راہِ نوردِ شوق: بیگم مہناز رفیع سے خصوصی انٹرویو

انٹرویو: ام حبیبہ، نازیہ عبدالستار

پاکستان بننے سے لے کر اب تک بہت سی خواتین کے نام پاکستان کی سیاست کا حصہ رہے ہیں۔ ان میں کچھ خواتین نے تو صرف موروثی سیاست کے تحت اس میدان میں قدم رکھا مگر بعض خواتین ایسی ہیں جنہوں نے اپنی محنت، لگن سے اپنا مقام بنایا اور کامیابیوں کا سفر طے کیا یہ سفر یقینا آسان نہیں ہے خصوصاً پاکستان کی سیاست میں تو یہ بدرجہ اتم مشکل ہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت بیگم مہناز رفیع صاحبہ ہیں۔ آپ کے والد چوہدری محمد رفیع کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ وہ قائداعظم محمد علی جناح کے بے لوث ساتھی اور مسلم لیگ (یوپی) کے جوائنٹ سیکرٹری رہے مگر بیگم مہناز رفیع نے صرف اپنے والد کے بل بوتے پر نہیں بلکہ محنت و لگن سے اپنی کامیابیوں کا سفر طے کیا۔ پاکستانی سیاست پر ان کی گہری نظر و شمولیت کی وجہ سے ماہنامہ دختران اسلام اس شمارے میں محترمہ مہناز رفیع کا خصوصی انٹرویو شائع کررہا ہے۔

اپنی ابتدائی زندگی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بیگم مہناز رفیع نے کہا کہ میں نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسۃ البنات سے حاصل کی۔ ایف ایس سی گلبرگ کالج سے جبکہ گریجویشن لاہور سے کیا۔ میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی لیکن میری یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ میں چونکہ سکول کے زمانہ سے ہی وہ گرلز گائیڈ کا حصہ رہی لہذا وہیں سے مجھے ریڈیو میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے 100 سے زائد ڈراموں میں کام کیا۔ ا س کے ساتھ ساتھ خواتین، بچوں اور سماجی امور کے حوالے سے لاتعداد پروگراموں میں حصہ لیا۔

عملی سیاست کے آغاز سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ 1976ء میں میں نے تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کی وہیں سے اپنی عملی سیاست کا آغاز کیا۔ سیاسی میدان میں محسوس کیا کہ عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ جاگیردار اپنی بیٹیوں کی شادیاں قرآن سے کردیتے تاکہ ان کی جائیداد کسی دوسرے کے پاس نہ چلی جائے۔ اسلام نے عورتوں کو وراثت میں حصہ دیا ہے مگر اسے اس سے محروم رکھا جاتا ہے۔

تحریک نظام مصطفیa کے دوران خواتین کے جلسوں کو منظم کیا اور نظر بندی کی صعوبتیں برداشت کیں۔ حقوق انسانی کے تحفظ اورجمہوریت کی بحالی کے لیے طویل جدوجہد کی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں تین بار جیل بھی گئی۔ 1999ء میں پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ بعد ازاں میں تحریک استقلال پنجاب کی صدر رہی۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں تحریک نجات میں بھرپور جدوجہد کی۔ 2003ء میں پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی۔ پھر میں قومی اسمبلی میں ترقی خواتین کی مجلس قائمہ کی چیئر پرسن ہیومن رائٹس سوسائٹی پاکستان کی نائب صدر، ویمن رائٹس کمیشن کی چیئر پرسن اور جیلوں کی ریفارمز کمیٹی کی رکن بھی رہی۔ 2001ء میں وزیراعظم کے ہمراہ سارک ممالک کا دورہ بھی کیا۔ اس وقت میں پاکستان تحریک انصاف کا حصہ ہوں۔

بیگم مہناز رفیع مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو پاکستانی عورت کے لیے ایک رول ماڈل تصور کرتی ہیں۔ جب نظریہ پاکستان ٹرسٹ نے سال 2003ء کو مادر ملت کے سال کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اس ضمن میں فعال کردار ادا کیا۔ اسی طرح 2001 کو سال قائداعظم اور 2002ء کو سال علامہ محمد اقبال کے طور پر مناتے وقت بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ انہی گرانقدر قومی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے بورڈ آف گورنرز کی رکن مقرر کیا گیا۔

بطور ممبر قومی اسمبلی انہوں نے عورتوں کے لیے قانون سازی کروائی، اسمبلیوں میں عورتوں کے لیے 17 فیصد سیٹس جبکہ لوکل گورنمنٹ میں 33 سیٹیں مختص کرائیں۔ لوکل گورنمنٹ میں عورتوں کے لیے اپنے حقوق کی شناخت کے لیے ادارے بنوائے جہاں پر عورتوں کے حقوق سے آگاہی کے لیے لیکچرز دیئے جاتے ہیں۔ گھر میں بیٹھ کر کام کرنے والی عورتوں کے لیے ایک ہنر ایک نگر کے نام سے پروگرام کا آغاز کیا ہے۔

قیام پاکستان میں خواتین کے کردار سے متعلق انہوں نے کہا کہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان کی کامیابی کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا اس میں عورتوں کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ خود قائد تحریک نے محسوس کیا جب تک عورتیں تحریک پاکستان میں حصہ نہیں لیں گی آزادی کا حصول ممکن نہیں۔

پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے جو لوگ سیاست میں شامل ہوتے تھے وہ نظریاتی تھے لیکن اب سیاست موروثی سیاست میں تبدیل ہوچکی ہے۔ جس سے سیاست چند خاندانوں میں مرکوز ہوکر رہ گئی ہے جبکہ مخلص، باکردار اور اعلیٰ صلاحیت کے حامل لوگ موجودہ سیاسی نظام میں سروائیو نہیں کر پارہے۔ اب سیاست میں ایسے لوگ آرہے ہیں جو نظریہ پاکستان سے واقف نہیں ہیں بلکہ ذاتی مفاد کو قومی مفادات پر مقدم رکھتے ہیں۔

مزید انہوں نے کہا کہ میں نے سیاست میں اور دیگر شعبوں میں کام کیا ہے مگر مجھے سب سے زیادہ خوشی و اطمینان عورتوں کے لیے کام کرکے حاصل ہوتا ہے۔ وقت اور تعلیم کے ساتھ عورتوں کے حالات میں بہتری آئی ہے لیکن اتنی نہیں آتی جتنی آنی چاہئے تھی۔ میں اس وقت تین NGO's کے ساتھ کام کررہی ہوں جس میں ہوم نیٹ، شرکت گاہ اور عورت فائونڈیشن ہے جو بڑی نیک نیتی سے عورتوں کے حقوق کے لیے کام کررہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے عورتوں کے حقوق کی بحالی کے لیے ادارے بنائے جائیں۔ انہیں مضبوط کیا جائے کیونکہ ایک شخص سب کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتا۔

ملک میں بہتری کے لیے تجاویز دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں بہتری کی سب سے اہم ذریعہ تعلیم ہے۔ تعلیم کے بغیر ذہنوں میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ دوسری اہم بات طبقاتی تقسیم کو ختم ہونا چاہئے ادارے قائم ہیں لیکن سیٹوں پر وہی لوگ براجمان ہیں جو پہلے حکومت کرتے تھے۔ وہ صرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے کام کرتے ہیں ملکی اور عوام کے فائدے سے ان کو کوئی سروکار نہیں۔ صوبے کے مجسٹریٹ کو چاہئے کہ وہ پارٹی کے ڈسپلن کو استعمال کرتے ہوئے مہنگائی کو کنٹرول کرے جبکہ غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ مہنگائی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ بے شک مہنگائی بڑھ رہی ہے لیکن ٹیلی ویژن بھی صحیح معلومات عوام تک ہی پہنچا رہے جس کی وجہ سے بھی عوام میں اشتعال انگیزی بڑھ رہی ہے۔

نوجوان نسل میں نظریہ پاکستان سے آگاہی کے فقدان پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان میں حب الوطنی کے مفقود ہونے کی وجہ مغرب سے مرغوبیت ہے۔ ہماری نوجوان نسل مغرب کی دلدادہ ہورہی ہے اور مذہبی و دینی اقدار کو فرسودہ سمجھتی ہے جبکہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ مذہب انسان کو جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے دوسری مذہب کی دوری کی بنیادی وجہ آج کل کے نام نہاد علماء کرام جو دین کی صحیح تعلیمات کو نوجوانوں تک پہنچانے میں قاصر ہیں۔ تیسری اہم وجہ موبائل کا کثرت سے استعمال ہے جو نوجوان نسل کی تربیت میں اہم رکاوٹ ہے پھر والدین بھی بچوں کی تربیت سے بری الذمہ ہوتے جارہے ہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تعلیمی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے اندرون و بیرون ملک ایسے تعلیم مراکز متعارف کروائے ہیں جس میں دین اور دنیا کے علوم کو پڑھایا جاتا ہے اور ایسی کھیپ ہی معاشرہ کی فلاح و بہبود میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔ قرآنی انسائیکلو پیڈیا جو ان کا عظیم علمی شاہکار ہے۔ جس میں ایک موضوعات پر تمام آیات کو جمع کیا گیا ہے جس کا انگلش میں بھی ترجمہ منظر عام پر آچکا ہے۔

منہاج القرآن ویمن لیگ کے شعبہ جات کے حوالے سے انہوں نے کہا پاکستان میں ایسی تنظیمیں بہت کم ہیں جو منظم انداز میں پاکستان اور بیرون ممالک میں اپنا نیٹ ورک چلا رہی ہیں۔ بالخصوص بچوں کا شعبہ ہمیشہ نظر انداز ہوتا جس طرح بچوں کی تربیت پر منہاج القرآن ویمن لیگ کام کررہی ہیں، خواتین کی امپاورمنٹ کے حقیقی تصور پر Woice، ایم ایس ایم سٹوڈنٹس کی اخلاقی و فکری تربیت پر کام کررہی ہے وہ قابل تحسین ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ویمن ایمپاورمنٹ پر جو عملی قدم اٹھایا ہے اس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔

آخر میں انہوں نے قارئین کو پیغام دیا کہ تبدیلی اس وقت آئے گی جب عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی آئے گی۔ تبدیلی کا مطلب پیسہ نہیں بلکہ تعلیم و تربیت ہے۔ تبدیلی اس وقت آئے گی جب لوگوں پر محنت کریں گے۔ تبدیلی اس کا نام نہیں ہے کہ کسی کو راشن کارڈ پکڑا دیئے جائیں، بنیادی تبدیلی عام آدمی کو تعلیم کے ساتھ ہنر سکھانے میں ہے یہی بات قائداعظم نے 1947ء میں کہی تھی کہ

’’ہنر سیکھو، اپنے لیے، خاندان کے لیے اور ملک کے لیے‘‘۔

ہمارے معاشرہ میں ہنر مند کی کوئی عزت نہیں ہے۔