تحریک پاکستان میں خواتین کا کردار

ڈاکٹر فرخ سہیل

تحریک پاکستان کے حوالے سے خواتین کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ ابتداء میں تو چند مسلم خواتین ہی اپنے اپنے علاقوں میں خدمات انجام دے رہی تھیں لیکن تحریک پاکستان کے حوالے سے خواتین کا کردار ابھر کر اس وقت سامنے آیا جب 1938ء میں قائداعظم کی طرف سے آل انڈیا مسلم لیگ خواتین کی سب کمیٹی قائم کی گئی اور اس سلسلے میں ہر صوبے سے اُن تجربہ کار خواتین کو نامزد کیا گیا جو پہلے سے ہی تحریک آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھیں۔

اس طرح خواتین کے اندر بیداری اجاگر ہوئی اور ملک کے کونے کونے سے باپردہ خواتین نے بھی مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کرنا شروع کردی اور پھر پورے ہندوستان کے ہر ضلع اور ہر صوبہ میں خواتین کی باضابطہ کمیٹیاں قائم ہوگئیں۔ با پردہ خواتین اپنے اپنے علاقوں میں جاتیں اور ان کو گھروں میں جاکر مسلم لیگ کارکن بنالیتیں اور یوں بے شمار خواتین جو آزادی کے نام سے بے خبر تھیں مسلم لیگ اور تحریک پاکستان سے اچھی طرح روشناس ہوتی چلی گئیں اور ہر ایک نے اپنے اپنے حلقے میں کام کرنا شروع کیا۔ اس حوالے سے کمسن بچیوں کو بھی حصول آزادی اور حاصل ہونے والے ملک کی بقا و سلامتی کے لیے جدوجہد کرنے کا جذبہ بیدار کیا جاتا۔

اس زمانے میں ہندوستان میں مسلمان بچیوں اور بچوں کے سکولوں کی تعداد بہت کم تھی۔ لہذا ضرورت کے مطابق مسلم لیگ کی سرکردہ خواتین سب کمیٹی کے زیر نگرانی دو کمروں پر مشتمل سکول قائم کردیتیں۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے معتبر تعلیمی اداروں مثلاً علی گڑھ میں مسلم گرلز کالج بھی معرض وجود میں آیا اور یوں اس ادارے کی فارغ التحصیل خواتین مختلف تعلیمی اداروں اور دیگر شعبوں میں اپنی کارکردگی دکھانے کے قابل ہوگئیں اور اس کے علاوہ ناخواندہ خواتین کے لیے بھی تعلیم بالغاں کے مختلف ادارے قائم ہوئے۔ اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ خواندہ و ناخواندہ ہر قسم کی عورت کے اندر آزادی حاصل کرنے کا ولولہ اور جوش جگایا جائے اور اس حوالے سے تعلیم بالغاں کے لیے کام کرنے والی خواتین بغیر کسی معاوضے کے کام کرتی تھیں ان کو اس سلسلے میں کسی نام ونمود اور صلے کی تمنا نہیں تھی بلکہ خلوص و محبت کا جذبہ تھا جو دن بدن پروان چڑھتا رہا تھا اور یوں ایک دیئے سے ہزاروں دیئے جلتے چلے گئے اور آزادی کی نہ بجھنے والی روشنی کی چکا چوند پورے ہندوستان پر چھاگئی۔

قائداعظم ان خواتین کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہوئے ان کی ہمت بڑھاتے جس کی بنا پر خواتین کا جذبہ دن بدن بڑھتا چلا گیا۔ اس دوران بعض خواتین کے نام بہت معروف ہوچکے تھے کہ اگر کسی جلسے میں منتظمین ان کے ناموں کا اعلان کرتے تو ان کی تقریر کو سننے کے لیے عورتوں کا جم غفیر جمع ہوجاتا کہ منتظمین کو نظم و ضبط برقرار رکھنے کی فکر لاحق ہوجاتی۔

ان خواتین کو اللہ تعالیٰ نے لاتعداد صلاحیتوں سے نوازا تھا کچھ خواتین تقریر کے فن کی ماہر تھیں، کوئی چندہ جمع کرنے میں ماہر تھیں، کچھ خواتین انتظامی امور کی ماہر تھیں اور بعض خواتین کو اللہ تعالیٰ نے لکھنے پڑھنے کی صلاحیت ودیعت کی تھی۔

