فرمانِ الٰہی و فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

فرمانِ الٰہی

فِیْهِ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَج وَمَنْ دَخَلَهٗ کَانَ اٰمِنًاط وَﷲِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلاًط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اﷲَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ. قُلْ یٰٓـاَهْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اﷲِصل وَﷲُ شَهِیْدٌ عَلٰی مَا تَعْمَلُوْنَ.

(آل عمران، 3: 97-98)

’’اس میں کھلی نشانیاں ہیں (ان میں سے ایک) ابراہیم (علیہ السلام) کی جائے قیام ہے، اور جو اس میں داخل ہوگیا امان پا گیا، اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، اور جو (اس کا) منکر ہو تو بے شک اللہ سب جہانوں سے بے نیاز ہے۔ فرما دیں: اے اہلِ کتاب! تم اللہ کی آیتوں کا انکار کیوں کرتے ہو؟ اور اللہ تمہارے کاموں کا مشاہدہ فرما رہا ہے‘‘۔

(ترجمه عرفان القرآن)

فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَیْنَةَ، جَائَتْ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ، فَلَمْ تَحُجَّ حَتَّی مَاتَتْ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ حُجِّي عَنْهَا، أَرَأَیْتِ لَوْ کَانَ عَلَی أُمِّکِ دَیْنٌ أَکُنْتِ قَاضِیَةَ؟ اقْضُو ﷲَ، فَاﷲُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ (قبیلہ) جُہَینہ کی ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا: میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی یہاں تک کہ فوت ہوگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں تم اس کی طرف سے حج کرو۔ بھلا بتاؤ تو اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا نہ کرتیں؟ پس اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو کیونکہ وہ زیادہ حق دار ہے کہ اُس کا قرض ادا کیا جائے۔‘‘

(المنهاج السوّی، ص: 482)