آثار قلم: توسل و استغاثہ کی شرعی حیثیت

ڈاکٹر فرخ سہیل

عصر حاضر میں ہاں ایک طرف علم میں ترقی ہوتی رہیں اس ترقی کے ساتھ بہت سے ابہامات نے بھی لوگوں کے ذہنوں میں جگہ بنالی۔ اسلامی تعلیمات میں خصوصاً دیکھا جائے تو ہر طبقہ فکر نے اپنے نظریات کے فروغ میں دوسرے طبقہ فکر کے نظریات کو ابہام کا شکار کیا۔ ایسا ہی ایک مسئلہ اولیاء و صالحین کے توسل و استغاثہ سے متعلق ہے۔ بعض اولیاء و صالحین کا توسل پیش کرنا جائز ہے یا نہیں یہ بحث ماضی میں علماء کی بحث کا موضوع رہی ہے۔ زیرنظر کتاب میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس مسئلہ پر ابہامات کا بہت مدلل انداز میں ازالہ کیاہے۔

قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں استغاثہ کے جواز اور عدم جواز کا تعین علمی و تحقیقی بنیادوں پر کیا ہے۔ سب سے پہلے مصنف نے لفظ استغاثہ کی لغوی تحقیق بیان کی ہے کہ استغاثہ کا مادہ اشتقاق غ، و، ث، ہے جس کا معنی مدد کے ہیں۔ یعنی مدد طلب کرنا۔ لفظ استغاثہ کے استعمال کو قرآن مجید سے پیش کیا ہے، مختلف سورتوں کی آیات کے حوالے جات سے استغاثہ کی وضاحت کی گئی ہے۔

اس کے بعد ڈاکٹر صاحب استغاثہ کی اقسام بیان کرتے ہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں۔ استغاثہ کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں:

  1. استغاثہ بالقول
  2. استغاثہ بالعمل

استغاثہ بالقول کی وضاحت میں سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 160 کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان سے پانی کا استغاثہ کیا۔

اسی طرح استغاثہ بالقول کی وضاحت میں بھی سورہ یوسف کی آیت نمبر 93 کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت کے برگزیدہ پیغمبر سیدنا یعقوب علیہ السلام کا عمل مبارک جس سے ان کی بینائی لوٹ آئی۔ عملی طور پر حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض کا استغاثہ ہے۔

اسی طرح اس کتاب میں استغاثہ اور توسل کے باہمی ربط پر بھی بات کی گئی ہے کہ جب فعل کی نسبت مدد طلب کرنے والے کی طرف جائے تو اس کا یہ عمل استغاثہ کہلائے گا اور جس سے مدد طلب کی جارہی ہو تو اس کی حیثیت وسیلہ و ذریعہ کہلائے گا۔ اس کے بعد استغاثہ اور دعا کے بنیادی فرق کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ

دکھ اور تکلیف میں کسی سے مدد طلب کرنا استغاثہ کہلاتا ہے جبکہ مطلقاً پکارنا دعا ہے۔ اس کے بعد لفظ دعا کے مختلف قرآنی مستعمل الفاظ کا ذکر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں دعا کی خود ساختہ تقسیم پر بات کی ہے۔ جیسا کہ لکھتے ہیں کہ کچھ لوگ استغاثہ کو شرک قرار دینے کے لیے اسے دعا کا مفہوم دیتے ہیں اور پھر دعا کی دو خود ساختہ قسمیں کردی جاتی ہیں جیسا کہ:

  1. دعائے عبادت
  2. دعائے سوال

لکھتے ہیں کہ عبادت تو صرف اللہ رب العزت ہی کی روا ہے لہذا اس معنی کی روسے غیراللہ سے کی جانے والی دعا کو عبادت قرار دیتے ہوئے اسے شرک کا موجب قرار پاتی ہے۔ اور جب کوئی کسی سے سوال کرتا ہے یا کسی کو مشکل کشا مانتا ہے اس پر اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ مشکل کشا کی ذات چونکہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ لہذا سوال بھی فقط اسی سے کیا جاسکتا ہے اور جو اللہ کے علاوہ کسی سے سوال کرے تو وہ شرک ہے تو اس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ اگر دعائے سوال کو بھی دعائے عبادت میں داخل کرتے ہوئے جب ایک ہی مفہوم لیا جائے تو پھر اس تقسیم کی افادیت ضائع ہوجاتی ہے۔ اور اس بات کو رد کرنے کے لیے سجدہ عبادت اور سجدہ تعظیم کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