1946ء میں دہلی میں خواتین کا اجلاس منعقد ہوا جس میں اعلان کیا گیا کہ آج محترم قائدہمارے درمیان موجود ہیں اور وہ آپ سے خطاب فرماتے ہیں۔ خواتین کا جوش ولولہ قابل دید تھا۔ ہر طرف نعرہ تکبیر اور قائداعظم زندہ باد کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ قائداعظم نے عورتوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ:

’’مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ سب متحد ہیں اور دراصل آپ کا اتحاد ہی بہت بڑی چیز ہے۔ آپ کا یہ اتحاد اور تنظیم ہی ہمیں باہم کامیابی تک پہنچاسکتا ہے۔ آپ نے بہت زیادہ کام کئے مگر میری ہدایت ہے کہ آپ اور زیادہ متحد ہوجائیں اور اس سے بھی زیادہ جوش و خروش سے کام کریں‘‘۔

1947ء میں جب پنجاب مسلم لیگ نے لاہور میں حکومت کے خلاف تحریک سول نافرمانی شروع کی تو پنجاب کی خواتین نے بڑے بڑے جلوس نکالے اور ان مظاہروں کے دوران بہت سی خواتین کوجیل بھیج دیا گیا اور بالآخر 1947ء میں تقسیم ہند کے موقع پر جب ہندو مسلم فسادات برپا ہوئے تو لاتعداد مسلم خواتین نے امدادی کیمپوں میں پناہ گزینوں کی خبر گیری کی اور ان بے گھر افراد کو ضرورت کی اشیاء فراہم کیں۔ فرسٹ ایڈ کا بندوبست کیا گیا اور بالآخر 14 اگست کے بعد ہندوستان میں پھنسے رہنے والے افراد کو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنی گاڑیوں سے نکال نکال کر پرامن مقامات پر پہنچایا۔ قیام پاکستان کے بعد ان خواتین نے اپنی انتھک محنت لگن اور قربانی کے جذبے سے اپنے نام کو اس قدر روشن کیا کہ آج بھی ان کا نام عزت و عذمت کا حامل ہے اور ان میں سے بہت سی خواتین ملک کی سماجی کارکن بھی ہیں۔

ان بہادر نامور خواتین میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے علاوہ بی اماں جو کہ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی والدہ تھیں کا نام قابل ذکر ہے اور ایک اور نام جو کہ پاکستان کی تاریخ کا بہت ہی خوبصورت باب بن گیا وہ ہے فاطمہ صغریٰ، جس کی بہادری قابل قدر اور قابل ذکر ہے کہ جس نے ایک جلسے میں خواتین پر لاٹھی چارج کے دوران جرات و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیکرٹریٹ دیوار گیر پائپ سے اوپر چڑھ پر پاکستان کا پرچم لہرادیا۔

فاطمہ صغری نے پھر تازہ کیا ایمان کو
لرزہ براندام بے شک کردیا شیطان کو
زندہ باد اے دختران ملک و ملت زندہ باد

ان بہادر خواتین کے علاوہ نورالصباح بیگم، بیگم شائستہ اکرام اللہ، لیڈی نصرت عبداللہ ہارون، لیڈی وقار النساء نون اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کے نام قابل تحسین ہیں۔

بیگم سلمیٰ تصدق حسین، بیگم حسرت موہانی، بیگم قاضی عیسیٰ، بیگم غلام حسین ہدایت اللہ اور بیگم گپتی آرائ، بیگم خورشید عبدالحفیظ، بیگم شمس النہار محمود، انجمن آراء بیگم، بیگم زائد قریشی، بیگم شاہنواز، ذکیہ بیگم تقویٰ، بیگم مولانا محمد علی جوہر کے علاوہ چند اور بہادر اورجانثار خواتین ہیں جن کا نام تحریک پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا گیا۔

مرحبا اے ماؤں، بہنوں، بیٹیو صد مرحبا
تم نے آگے بڑھ کے مردوں کا بڑھایا حوصلہ

ہند کے اسلام کا پھر بول بالا کردیا
پھر نہ کیوں ہر ایک دل سے آج یہ نکلے صدا

زندہ باد اے دختران ملک وملت زندہ باد
زندہ باد اے دختران ملک وملت زندہ باد