تحریک کے لاکھوں کارکنان کیلئے رول ماڈل۔۔۔ عدنان جاوید

قاضی فیض الاسلام

سوئے ہوئے بمشکل 45 منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ’’اٹھیں واپس جانا ہے‘‘ کی خفیف سی آواز میرے کانوں کے پردوں سے ٹکرائی مگر گہری نیند سے بیدار کرنے میں ناکام رہی۔ دوبارہ کی گئی کوشش سے میں جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ جملہ تھا ’’عدنان جاوید صاحب فوت ہوگئے‘‘۔ اٹھنے کے باوجود مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ ادھر ادھر دیکھا تو مغربی کھڑکیوں سے باہر مظفر آباد کے پہاڑ مجھے پیغام دے رہے تھے کہ یہ خواب نہیں ہے۔ فقرے کی حقانیت کا یقین لینے کے لیے میں نے نائب ناظم اعلیٰ رانا فیاض صاحب جو شدت غم سے سر جھکائے بیٹھے تھے، سے پوچھا ’’کیا کہا آپ نے‘‘؟ انہوں نے گلوگیر آواز میں آخری فقرہ دہرادیا۔ میرے ذہن میں آندھیاں چلنے لگیں اور دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ میں پاگلوں کی طرح کمرے میں موجود بیدار اور سوئے ساتھیوں کو گھور رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟

کم و بیش 48 گھنٹے قبل اپنی رہائش گاہ سے دو منٹ پیدل کی مسافت پر عدنان جاوید کے گھر عیادت کے لیے گیا تھا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس تحریک منہاج القرآن محترم عبدالرحمن اور برادر فرحان جاوید ان کی دیکھ بھال اور خدمت پر مامور تھے اور سینٹرل پنجاب کے سیکرٹری فنانس بابر سیہول بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ان کا زندگی سے بھرپور ہنستا مسکراتا شاداب چہرہ دیکھ کر آیا تھا، جس پر اللہ کی شکر گزاری اور اطمینان واضح لکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے میرے سامنے لیٹے لیٹے آفس کے کچھ ضروری کاغذات پر دستخط بھی کئے تاکہ دفتری امور میں ہلکی سی رکاوٹ بھی نہ آنے پائے۔ ان کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے میں ان کے بیڈ کے کنارے پر بیٹھا رہا تھا، مجھے کیا معلوم تھا کہ ان کے نرم و نازک ہاتھ کا لمس اور ا ن کی پیاری آواز مجھے آخری دفعہ نصیب ہورہی ہے۔ زیادہ دیر رکا نہیں مبادہ ان کے آرام میں مخل نہ ہوں۔ واپسی پر میری زبان پر اللہ کا بہت شکر اور ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعائیں تھیں۔

تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کے تقریباً 65 عہدیداران و ذمہ داران لاہور سے آزاد کشمیر (وادی نیلم) کی چند روزہ سیاحت کے لیے مظفر آباد پہنچے ہی تھے کہ جدائی کی اس خبر نے قیامت صغریٰ مچادی۔ میرے لیے مظفر آباد کا سفر دوسری مرتبہ قلب و روح کو زخمی کرنے کا باعث بنا۔ موجودہ کرب کسی طور پر بھی 2005ء میں آنے والے زلزلہ کے بعد تباہی کے مناظر دیکھنے سے کم نہ تھا۔ سیاحت کے لیے نکلے مرکزی عہدیداران و ذمہ داران یہ روح فرسا خبر سننے کے بعد ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر گویا یہ پوچھ رہے تھے کہ اس خبر پر کیسے یقین کیا جائے؟ مگر ان کی اداسی اور عجیب و غریب خاموشی چغلی کھارہی تھی کہ اس وقت عدنان جاوید بھائی کا ہنستا مسکراتا چہرہ ہر کسی کے تخیل کا مرکز بنا ہوا ہے۔ لاہور واپسی کے لیے 12 گھنٹوں کی طویل مسافت میں ہر کوئی ان کے ساتھ گزری خوشگوار یادوں میں گم تھا۔ منہاج یونیورسٹی لاہور کے اکاؤنٹس منیجر محترم علی محی الدین جو عدنان جاوید کے خالہ زاد بھائی ہیں کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ واپسی کے سفر پر رواں اکثر ساتھیوں کی کھلی اور بند آنکھوں سے بہنے والے آنسو گواہی دے رہے تھے کہ عدنان بھائی ایک مہربان اور ہر دلعزیز بادشاہ کی طرح ہر کسی کے دل پر خاموش حکمرانی کررہے تھے مگر چھپی ہوئی اس بادشاہی کو آج ان کی جدائی نے آشکار کردیا تھا۔

