ہادیہ ثاقب ہاشمی

مصنف کا تعارف

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری ایک سیاسی مفکر، معیشت دان، ماہر تعلیم، عظیم دینی سکالر اور فلسفی ہیں۔ آپ ایک عظیم علمی و دینی اور روحانی خانوادے کے چشمو چراغ ہیں، جنہوں نے علمی و ادبی اور روحانی صلاحیت اپنے جدِ امجد فریدِ ملت حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کے ورثہ سے اور اپنے والد گرامی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی شبانہ روز تر بیت و توجہ حاصل کی ہے۔

ڈاکٹر حسین قادری نے آسٹریلیا کی معروف یونی ورسٹی Victoria University, Melbourne سے درج ذیل موضوع پر اپنی PHD مکمل کی ہے:

An Analysis of Trade Flows Among ECO Member Countries and Potential for a Free Trade Area.

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری 30 سے زائد کتب کے مصنف اور 100 سے زائد تحقیق مقالات کے مصنف ہیں۔ آپ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی صدر اور ملک پاکستان کے عظیم تعلیمی ادارے، منہاج یونیورسٹی لاہور (چاٹرڈ)، کے بورڈ آف گرنر کے ڈپٹی چیئر مین ہیں۔ آپ منہاج ایجوکیشن سٹی کے بھی سربراہ ہیں جس کے تحت ملک بھر میں 650 سے زائد اسکولز اور کالجز نسلِ نو کی تربیت اور علم کا نور عام کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ المواخات اسلامک مائیکرو فائنانس اور منہاج حلال سرٹیکفیکیشن بیورو کے بھی خالق ہیں ۔ آپ School of Economics and Finance کے ایسوسی ایٹس پروفیسر کے طور پر بھی اپنی زمہ داری نبھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ University of Melbourne کے اعزازی ممبر (Honorary Fellow) بھی ہیں۔

خلاصہ کتاب

اس وقت زیرِ بحث کتاب کا عنوان ہے "کرّہ ِ ارضی سے انسانی ہجرت اور یاجوج ماجوج کی حقیقت (اسلام اور جدید سائنس کی روشنی میں تحقیق مطالعہ)."

یاجوج ماجوج کی رہائی سے متعلق طبقۂ علما ء اور عوام الناس میں بہت سے تصورات پائے جاتے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ یاجوج ماجوج کی قوم کون ہے؟ یاجوج ماجوج کب رہا ہوں گے؟ کیا یاجوج ماجوج اسی کرّہِ ارضی پر قید ہیں یا کسی دوسرے سیارے پر۔ ان تمام سوالات کا جواب اس کتاب کے اندر دلائل کی روشنی میں تفصیلا بیان کیا گیا ہے۔

عموما مذہبی طبقات میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ پہلے سائنس کی طرف دیکھتے ہیں کہ اگر سائنس کچھ ثابت کر لے تو پھر اسے اپنی دینی کتب یعنی قرآن و حدیث اور اسلامی تعلیمات کے ذخیرہ میں تلاش کرتے ہیں اور جب وہ اس حقیقت تک رسائی پا لیتے ہیں تو یہ امر ان کے اطمینان قلب کا باعث بنتا ہے اورپھر وہ اسے تشکرِ الہٰی کا ذریعہ بناتے ہیں۔ اس عمومی رجحان سے ہٹ کر یہ مذہبی طبقات کوشش نہیں کرتے کہ قرآن و حدیث کا مطالعہ اس زاویہ نگاہ سے کریں کہ اس میں بیان کردہ مخفی علوم، اسرار اور مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کو پہلے ہی بیان کردیں اور سائنس بعد ازاں ان کی تصدیق کرتی رہے۔ اس زاویہ نگاہ سیقرآن و حدیث اور اسلامی ذخیرہ علم کا مطالعہ نہ ہونا ہمارے ہاں مذہبی طبقات کی دنیاوی و دینی علوم میں بیک وقت دسترس اور مہارت نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔

