سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا

فضہ حسین قادری

إِنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهّرَکُمْ تَطْهِیرًا.

بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔

(الاحزاب، 33: 33)

1۔ سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کا اسمِ گرامی

مسند دیلمی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور مستدرک میں امام حاکم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا نام فاطمہ اس لئے رکھا کہ فاطمہ، فطم سے نکلا ہے جس کا معنیٰ ہے: روک لینا، ڈھال بن جانا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان کا نام فاطمہ اس لئے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اِن کو دوزخ کی آگ سے اور ایک روایت میں ہے کہ اُن سے سچی محبت کرنے والوں کو اور اُن کی سچی پیروی کرنے والوں کو دوزخ کی آگ سے محفوظ کر لیا ہے۔ اسی ضمن میں ایک حدیثِ مبارکہ ہے:

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں درخت ہوں، فاطمہ علیہا السلام اُس کی ٹہنی ہے، علی علیہ السلام اُس کا شگوفہ اور حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام اُس کا پھل ہیں اور اہلِ بیت سے محبت کرنے والے اُس کے پتے ہیں، یہ سب جنت میں ہوں گے، یہ حق ہے حق ہے۔

تو سیدہ کائنات سے محبت کرنے والوں کی شان یہ ہے کہ وہ قیامت کے روز فقط جنت میں ہی نہیں ہوں گے بلکہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کی سنگت و صحبت میں ہوں گے۔ ایک اور حدیثِ مبارکہ میں ہے:

حضرت علی کرم اللہ وجہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں، علی، فاطمہ، حسن و حسین اور ہمارے محبین سب روزِ قیامت ایک ہی جگہ اکٹھے ہوں گے، قیامت کے دن ہمارا کھانا پینا بھی اکٹھا ہوگا، یہاں تک کہ لوگوں میں فیصلے کر دئے جائیں گے۔

حضرت فاطمۃ الزہراء کا لقب بتول ہے، بتول کا لفظ عربی زبان میں: بَتَلَ، بَتْلاً سے نکلا ہے۔قرآن مجید کا یہ لفظ اورسورۃ مزمل کی آیت سے ہے:

وَتَبَتَّلْ إِلَیْهِ تَبْتِیلًا.

اور (اپنے قلب و باطن میں) ہر ایک سے ٹوٹ کر اُسی کے ہو رہیں۔

(مزمل، 73: 8)

یہ تبتُّل اور تبتیل کا معنیٰ ہے۔ تبتل اور تبتیل بھی بَتَلَ سے نکلا ہے۔ اور اسی سے بتول نکلا ہے جس کا معنیٰ ہے کہ آپ وہ ہستی ہیں جو عبادت گزاری میں فنا فی اللہ تھیں اور توجہ الی اللہ میں کامل تھیں اور تفرغ الی اللہ اور تبدل الی اللہ میں اُس مقام پر تھیں کہ وہ دنیا کی ہر رغبت اور ہر چاہت اور ہر خواہش سے مکمل طور پر کٹ کر قلباً و روحاً اللہ کی ہو گئی تھیں۔ تو ان کا کاملاً اللہ کی طرف جو رجوع، تعلق اور ربط تھا اِس کی وجہ سے ان کا دل ہر ایک چاہت و رغبت سے خالی ہو گیا تھا تو آپ کی اس شان استِغْناء اور شانِ روحانیت کے باعث آپ کو لقب بتول عطاء کیا گیا۔

اسی طرح آپ علیہا السلام کا لقب زہراء ہے۔ زہراء پھول کو کہتے ہیں۔اسی لئے کہا گیا:

لِاَنَّها زهرة المصطفیٰ صلی الله علیه وآله وسلم

آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پھول ہیں، بلکہ گلشنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اور آقا علیہ السلام کے سب پھول اسی گلشن سے پیدا ہوئے۔