محمد عدنان جاوید منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی سیکرٹریٹ میں ڈائریکٹر فنانس کے انتہائی اہم اور حساس عہدہ پر گذشتہ 7 سال سے فائز تھے۔ انہوں نے اس ذمہ داری کو وفاداری، وقار اور بہترین صلاحیت کے بھرپور استعمال سے اس طرح نبھایا کہ ان کا خلاء کوئی فرد واحد تو کبھی پر نہ کرسکے گا۔ البتہ چند ذہین، باصلاحیت اور محنتی پروفیشنلز آنے والے وقت میں مل کر اس عظیم نقصان کی تلافی کے قابل ہوسکیں۔ مشن کے بہترین مفاد کے لیے کامل دیانتداری کے ساتھ ایک ایک لمحہ گزارنا ان کی پہلی اور آخری ترجیح ہوا کرتی تھی۔ سالانہ عالمی میلاد کانفرنس، دس روزہ اعتکاف، اجتماعی قربانی، منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن اور اسی طرح دیگر پراجیکٹس کے فنڈز کے لیے ناظم اعلیٰ اور دیگر قائدین کے ساتھ مل کر پلاننگ کرنا اور اہداف کے حصول اور انہیں زیادہ سے زیادہ نتیجہ خیزی کے لیے خرچ کرنے کے سارے عمل میں ان کا کلیدی رول ہوتا تھا۔ وہ جنونی انداز میں کام کرتے تھے مگر انکا چہرہ ان کے باطنی احساسات اورجذبات سے کلیتاً مختلف، انتہائی پرسکون ہوتا تھا۔ البتہ پراجیکٹس کے لیے مالیاتی اہداف کے حصول کے بعد وہ انتہائی عاجزی سے بالائی قیادت کو خوشخبری سناتے تو ان کی باطنی خوشی ان کے چہرے کی بشاشت سے واضح جھلک رہی ہوتی۔ اعلیٰ قیادت کے ساتھ مسائل ڈسکس کرتے تو ان کے حل کے لیے ان کی فائل میں ایک سے زائد آپشنز موجود ہوتی تھیں۔

بین الاقوامی سطح پر حضور شیخ الاسلام کی شاندار کامیابیوں کے موقع پر ان کی خوشی دیدنی ہوتی اور وہ فرط جذبات سے تحریک کے عہدیداران و کارکنان سے گلے مل کر اپنی خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے۔ ایسے مواقع پر اکثر راقم کو بازو سے پکڑ کر اپنے ساتھ آفس لے جاتے اور بار بار تفصیلات پوچھتے اور اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتے۔ او آئی سی کی ریاض میں ہونے والی حالیہ کانفرنس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطاب کے بعد وہ بہت زیادہ پرجوش اور خوش تھے۔ وہ اس بڑی کامیابی اور مستقبل میں مشن کی مزید کامیابیوں پر کافی دیر گفتگو کرتے رہے۔ حضور شیخ الاسلام کی تاریخ ساز شخصیت کی کسی بھی جہت کا ذکر ہوتا وہ انتہائی انہماک اور کمال شوق سے سنتے اور کئی دفعہ ایسا ہوا کہ اپنے آفس میں بیٹھے ان ہی موضوعات پر بات چیت کے دوران سٹاف کا کوئی فرد آجاتا تو کہہ دیتے کچھ دیر ڈسٹرب نہ کریں، میں ضروری بات کررہا ہوں۔ ابھی آپ کو خود بلا لوں گا۔ نشست برخاست ہوتی تو فوراً متعلقہ عہدیدارا کو آواز دیتے کہ آجائیں۔

وہ حقیقی معنوں میں ایک لیڈر تھے انہوں نے حضور شیخ الاسلام کے اس فلسفہ کو دل و دماغ میں جاگزیں کرلیا تھا کہ سالوں کی محنت اور عرق ریزی سے حاصل ہونے والی صلاحیت اور اختیارات کو حقیقی معنوں میں تقسیم کرنا اور اپنی مسلسل نگرانی اور رہنمائی میں قابل ٹیم بنانا اور اسے بڑھاتے چلے جانا ہی اصل کامیابی ہے۔ انہوں نے 20 کے قریب نوجوانوں کو اسی اصول کے تحت اپنا دست و بازو بنایا۔ کئی دفعہ مالیات کے تینوں دفاتر میں وہ خود اپنے جونیئرز کو موقع پر سمجھاتے اور انتہائی سلجھے انداز سے سرزنش کرتے بھی دکھائی دیتے۔ وہ ٹیم کے ہر نوجوان کو اعلیٰ تعلیم جاری رکھنے میں بڑے بھائی کی طرح معاون تھے۔ آٹھ MBA,s اور چار ایم فل (جن کی تکمیل قریب ہے) ان کی ٹیم کا حصہ ہیں ان سب کی تعلیمی ترقی کی وجہ عدنان جاوید ہی تھے۔

