ ہے جو پھولوں پر آکر نہیں بیٹھتا بلکہ گندگی پر بیٹھتا ہے اے نادان شخص دوسرے شخص کی نیکیاں پھول ہیں۔ غیبت گندگی ہے تو کرید کرید کر اس کی نیکیاں نہیں نکالتا اس کے عیب نکالتا ہے چاہیے تھا کہ تو پھولوں پر بیٹھتا کرید کرید کر اپنے مسلمان بھائی کی نیکیاں بیان کرتا ہے اس کی ٹوہ میں رہتا کہ یہ کتنا نیک ہے رات کو عبادت کرتا ہے تہجد پڑھتا ہے۔ دوسروں کی خفیہ مدد کرتا ہے عاجزی کرتا ہے دوسروں سے زیادتی نہیں کرتا ہے۔

مگر آج کے زمانے میں مجال ہے کوئی یہ کام کرے وہ تو دوسروں کی برائیاں تلاش کرتے ہیں یہ کام اچھے لوگوں کا نہیں ہے نہ پرندوں میں نہ جانوروں میں تو انسانوں میں اچھا کیسے ہوسکتا ہے۔

اللہ پاک نے غیبت کے لیے مثال دی ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت نوچ نوچ کر کھانا فرمایا کہ اگر تم یہ پسند کرتے ہو کے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا تو ایسا کیا کرو اگر نہیں پسند کرتے تو اللہ سے ڈرو عیب جوئی چھوڑ دو تقویٰ اختیار کرو قیامت والے دن اللہ پاک اٹھا کر پیش کرے گا کہ تو اپنے مردہ بھائی کا گوشت نوچتا رہا ہے کھاتا رہا ہے اس کی چغلیاں کرتا تھا اس کی غیبت کرتا تھا لہذا اب اس کو جہنم کا ایندھن بنادو۔ اللہ پاک اس سے ناراض ہوجائے گا۔ لہذا اپنی کمزوریوں گناہوں کی معافی مانگو توبہ کرو۔