زیر نظر کتاب میں مصنف نے کوشش کی ہے کہ ان سوالات کے جوابات تلاش کیے جائے جن پر عموما ہمارے علماء اور مذہبی طبقات اس خیال سے خاموش ہو جاتے ہیں کہ اگر کل کو یعنی مستقبل میں سائنس نے ان کی کہی ہوئی بات کے برعکس کچھ جان لیا تو ان کی قدروقیمت میں کمی واقع ہو گی اور انکی بات کا وزن بھی نہیں رہے گا۔ اور دوسری طرف سائنسدان اس لیے خاموشی اختیار کرتے ہیں کہ وہ کسی بات کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرتے جب تک کہ اپنے سر کی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ نہ کر لیں۔

قرآن مجید میں بیشتر مقامات پر سات آسمانوں اور ان کی مثال زمین (الارض) کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں الارض سے کیا مراد ہے اور سات آسمانوں کے ساتھ صرف واحد لفظ الارض میں کیا حکمت پوشیدہ ہے ۔ مصنف کے نزدیک خلا میں کرہ ارض (زمین) کے علاوہ انسانی ہجرت کے نتیجے میں دیگر سیارے بھی آبادہو جائے تو ان سیاروں پر آباد انسانی زندگی اور ان سے متعلقہ مسائل بھی الارض کے زمرے میں داخل ہوں گے ۔اور ان سب پر ابھی قوانین اور معاملات کا اطلاق ہو گا جو اہل زمین یعنی وہ لوگ جو اس کرہ ارض پر آباد ہیں پر ہوتا ہے گزشتہ صدی میں انسان نے باقاعدہ طور پر Human Migration to space کے لئے کوششوں کا آغا ز کر دیا ہے۔

اسی سوال کی طرح بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کے آغاز میں کائنات سے متعلق کئی امور محققین اور سائنسدانوں کے ہاں زیر بحث رہے۔

زیر نظر کتاب میں انہی مسائل سے متعلق دیگر بے شمار سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے ان سوالات کے جواب کی تلاش میں قرآن و حدیث، دیگر مذاہب کی کتب اور سپیس سائنسز (Space Sciences) کے حوالے سے دستیاب کتب کا دقیق نظری سے جائزہ لیا گیا ہے۔

کتاب ہذا کل سات ابواب پر مشتمل ہے ذیل میں ان کا خاکہ مختصراً بیان کیا گیا ہے۔

باب اول "سائنس کا ارتقاء" میں سائنس کا معنی و مفہوم، سائنس اور مذہب کا تعلق ان میں موافقت و مغایرت، قرآنی آیات سے سائنسی امثلہ کا بیان، مسلمان سائنسدانوں کی ایجادات اور علم کے تمام میدانوں میں انکی خدمات، ان تمام موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔

باب دوم"سات آسمان اور ان کی مثل زمین"میں لفظ الاسما ء اور الارض پر مختلف جہتوں سے بحث کی گئی ہے اور اس نقطے کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے کہ سات آسمانوں اور ان کی مثل زمین میں لفظ زمین (الارض) میں کیا کیا شامل ہے اور اس کا اصل معنی و مفہوم اور تشریح قرآن، حدیث اور تفاسیر و تواریخ کی کتب سے بیان کیا گیا ہے۔

باب سوم "Scientific Developments Through Space" میں اس کرہ ارض (زمین) کے علاوہ دوسر ے سیاروں پر زندگی کے آغاز کو ممکن بنانے والی انسانی کوششوں کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مختلف ممالک میں کونسے ادارے قائم کیے گے ہیں اور وہ کیا اقدامات کر رہے ہیں اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

باب چہارم "خلا میں زندگی کا امکان:مفروضے اور حقیقت" میں لفظ خلا کی مختلف تشریحات اور اس سے متعلق مختلف تصورات کو بیان کیا گیا ہے۔ نیز اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کو اس کرہ ارض (زمین) کے علاوہ دیگر سیاروں پر آباد ہونے کے لیے کن چیلینجز (Challenges) کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے۔ اس سوال کا جواب بھی دیا گیا ہے کہ کیا انسان کسی بڑے معرکے کی تیاری کر رہا ہے جو مستقبل قریب یا بعید میں لازمی طور پر ہو گا۔

باب پنجم"علامات قرب قیامت اور یا جوج ماجوج" میں قرب قیامت کی تمام بڑی علامات جن میں سیدنا عیسی علیہ السلام اور امام مہدی علیہ السلام کا ظہور، فتنہ دجال اور یا جوج ماجوج کا حملہ آور ہونا شامل ہیں کو تفصیلاًبیان کیا گیا ہے۔