ان کی زبان پر اکثر انگلش کے دو الفاظ ہوتے No Issue۔ ان کا یہ سٹائل دوسروں کو یہ کہہ رہا ہوتا تھا کہ یہ آپ کا نہیں میرا مسئلہ ہے۔ میں اسے ضرور حل کروں گا۔ وہ اپنے عمل سے دوسروں کو پیغام دیتے کہ بڑی سے بڑی مشکل اور رکاوٹ انسان سے شکست کھانے کے لیے ہے۔ وہ ایسا کہہ کر اپنی ٹیم کو یہ احساس دلاتے تھے کہ غلطیوں کے باوجود مسلسل محنت ہی کامیابی کی سیڑھیاں چڑھاتی ہے۔ وہ غلطیوں سے سیکھنے والے کو مزید اعتماد دیتے تھے۔ وہ مزاج آشنا تھے اور ہر کسی کو اس کی طبیعت کے مطابق ڈیل کرتے تھے اس لیے ان کی ٹیم میں 70 سالہ بزرگ اور نوجوان یکساں ذہنی سکون کے ساتھ فرائض منصبی اداکرتے تھے۔

عدنان جاوید کی شخصیت میں غصہ کا خفیف سا ظہور میں کبھی نہ دیکھا جا سکا۔ تناؤ کے موجودہ ماحول میں یہ غیر معمولی قابل تعریف رویہ تھا۔ یقینا اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا قلب، قلب سلیم تھا اور اس پر نفس کی بجائے روح کی حکمرانی تھی۔ جاہ و منصب کی طلب انہیں چھو کر بھی نہ گزری تھی، عجزو انکساری اور خالص ترین جذبات سے ہم آہنگ مسکراہٹ ان کے بارونق چہرے کا خاصہ تھی جو دوسروں کو پیغام دے رہی ہوتی تھی کہ ان کا باطن سکون اور اطمینان کی دولت سے لبریز ہے۔

مرکزی سیکرٹریٹ، تنظیمات، فورمز، منہاج ویمن کالج، کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز، منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن، منہاج یونیورسٹی، منہاج ایجوکیشن سوسائٹی، آغوش اور دیگر ذیلی اداروں میں فیصلہ سازی میں ان کا مرکزی کردار ہوتا تھا۔ اس لیے وہ ڈائریکٹر فنانس سے بہت بڑھ کر تحریک کی اعلیٰ ترین قیادت میں اہم ستون کا درجہ رکھتے تھے۔ نہایت قلیل مدت میں وہ ناظم اعلیٰ صاحب، مرکزی قائدین اور فورمز کے قائدین کی آنکھوں کا تارہ بن گئے تھے۔ میں اکثر سوچتا کہ ’’ڈائریکٹر فنانس کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے‘‘۔ مختلف فورمز اور تعلیمی اداروں کو مالی استحکام کی طرف بڑھانے میں ان کا بہت بڑا کردار تھا بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ شیخ الاسلام کی توجہ کا وہ مرکز تھے جس کی وجہ سے عدنان جاوید اور برکت لازم و ملزوم ہوگئے تھے۔ درجنوں مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ ہمیشہ پرعزم رہتے اور موجودہ ذمہ داری کے تناظر میں ہر کوئی گواہ ہے کہ انہوں نے روایتی انداز سے ہٹ کر مشکلات کو آسانیوں میں بدلنے میں بنیادی رول ادا کیا۔ تحریکی ساتھیوں کے معاملات حل کرنے کے لیے وہ اپنے اختیارات سے بڑھ کر کردار ادا کرتے اور مختلف متبادل آپشنز کے ذریعے مسئلہ حل کرنے تک چین سے نہ بیٹھتے۔ فیملی ممبران کے ذریعے پہلے خود حصہ ڈال کر مددکرنے کی ان گنت مثالیں بھی ان کا توشہ آخرت ہیں۔ اکثر ایسے انداز سے مسئلہ حل کردیتے جو بظاہر ناممکن ہوتا تھا۔ اس طرح وہ ایک خاموش خدمت گار تھے اس عمل سے وہ اپنے لیے سکون اور انرجی حاصل کرتے تھے اور مشن کی خوب سے خوب تر خدمت کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ وہ اس انرجی کو بڑھاتے رہنے کے بھی قائل تھے تاکہ اخلاص اور درد مندی سے جاری ان کے خدمت کے جذبے کو حدت ملتی رہے۔