2۔ اولاد کی تربیت

حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کی عمر مبارک پانچ برس تھی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس واقعہ کے وقت کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحنِ کعبہ میں نماز ادا فرما رہے ہیں اور قریش جمع تھے۔ ابو جہل ایک پوری مجلس جما کے بیٹھا تھا اور طعنہ زنی کر رہا تھا۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سجدے میں تشریف لے گئے تو ایک قبیلے نے بہت بڑی قربانی کی تھی تو اس کی اوجھڑی منگوا کر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر رکھ دی، جو خاصی وزنی تھی۔ اب دشمن اردگرد کھڑے مذاق اور طعنہ زنی کر رہے تھے، بہت وزنی اوجھڑی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر رکھ دی تھی اور اتفاق یہ کہ اس وقت کوئی اور مسلمان آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گرد موجود نہیں تھا۔ پانچ سال کی عمر میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا نے دیکھا تو دوڑتی ہوئی صحنِ کعبہ میں آئیں اور اس چھوٹی سی عمر میں اتنی وزنی اوجھڑی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک سے اتار کر نیچے پھینک دی اور کفار اور مشرکین کا اپنی زبان کے ساتھ مقابلہ کیا۔ آپ علیہا السلام ڈری اور گھبرائی نہیں بلکہ جرات اور ہمت سے دشمنوں کا سامناکیا ۔یہ مائوں کے لئے اور والدین کے لئے ایک خاص پہلو ہے کہ تربیت وہی کام آتی ہے جو بچپن میں کر دی جائے۔ اس کے بعد بچے کا مزاج اتنا پختہ ہو چکا ہوتا ہے کہ پھر تربیت کرنا اور بچے کا مزاج بدلنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ایک سٹیج آتی ہے جب شخصیت Develop ہو کر پختہ ہو جاتی ہے اور 7، 8 سال کی عمر تک ایک solid understanding یا پختہ مزاجی Develop ہو جاتی ہے اس کی مثال یوں ہے کہ:

مٹی جب کچی ہوتی ہے تو کمہار اسے جس طرح کے برتن میں ڈھالناچاہے ڈھال لیتا ہے۔ لیکن جب وہ پَک جاتی ہے اور برتن بن جاتا ہے تو پھر وہ ٹوٹ تو سکتا ہے مگر ڈھل نہیں سکتا۔

بچپن میں ہماری شخصیت اور کردار اور ہماری تربیت اور مزاج کی کچی مٹی ہوتی ہے۔ ماں باپ کمہار کی مانند ہوتے ہیں وہ جس طرح ڈھالنا چاہیں گنجائش ہوتی ہے کہ ڈھال لیں اور اگر وہ وقت لاڈ میں برباد ہوجائے اور بچے جوان ہو جائیں اور بگڑ جائیں تو پھر مشکلات ہوتی ہیں اور شخصیت اور مزاج کو بدلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

3۔ شعب ابی طالب

پھر سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کی عمرِ مبارک 7,8سال کی تھی نوعمری تھی، جب دوسری بہت بڑی مشکل آپ رضی اللہ عنھا کی حیات مبارکہ میں پیش آئی اور وہ شعب ابی طالب کی 3 سالہ قید تھی۔ 7 سے 10 سال کی عمرِ مبارک میں آپ نے 3 سال شعب ابی طالب، پہاڑوں کی گھاٹی میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اور اپنے خاندان کے ساتھ قید کاٹی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سوشل بائیکاٹ کر دیا گیا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے پورے قبیلے اور خاندان کے خلاف اور کفار اور مشرکین قریش نے ایک معاہدہ لکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف سوشل بائیکاٹ پر بنا کر کعبۃ اللہ میں نصب کر دیا تھا۔ اور کسی کو اجازت نہ تھی کہ کوئی لین دین اور ملاقات بھی کر سکے۔ 3سال اُس گھاٹی میں آپ نے قید و بند کی مشکل گزاری اور سیدہ کائنات کی پرورش اس ماحول میں ہوئی۔