سجدہ تعظیم کو سجدہ عبادت میں شامل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اگر کوئی انسان کسی بندے کے سامنے عبادت کی نیت سے سجدہ کرے تو وہ ارتکاب شرک کرتا ہے اگر محض تعظیم کی خاطر سجدہ کرے یہ شرک قرار نہیں پائے گا۔

اسی طرح دعا کو ہر جگہ عبادت کے معنی میں شامل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایسی صورت میں تو پورا معاشرہ ہی شرک کی دلدل میں دھنس جائے گا۔ لہذا دعائے عبادت اور دعائے سوال دو الگ الگ مفہوم میں آتی ہیں۔

کتاب کے دوسرے باب میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغاثہ کرنے کی وضاحت پیش کی گئی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام عبد میں بارہا مومنین کو آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 2 میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغاثہ کرنا اسی طرح جائز ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام سے ایک قبطی نے کسی ظالم کے خلاف استغاثہ کیا تو آپ نے اس کی مدد فرمائی۔ اسی طرح قرآن مجید میں بہت سے دیگر مقامات پر گذشتہ امتوں کے مومنین کا اپنے انبیاء و صالحین امت سے استغاثہ کرنے کا بیان آیا ہے۔ جیسا کہ صحیح البخاری کی کتاب الزکوٰۃ، 1: 199 میں مذکور ہے کہ

لوگ آدم علیہ السلام سے استغاثہ کریں گے پھر موسیٰ علیہ السلام سے اور آخر میں تاجدار انبیاء محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے۔

احادیث میں بہت سے مقامات پر اس بات کا تذکرہ پایا جاتا ہے کہ صحابہ کرام خاتم النبیین سے استغاثہ و استمداد کرتے تھے اور اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب صحابہ کرام کی چند مثالیں بھی پیش کرتے ہیں۔

باب سوم میں بعد از ممات استغاثہ کا جواز پیش کیا گیا ہے۔ اکثر لوگوں میں یہ گمان پایا جاتا ہے کہ قرآن و سنت کے احکام اور عمل صحابہ سے تو ایک دوسرے سے مدد مانگنا تو جائز ٹھہرتا ہے مگر موت کے بعد تو بندہ اپنے بدن پر قادر نہیں رہتا۔ تب اس سے کس طرح مدد مانگی جاسکتی ہے اور اگر کوئی مردے سے مدد مانگے تو یہ شرک ٹھہرے گا۔

ڈاکٹر صاحب اس نظریے کو یوں رد کرتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اہل برزخ کی حیات کا ذکر کرتا ہے۔ جیسا کہ حیات شہداء کے بارے میں تو کسی کو اعتراض نہیں اور جس نبی کے ادنیٰ امتی مرتبہ شہادت پاکر قیامت تک کے لیے زندہ ہیں اور ان کو اللہ تبارک تعالیٰ کی طرف سے رزق بھی بہم پہنچایا جاتا ہے تو اس نبی کریم کی اپنی حیات برزخی کا کیا بے مثال عالم ہوگا۔

لہذا اگر طلبِ شفاعت، استغاثہ اور توسل کفر و شرک ہوتا تو پھر حیات برزخی میں شہدا کو بہم رزق پہنچایا جانا بھی (نعوذ باللہ من ذلک) شرک میں سے ہوگا۔

المختصر یہ کہ مسلمان ہمیشہ انبیاء و اولیاء سے استغاثہ کے دوران یہی عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ اللہ کے حضور سفارش اور دعا کرکے ہماری حاجت روائی کردیں اور یہی جمیع امت مسلمہ کا عقیدہ ہے۔ لہذا صحابہ کرامؓ کا استغاثہ جواباً حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل اور اللہ تعالیٰ کا اس عمل پر منع نہ فرمانا ثابت کرتا ہے کہ استغاثہ نہ صرف جائز ہے بلکہ سنت صحابہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول و منظور ہے۔