کسی کام سے ان کے آفس جانے یا فون کرنے پر معلوم ہوتا وہ ’’آغوش‘‘ میٹنگ کے لیے گئے ہیں، فلاں بینک کے اعلیٰ افسر آئے ہیں ان کے ساتھ بیٹھے ہیں، شریعہ کالج یا منہاج ویمن کالج میں میٹنگ کے لیے گئے ہیں۔ ان میں ایک انتھک روح تھی جو ان کے جسم کو متحرک رکھتی تھی۔ فنانس کمیٹی، سینٹرل ورکنگ کونسل، کور کمیٹی، مرکزی نائب صدر، ناظم اعلیٰ، ڈائریکٹر DFA، ڈائریکٹر ایڈمن، نائب ناظم اعلیٰ کوآرڈینیشن اور دیگر نائب ناظمین اعلیٰ، پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی اور صوبائی قائدین کون سا ایسا فورم اور شخصیت تھی جو ان کے بغیر کسی کام کو آگے بڑھاتی وہ لازم و ملزوم ہوگئے تھے۔ باوجود اس کے کہ ایک وقت میں درجن کام چل رہے ہوتے تھے اللہ نے انہیں ان مصروفیات کے باوجود دو سے تین گھنٹوں میں اپنے آفس ورک کو روزانہ کی بنیاد پر نبٹانے کا ملکہ دے رکھا تھا۔ اکثر وہ اس وقت بھی دفتر میں بیٹھے ہوتے جب مرکز پر چند افراد ہی رہ گئے ہوتے تھے۔

زندگی میں ایک غفلت یقینا ان سے ہوتی رہی، اس کا سبب بھی ان کی تحریکی زندگی کی نہ ختم ہونے والی مصروفیات ہی تھیں۔ وہ اپنی صحت کا اچھا خیال نہ رکھ سکے اور اپنے اندر چھپی اور پنپتی ہوئی خطرناک بیماری کا بروقت ادراک اور تدارک نہ کرسکے البتہ وہ ایسے باصلاحیت، ذہین اور انتہائی پروفیشنل صحت مند افراد سے بدرجہا بہتر تھے جن کی منزل دنیاوی مناصب اور آسائشوں کے حصول تک محدود ہوتی ہے اور ان کی زندگی مقصدیت سے کلیتاً خالی ہوتی ہے۔ عدنان جاوید نے تحریک منہاج القرآن جیسی اجتماعیت میں گو بہت کم زندگی گزاری مگر وہ لاکھوں کارکنان اور قائدین کے لیے رول ماڈل بن کر داعیِ عدم کو لبیک کہہ گئے۔

32 سال کی نوعمری میں وہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی تحریک کی مرکزی قیادت میں اہم ترین مقام بنا چکے تھے۔ انہوں نے جو منصب حاصل کرلیا تھا انہیں شائد اس کا خود بھی احساس نہ تھا کیونکہ وہ تو اور آگے اور آگے کے سفر میں ایسی سوچ کو بھی قریب نہیں پھٹکنے دیتے ہوں گے۔ حقیقت میں یہی رویہ انسان کو بلندیاں عطا کرتا ہے۔ عدنان جاوید کم عمری میں ہی بڑا مقام حاصل کرچکے تھے۔ نماز ظہر اور عصر وہ اکثر چیئرمین سپریم کونسل کی غیر موجودگی میں ان کے آفس میں پڑھتے۔ محترم امتیاز حسین اعوان اور دیگر احباب ان کی سسکیوں اور مناجات کے گواہ ہیں۔ وہ ایک چھپے ہوئے صوفی تھے۔ اللہ بھی یقینا ان سے راضی ہوچکا تھا اس لیے تو اخروی نعمتوں اور اپنا دیدار عطا کرنے کے لیے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ یہ حقیقت ہے کہ مزاج کی سادگی اور عجز و انکساری کے حسن نے ان کی شخصیت کی درجنوں جہتوں اور ہمارے درمیان دبیز پردہ حائل کر رکھا تھا جو ان کی جدائی نے مکمل طور پر ہٹا دیا ہے۔