ایک اور بہت توجہ طلب بات یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ علیہا السلام کو ہر موقع پر ساتھ رکھتے یہ تربیت کا ایک اور پہلو تھا۔ اپنے بچوں کو، بیٹیوں کو اور بیٹوں کو ہر موقع پر بچپن سے ہی ساتھ رکھنا چاہئے، یہ تربیت کا ایک بنیادی حصہ ہے۔ ہم عموماً ایسا کرتے ہیں کہ جو دین سیکھنے کی جگہ ہے جہاں کچھ فیض، رُشد و ہدایت، تعلیم و تربیت یا کچھ خیرات نصیب ملنی ہوتی ہے، وہاں خود چلی جاتی ہیں لیکن اپنے بچوں کو ساتھ لانا ضروری نہیں سمجھتیں ۔ اگر بچہ کہہ دے کہ تھکا ہوا ہوں یا میں نہیں جانا چاہتا یا میرا ہوم ورک ہے یا میں نے کھیلنا ہے تو ہم بڑے آرام سے مان لیتی ہیں اور انہیں گھر چھوڑ کر پروگرام اٹینڈ کرنے آتی ہیں۔ دوسری طرف یہی اگر کسی فیملی فنکشن کی بات ہو یا کسی شادی پہ جانا ہو کسی کی سالگرہ کا ایونٹ ہو تو ہم مائیں اصرار کرتی ہیں کہ نہیں بیٹا آپ نے ضرور ساتھ آنا ہے اور پھر ہم ایسے ایونٹس کے لئے اپنے بچوں کی ڈریسنگ پر بہت خرچ کرتی ہیں اور نئے کپڑے اورمیچنگ جیولری لے کر دیتی ہیں۔

یہ لمحہ فکریہ ہے۔ ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں۔ ہم نے خود اپنے بچوں کو دین سے دور کر دیا ہے اور پھر رونا روتے ہیں کہ بچے قابو میں نہیں ہیں، ہمارا کہنا نہیں مانتے، ہمارا ادب نہیں کرتے۔

ہمیں اس بات پر توجہ دینی ہوگی کہ ہم اپنے بچوں کو ہر دینی پروگرام، میلاد پاک کی محافل، درودِ پاک کی محافل اور ایسی عظیم کانفرنسز میں اپنے ساتھ رکھیں تاکہ ان کے دلوں میں بچپن سے ہی دین کی محبت ڈال دی جائے۔اور بچپن سے ہی ان کے دل میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عشقِ اہلِ بیت پیدا ہو جائے۔

جیسے کہ واقعہ کوہ، صفا سے ثابت ہوتا ہے۔

4۔ واقعہ کوہِ صفا

سیدہ کائنات کی عمر مبارک 3 یا 4 سال تھی جب سورۃ اَلشُّعَراء کی یہ آیت اتری:

وَأَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ.

اور (اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو (ہمارے عذاب سے) ڈرائیے۔

(الاشعراء، 26: 214)

کہ سب سے پہلے دعوت اپنے قریبی رشتہ داروں کو دیں۔

اس سے ایک فلسفہ Develop ہوتا ہے کہ دعوت و تربیت کی ابتدا فیملی سے ہونی چاہئے۔ تو حکم ہوا کہ سب سے پہلے دعوت اپنے خاندان کو دیں تو جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کو کوہِ صفاء پر جمع کیا اسلام کی اور توحید کی دعوت دینے کے لئے سیدہ کائنات کی عمر 4، 3 سال تھی تو ان کو اٹھا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پہلے اجتماع میں کوہِ صفا ء پر لے کر گئے، آپ نے ان کو اٹھایا ہوا تھا حالانکہ آپ مخالفین سے خطاب کرنے جارہے ہیں۔ خدا جانے ان کا ردِ عمل کیا ہو، پہاڑ پر کھڑے ہو کر دعوت دینی ہے، مجمعِ عام ہے، 3، 4 سال کی بیٹی کو ساتھ لے جانے کی تو ضرورت نہیں ہے؟ اور گھر پر سیدۃ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنھا موجود ہیں، اس وقت وہ حیات تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کو گھر چھوڑ جاتے، مگر نہیں۔ کیونکہ اب اس عمر میں آ گئی تھیں کہ سنتی تھیں، سمجھتی تھیں، اس عمر میں کم از کم ایک Visual Impact ہوتا ہے، اُس Visualization سے پرسنیلٹی پر ایک سائیکلوجیکل اثر پڑتا ہے۔

تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع کو بھی ضائع نہیں کیا کیونکہ اس عمر میں جو بات نقش ہو جاتی ہے وہ ساری زندگی بھولتی نہیں۔ تو اُس اجتماع میں بھی سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیھا کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایک کا نام لے کر فرما رہے تھے کہ اپنے آپ کو سنوار لو! تو سب کو متوجہ کرنے کے لئے پھر اس خطاب میں سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کا بھی نام لیا۔

تو بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بچوں کو اس چھوٹی سی عمر سے ہی ہاتھ پکڑ کے تربیت کے لئے ساتھ لے کر چلنا چاہئے اور یہ بچپن کے لئے اور بچوں کے لئے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی سنت ہے اور بچوں کو تربیت دینے کے باب میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔

اس واقعہ سے آپ اندازہ کریں کہ کس طرح آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو اپنی قربت و صحبت میں رکھتے۔ تربیت قربت و صحبت سے ہوتی ہے۔

والدین بالعموم بچوں پر رعب ڈالنے کی طبیعت، مزاج اور رجحان رکھتے ہیں تاکہ بچے خوف زدہ رہیں۔ یہ خوف زدگی کا کوئی تصور اولاد کے لئے اسلام میں نہیں ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ بچوں کو قربت اور صحبت میں رکھ کر اپنائیت دی جائے، اتنی شفقت اور پیار دیا جائے کہ اس پیار کے اندر ہی خوف ہو۔ محبت میں جو خوف ہے وہ دنیا کی کسی شے میں نہیں ہے تو بچوں کو قربت اور صحبت میں رکھیں اگر خوفزدگی کی کیفیت پیدا کریں گے تو بچے آپ سے دور ہو جائیں گے، فاصلہ ہو جائے گا۔ پھر آپ کے سامنے وہ ڈر کے مارے جھوٹ بولیں گے سچ بیان نہیں کریں گے، تاکہ ڈانٹ نہ پڑے، اس طرح بچے جھوٹ بولنا سیکھتے ہیں اور والدین سے ہر بات چھپاتے ہیں۔اگر پیار، نرمی، شفقت اور قربت کے ماحول میں تربیت دیں گے تو بچے کی شخصیت میں دوہرا پن نہیں ہوگا اور ظاہر و باطن سب ایک کردار ہوگا۔

تو یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت کا عالم تھا اور ایک لمحہ بھی سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کو اپنے آپ سے جدا نہیں فرماتے تھے۔

5۔ غزوات میں شرکت

پھر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر غزوہ میں آپ کو اپنے ساتھ رکھتے۔

غزوہ بدر میں بھی آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھیں، تو جب واپسی ہوئی تو اس دوران سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ، تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی بڑی بہن کا وصال ہو گیا تھا تو جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا غزوہ سے واپس لوٹیں تو سیدھی ان کی قبر پر گئیں اور رونے لگ گئیں۔ طبقات ابن سعد میں ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا کپڑا مبارک لے کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کے آنسو پوچھ رہے تھے۔

6۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی دوری گوارہ نہ تھی

پھر ایک اور خوبصورت واقعہ جس سے پتا چلتا ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا سے تھوڑی سی بھی دوری گوارا نہیں تھی، جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی شادی ہوئی تو آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ علی ایک گھر کا مشورہ دیا تو سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ نے ایک الگ گھر لیا جوتاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر مبارک سے تھوڑے سے فاصلے پر تھا، مگر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی شہزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا سے محبت کا عالم یہ تھا کہ اتنی سی دوری بھی گوارا نہ تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شادی کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے گھر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے اس بات کااظہار کیا کہ گھر بہت دور لے لیا ہے تو پھر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اپنے حجرہ مبارک کے قریب منتقل کروالیا یہاں تک کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کے گھر کا دروازہ بھی مسجدِ نبوی پاک میں کھلتا تھا۔

پھر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر روز نمازِ فجر کے بعد ان کے دروازے پر رکتے اور با آواز ِ بلند فرماتے: الصلاۃ یا اھل البیتِ محمد، پھر سورۃ الاحزاب کی یہ آیتِ مبارکہ پڑھتے جو اہلِ بیتِ اطہار کی شان میں اتری جس نے ان کو چادرِ تطہیر عطا کی:

إِنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیرًا.

بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔

(الاحزاب، 33: 33)

تو سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کا گھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرب میں ہو گیا اور یہی آپ کی خوشی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آتے جاتے سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کو مل کر جاتے۔ حسن و حسین کا پوچھتے اور اگر ان کے رونے کی آواز آتی تو گھر میں داخل ہو جاتے اور پوچھتے کہ میرا حسین کیوں رو رہا ہے؟

پھر جب تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کے گھر سے گزرتے تو چکی پیسنے کی آواز آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا فرماتے کہ اے باری تعالیٰ فاطمہ کو اس ریاضت و قناعت کا اجر دے اور اسے حالتِ فَقر میں ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرما۔

یہ پہلو خواتین کے لئے غور طلب ہے کہ سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کے پاس آپ کی باندی سیدہ فضہ رحمۃ اللہ علیھا بھی تھی لیکن آپ نے کبھی ان پر کام کا بوجھ نہیں ڈالا، ہر کام برابر تقسیم کیا ہواتھا اور محنت و مشقت والا کام وہ خود کیا کرتی تھیں۔

آج حال یہ ہے کہ ملازموں پر اتنا بوجھ ڈال دیتے ہیں کہ جس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ خواتین گھر کے سارے کام ملازموں سے کرواتی ہیں یہاں تک کہ اپنے بچوں کی ذمہ داری بھی ان پر چھوڑ دیتی ہیں اور ایک گلاس پانی تک خود لانا گوارا نہیں کرتیں یہ سیدہ کائینات سلام اللہ علیھا کی سنت نہیں ہے وہ تو سراپا رحم دل اور انسانیت کا درد رکھنے والی تھیں۔ آپ کو ہر ایک کے حقوق کا خیال ہوتا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کی حیاتِ مبارکہ کے ہر ہر گوشے کو، ہر ہر پہلو کو پڑھیں اور اُس پر عمل کریں اور اُس کو اپنی زندگیوں میں ڈھالیں کیوں کہ عورت کی عظمت، سیرتِ سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کی پیروی اور اتباع میں ہے۔

7۔ سیدہ کائنات کا اسوۃ عورت کے لئے ایک کامل نمونہ حیات ہے

  1. اگر کسی نے عبادت گزاری اور پرہیز گاری کا کمال دیکھنا ہوتو سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کو دیکھے۔
  2. کسی نے صبر، توکل اور مصائب و آلام میں بھی شکر گزاری کا کمال دیکھنا ہو تو سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کو دیکھے۔
  3. کسی نے استقامت اور شجاعت کا کمال دیکھنا ہوتو سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کو دیکھے۔
  4. کسی نے زہد و وراء اور تقویٰ کا کمال دیکھنا ہوتو سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کو دیکھے۔
  5. کسی نے غریب پروری اور سخاوت کا کمال دیکھنا ہو تو سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کو دیکھے۔
  6. کسی نے علم و معرفت اور شعور و آگہی کا کمال دیکھنا ہو تو سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کو دیکھے۔
  7. کسی نے آغوشِ مادر کا کمال دیکھنا ہوتو سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کو دیکھے۔
  8. اگر کوئی یہ دیکھنا چاہے کہ عورت کا مرتبہ کامل کیا ہو سکتا ہے تو وہ سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کو دیکھے۔
  9. کسی نے قربتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کمال دیکھنا ہو تو بھی سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کو دیکھے، کیونکہ ان سے بڑھ کرپھر کوئی قریبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوا ہی نہیں۔

اسی لئے تاجدارِ کائنات نے فرمایا: فاطمۃ بَضعَۃُ مِنی، اس کی شرح شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری یوں کرتے ہیں:

کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فاطمہ میری روح ہے۔

وہ چلتی ہے تو اس کا چلنا میری طرح کا ہے۔ وہ جب بولتی ہے تواس کا گفتگو کرنا میری طرح کا ہے۔ وہ جب کلام کرتی ہے تو اس کا شعور و معرفت میری طرح کی ہے۔

وہ جب سیرت و کردار اور تقوٰی کا اظہار کرتی ہے اور جرات و شجاعت کا اظہار کرتی ہے اور استغناء کا اظہار کرتی ہے تو دیکھنے میں فاطمہ ہے مگر اپنے باطن میں وہ محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح ہے۔

یہ وہ کلی ہے کہ جس کی خوشبو کو سجدہ کرتی ہیں خود بہاریں

یہ وہ ستارہ ہے جس سے روشن ہیں آسمانوں کی راہ گزاریں

یہ وہ سحر ہے کہ جس کی کرنیں بھی ہیں امامت کی آبشاریں

یہ وہ گہر ہے کہ جس کا صدقہ فلک سے آکر مَلک اتاریں

یہ وہ ندی ہے جو آدمیت کی مملکت میں روا ں ہوئی ہے

یہ وہ شجر ہے کہ جس کی چھائوں میں خود شرافت جواں ہوئی ہے

حیا کی پیکر وفا کی آیت حجاب کی سلسبیل زہرا

کہیں ہے معصومیت کا ساحل کہیں شرافت کی جھیل زہرا

جہانِ موجود میں بنی ہے وجودِ حق کی دلیل زہرا

زمانے بھر کی عدالتوں میں نساء کی پہلی وکیل زہرا

8۔ سیرت فاطمۃ الزاہرۃ علیہا السلام اور ویمن امپاورمنٹ

آج سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کی سیرتِ مبارکہ سے اکیسویں صدی کی عورت جو Women Empowerment کے نام پر چوکوں چوراہوں میں وجہِ مزاح بنتی ہے اس کو یہ پیغام ملتا ہے کہ حقیقی Women Empowerment یہ ہے کہ سید فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا عِصمت و حیا کا پیکر بھی ہیں، شب بیدار بھی ہیں، اولاد کی تربیت بھی باکمال کی، خدمتِ دین میں اپنے عظیم والدِ گرامی کی پیروکار بھی رہیں، باپردہ اور باحجاب بھی رہیں، اعلیٰ اخلاق سے مزین بھی رہیں، اپنے دین اپنے پردے اور اپنے کردار پر سمجھوتہ کیے بغیر عظیم عورت ایسی عظیم مثال قائم کی کہ 14 سو سال گزرنے کے بعد بھی مرد ہو یا عورت ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں ہر کوئی صبح و شام یا زہراء یا زہراء کرتا ہے۔

اور حقیقی Women Empowerment یہ ہے کہ عورت کی عِصمت و کردار اور عَظمت کا اعتراف عورت تو عورت ہر دور کا مرد بھی کرے اور جب اُس کا نام لیا جائے تو اُس دور کے ہر مرد کی نگاہ ادب و حیا سے جھک جائے۔

Women Empowerment یہ نہیں کہ عالمِ مغرب کی پیروی میں عورت اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کردے بلکہ حقیقی Women Empowerment یہ ہے کہ اگر تم ماں ہو تو:

اس کی آغوشِ تربیت سے کوئی سلطان العارفین سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ نظام الدین اولیاء کوئی سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ، محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بن کر نکلے۔

اِن آئمہ امت کی بارگاہ میں لوگ بعد میں سلام عرض کریں گے پہلے اُن مائوں کی خدمت میں سلام عرض کرنے پہنچیں گے جن کی آغوشِ تربیت نے امت کو ایسے امام دئیے۔

یہ وہ Women Empowerment ہوگی کہ جسے انسانیت رہتی دنیا تک یاد رکھے گی۔

اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر لطف و کرم فرمائے اور ہمیں سیدہ کائنات سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کے نقشِ قدم پر چلنے کی اور ان کی سیرتِ مبارکہ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہم سب کو سیدہ کائینات سلام اللہ علیھا کی چادرِ تطہیر کا سایہ نصیب فرمائے۔