باب ششم "اسلام اور دیگر مذاہب میں یاجوج ماجوج کا تصور" میں یاجوج ماجوج کون ہیں، ان کا ظہور کب ہو گا، وہ کہاں آباد ہیں، وہ کہاں قید ہیں، ان کی حضرت ذوالقرنین سے مڈبھیڑ کہاں ہوئی، سد ذوالقرنین کا معمہ کیا ہے اس سے منسوب کی جانے والی دیواروں کی حقیقت کیا ہے، یاجوج ماجوج انسانی مخلوق ہے یا غیر انسانی، ان تمام سوالات کا جواب دیگر مذاہب کی روشنی میں بالعموم اور خاص طور پر اسلامی عقائد کی روشنی میں دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

باب ہفتم "یاجوج ماجوج کی حقیقت:قرآنی و سائنسی شواہد کی روشنی میں" میں اس نقطے پر بحث کی گئی ہے کہ یاجوج ماجوج کی اصل حقیقت کیا ہے۔ کیا یاجوج ماجوج ایلیئنز (Aliens) ہیں۔ اور اس پر کونسے قرآنی اور سائنسی شواہد موجود ہیں نیز سد ذوالقرنین کی حقیقت کیا ہے اس کی تعمیر و تشکیل کہاں اور کیسے ہوئی اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

قرآن و حدیث میں ذکرآتا ہے کہ یاجوج ماجوج کو سیدنا ذوالقرنین علیہ السلام نے ایک دیوار کے پیچھے قید کیا تھا جو کہ تانبے اور لوہے سے تعمیر کی گئی تھی جس دیوار کو سدِ ذوالقرنین بھی کہا جاتا ہے۔ سدِ ذوالقرنین سے منسوب کی جانے والی دیواریں جن میں دیوارِ چین، دیوارِ قفقاز اور دیوارِ برلن شامل ہیں، حقیقت میں دیوارِ ذوالقرنین نہیں ہیں۔ قرآنی اور احادیث مبارکہ کی دلائل کی روشنی میں یاجوج ماجوج کے ظہور سے متعلق آراء کے ساتھ تطبیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ یاجوج ماجوج ابھی تک ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔ مگر اس کائنات میں کسی دوسرے سیارے پر قید ہیں اور قرب قیامت میں وہاں سے آزاد کئے جائیں گے۔ مغربی تصور ایلینز (Aliens) بھی یاجوج ماجوج سے قریب تر ہے۔ اور عین ممکن ہے کہ یاجوج ماجوج ایلئنز (Aliens) ہی ہوں جن کی کھوج میں دنیا لگی ہوئی ہے۔

ان ابواب میں ترتیب کے ساتھ قرآنی اور سائنسی دلائل پیش کئے گئے ہیں جو مصنف کے اس موقف کی تائید کرتے ہیں کہ یاجوج ماجوج غیر انسانی کوئی مخلوق ہے جو اس سیارے کے علاوہ کسی سیارے پر آباد ہیں اور قرب قیامت پر وہ انسانوں پر حملہ آور ہوں گے۔ انسان تسخیر کائنات کی راہ پر جیسے جیسے فتوحات حاصل کرے گا اتنا زیادہ حقیقت کے قریب تر ہوتا جائے گا۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں نت نئے ایجادات بھی اسی جنگ اور معرکہ کا پیش خیمہ اور تیاری ہے کہ جو قرب قیامت پر نیکی اور بدی کی قوتوں کے درمیان ہو گی۔ قرآن مجید میں تدبر و تفکر کی دعوت اصل میں انسان کو ان معاملات پر سوچنے اور ان کی تفہیم کے حصول پر ابھارتی ہے۔ کیونکہ ان رازوں پر آگہی سے قرآن کریم کی عظمت اور اللہ تعالیٰ کی کبریائی پر مہرِ صداقت ثبت ہوتی ہے۔

اس کتاب میں موجود ابحاث اور سوالات کے جوابات مستقبل میں تخلیقی (Creative) اور تجسسی (Curious) اذہان کے لیے سود مند اور مشعل راہ ثابت ہوں گے۔