گذشتہ 25 سال میں راقم نے حضور شیخ الاسلام اور ان کے نور نظر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کو کسی فرد کی رحلت پر اس قدر غمگین اور دل گرفتہ نہیں دیکھا جنازہ اور تدفین کے موقع پر حضور شیخ الاسلام کی دعا نے خود ان کے قلب اطہر میں پنہاں غم کی شدت کو جس طرح عیاں کیا اس سے وہاں موجود ہر شخص کا سینہ پھٹا جارہا تھا۔ حضور شیخ الاسلام اور ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، شیخ حماد مصطفی اور شیخ احمد مصطفی العربی کی شدت غم بتارہی تھی کہ محترم عدنان جاوید کے لیے خاندانِ القادریہ کی شدید ترین محبت کس درجہ کی ہے۔ عدنان جاوید کے اخلاص اور وفاداری کو منہاج القرآن کا ہر کارکن بوسہ دیتا ہے اور اُن کے مقدر پر نازاں و فرحاں ہے۔

جنازہ میں شرکت کے لیے چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری خصوصی طور پر لندن سے تشریف لائے اپنے قیام کے دوران شب و روز انہوں نے عدنان جاوید کی ہی باتیں کیں۔ ان ہی کی یادوں کو دہرایا۔ ان ہی کے اوصاف حمیدہ کا ذکر کیا اور سب سے کمال شوق اور محبت سے سنا بھی۔ غم کی شدت سے لبریز سینے کے باوجود انہوں نے محدود جلوت میں بھی جس طرح ضبط قائم رکھا یہ اُن ہی کا خاصہ ہے۔

صدق، اخلاص، وفاداری، امانت، دیانت، خدمت، فراست و بصیرت، بردباری، کمال درجہ عجز و انکساری، حیاء اور تقویٰ سے مزین عدنان جاوید بھائی کا سفر آخرت دیدنی اور قابل رشک تھا۔ جانا تو سب نے ہے مگر وہ جس طرح روانہ ہوئے ایسی روانگی لاکھوں کروڑوں میں کسی ایک کا مقدر ہوتی ہے۔

حضور شیخ الاسلام نے جنازے کے بعد ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے دعا کے دوران جو الفاظ استعمال فرمائے وہ عدنان جاوید ہی کا نصیب تھے۔ کسی بڑے سے بڑے تحریکی قائد، عہدیدار یا کارکن کے لیے ایسی دعا راقم نے کبھی نہیں سنی۔ جنازہ اور تدفین کے مناظر کا ہر لمحہ منہاج ٹی وی کی کہنہ مشق ٹیم کے ذریعے حضور شیخ الاسلام نے لندن میں دیکھا۔ یہ منظر بھی پہلی دفعہ دیکھنے کو ملا۔ تدفین کے بعد انہیں حضور شیخ الاسلام نے جن دلی کیفیات اور دعاؤں کے ساتھ اللہ کے سپرد کیا اس کو بیان کرنا احقر کے لیے ممکن نہیں۔ اتنا ضرور عرض کروں گا کہ عدنان جاوید کے جنازہ میں شرکت کرنے والے بھی بہت خوش نصیب ہیں۔ حضور شیخ الاسلام نے حق فرمایا کہ عدنان جاوید (جنت میں ہمیشہ رہنے والا) کی قبر سے اردگرد کی قبور کو بھی فیوض و برکات نصیب ہوں گے اور عدنان جاوید ان میں سے ہوں گے جو اپنے خاندان کی شفاعت کا باعث بنیں گے۔

عدنان جاوید یقینا اپنے نام کے معنی اور مفہوم کو بہت زیادہ جانتے تھے اس لیے انہوں نے اپنے عمل صالح اور تقویٰ سے اس کی لاج رکھی اس لیے میں یہ ضرور کہوں گا کہ عدنان۔۔۔۔ جاوید ہوگئے!

آخر میں دعا گو ہوں کہ عدنان جاوید کی قبر پر ہمیشہ کروڑوں رحمتوں کی برسات ہوتی رہے۔ اللہ اور اس کے رسولa ہر لمحہ ان کے درجات میں بلندی کے سلسلہ کو جاری رکھے۔ بارگاہ الوہیت سے حضور شیخ الاسلام کی فیملی، عدنان جاید کے والدین، بھائی، ہمشیرگان اور خاندان کے دیگر افراد اور منہاج القرآن فیملی کے لاکھوں سوگواران کو اس عظیم صدمہ پر صبر کی وافر دولت میسر ہو۔ (آمین ثم آمین)