حضرتِ ماریہ القبطیہ رضی اللہ عنہا... صبرو استقلال کا پیکر تھیں

ساجدہ کوثر نعیمی

اس دور پرفتن میں جہاں سائنسی ترقی عروج پر ہے وہیں انسان ذہنی طور پر پریشان اور الجھاؤ کا شکار نظر آتا ہے۔ تیزی سے بدلتا معاشرہ احساس مروت، محبت و مودت جیسے اعلیٰ اخلاق سے مبرا نظر آرہا ہے یہی وجہ ہے ہمارا معاشرتی و اخلاقی نظام بگاڑ کا شکار ہے۔

ایسے میں زندگی کو جنت نما بنانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازدواج مطہرات نے اسوہ حسنہ پر عمل پیر اہوکر اور ان کی زندگیوں سے روشنی لے کر رہتی زندگی کے شب و روز گزارنا لازمی و ضروری ہے لہذا ان نفوس مقدسہ سے راہنمائی حاصل کرنا نہ صرف عورتوں کے لیے ضروری ہیں بلکہ مردوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس آرٹیکل میں حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی حالات زندگی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کا تعلق مصر کے ضلع انصا کے ایک گاؤں حفن سے تھا اللہ نے انہیں ظاہری و باطنی خوبصورتی سے خوب نوازا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا پورا نام ماریہ قبطیہ بنت شمعون المصری تھا اور قبطیہ ان کی قومی نسبت تھی۔

6 ہجری میں جب معاہدہ حدیبیہ کے بعد کفار و مشرکین کی طرف سے خطرہ ٹل گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وادی بطحا کے قرب و جوار کے حکمرانوں کو خطوط لکھے انہی میں شہنشاہِ مصر مقوقس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خط مبارک کو پڑھا ادب احترام سے اس کا جواب دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قاصدکی تکریم کی اوراسکے ہمراہ دلدل نامی اعلیٰ نسل کا گھوڑا اور ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اعلیٰ نسل کا خچر، سونا اور چاندی کے تحفے بھیجے اور دو بہنیں بطور ہدیہ بھجوائیں جن کی قبطیوں میںبڑی تکریم کی جاتی تھی۔بڑی بہن ماریہ قبطیہ اور چھوٹی کا نام سیرین بنت شمعون تھا۔

یہ دونوں بہنیں ایسے دربار کی طرف روانہ ہوئیں جہاں ذروں کو مثلِ ماہتاب بنایا جہاں عمر رضی اللہ عنہ کو فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ کو شیرِ خدا اور حیدرِ قرار بنایا جا تا ہے اور بلال رضی اللہ عنہ جیسے غلام کو کعبے کی بلندیوں پہ چڑھ کر اذان دینے کو کہا جاتا ہے ۔دونوں بہنیں اپنے نئے آقا کے حرم میں رہنے، خود کو ذہنی طور پر تیارکر رہی تھیں۔

حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا جو باوقار اعلیٰ اوصاف کی مالکہ تھیں۔ بعد ازاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد زوجیت میں آئیں۔

حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے سن 8 ہجری کو ایک چاند سابیٹا ہوا جس پر حضرت جبریل علیہ السلام امین نے آپ کو یا اباابراہیم کہ کر مخاطب کیا حضرتِ ماریہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہونے والے بیٹے کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جدِ امجد حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کا نام دیا۔

18 ماہ کے پلک جھپکتے عرصے میںنہائت دکھ اور کرب کا ایک دن آیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مشیت ایزدی سے وصال پاگئے مگر حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا اس دکھ بھری گھڑی میں صبرو استقلال کا پہاڑ بنی رہیں۔

حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا نہایت معاملہ فہم، فہیم و متین تھیں یہی وجہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوات اور داخلی معاملات میں قدم قدم پر حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا سے بھی مشورہ کرتے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بعد دوسری سب سے کم عمر زوجہ محترمہ تھیں۔ آپ بڑی دیانت دار، نہایت صالح، پاکیزہ، نیک سیرت اور خوش اخلاق تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور دوسری ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا کی طرف ملاقات کے لیے جایا کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’مجھے حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا پر بڑا رشک آتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان سے محبت تھیں آپ رضی اللہ عنہا سے نہائت دقیق و عمیق احادیث مروی ہیں۔

حضرتِ ماریہ قبطیہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دمِ وصال آپ رضی اللہ عنہا کربناک کیفیت سے گزریں۔ حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہا نے دوسری ازواجِ مطہرات کی طرح آپ رضی اللہ عنہا کا بھی ایک خاص وظیفہ مقرر کیا تھا اور اگلے خلیفہ کے لئے یہی حکم چھوڑا تھا۔ حضرتِ ماریہ رضی اللہ عنہا کا وصال حضرتِ عمر ِ فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا۔اور جنت البقیع میں آرام فرما ہیں۔

ام المومنین حضرت ماریہ صبرو استقلال کا پہاڑ تھیں۔ آپ نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، مسلمانوں کی حسنِ معاشرت سے مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ معاملہ فہم تھیں۔ آقاعلیہ السلام کے ادب و آداب کو ملحوظ خاطر رکھتیں۔ قدم بقدم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتیں تھیں۔ ام المومنین کی زندگی سے آج کی عورت کو یہ پیغام ملتا ہے کہ حقوق العباد اور حقوق اللہ کو بطریق احسن پورا کیا جائے۔ صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے بلکہ نماز اور صبر سے مدد حاصل کی جائے اور اللہ کی رضا میں راضی رہیں۔ زندگی سے شکوہ کو نکال دیا جائے اور مثبت طرز فکر سے ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے دراصل زندگی خوشی اور غم کا مرقع ہے دنیا کی ہر چیز ناپائیدار ہے باقی رہنے والی ذات اللہ کی ہے۔ اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں سے دوسروں کو فائدہ پہنچانا چاہئے کیونکہ بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے نفع رساں ہو۔

دوسرا اہم نقطہ کہ ام المومنین نے معاشرہ کی بہتری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تمام ام المومنین نے تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امت تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آج کی عورت کو چاہئے کہ وہ بھی دعوت و تربیت کے کام کو عوام الناس تک پہنچانے کی ذمہ داری ادا کریں۔ اگر وہ ماں ہے تو بچوں کی تربیت اس نہج پر کرے کہ بچے معاشرہ کا سرمایہ بن سکیں۔ اگر استاد ہے تو ام المومنین کی زندگی پر عمل پیرا ہوکر حسن نیت اور حسن اخلاص کے ساتھ دنیا میں تعلیم پھیلائیں

تاکہ دنیا جنت کا گہوارہ بن جائے۔ لہذا ہمیں ہر مشکل میں ام المومنین نے طرز عمل کی طرف لوٹنا ہوگا۔ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا کرنا ہوگا۔ تب ہی ہم دنیا اور آخرت میں سرخرو و کامیاب ہوسکتے ہیں۔