قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قانونی اور سیاسی زندگی

ڈاکٹر عشرت افضل

بانی پاکستان قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ محمد علی جناح ایک غیر متنازع، بے داغ سیاسی لیڈر اور بلند پایہ وکیل تھے۔ قابلیت اور عظمت کے اعتبار سے ان کا شمار صدی کے عظیم لیڈران میں ہوتا ہے۔ بحیثیت وکیل آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کامیابیوں کا اعتراف دوست کے ساتھ ساتھ دشمن بھی کرتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹائے مگر وکیل بننا آپ کا ذاتی انتخاب تھا۔

23 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا لنکن ان میں بار ایٹ لاء کے لیے داخلہ کیوں لیا کیونکہ لنکن ان کے ہال میں دنیا کے عظیم قانون دانو ں میں ایک نام ہمارے پیارے نبی حضرت محمدa کا بھی تھا۔

بیس سال کی عمر میں انہوں نے بمبئی سے بطور وکیل پریکٹس شروع کی اور اپنی خداداد صلاحیتوں سے بہت نام بنایا۔ بحیثیت وکیل قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کو بہت پذیرائی ملی۔ 1908ء میں بمبئی کی میونسپل کارپوریشن میں (الیکشن میں) Sir Pheroze shd mehla کی طاقت کو توڑنے کے لیے بمبئی کے اکائونٹنٹ جنرل CH. Harriren نے ایک اتحاد بنایا اس طرح سے Sir Pherosha کو کونسل سے باہر کیا جاسکتا تھا۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے نہ صرف یہ کیس جیتا بلکہ ایک اپنے آپ کو ایک بہترین بیرسٹر کی حیثیت سے منوایا بھی۔

اس طرح سے 1908ء میں بال گندھار تلک جن کا تعلق کانگریس سے تھا ان کو بغاوت کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ سے رابطہ کیا۔ قائداعظم اس وقت انہیں ضمانت پر رہائی تو نہ دلواسکے مگر 1916ء میں جب تلک کو دوبارہ گرفتار کیا گیا تو قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ انہیں باعزت بری کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ اپنی زندگی میں کوئی کیس نہیں ہارے سوائے ’’غازی علم دین شہید کیس کے‘‘۔ جس میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ راجپال نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بری طرح مجروح کیا ہے جبکہ علم دین تو صرف بیس سال کا نوجوان ہے لہذا عدالت پھانسی کی سزا کو عمر قید میں بدل دے۔ یہ کیس انہوں نے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے کہنے پر لڑا مگر وہ علم دین کو بچانے میں ناکام رہے اور ایک سچا عاشق رسولa پھانسی کے پھندے پر جھول کر امر ہوگیا۔

قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے کسی بھی پہلو کا اگر ہم مطالعہ کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر میدان کے فاتح تھے۔ ناکامی وہ واحد لفظ تھا جس کے بارے میں نہ انہوں نے کبھی سوچا اور نہ وہ ان کی زندگی میں آیا، کیونکہ ان پر اللہ کا خاص فضل تھا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

قدرت کی طرف سے ہم سب پر جب رحمت کا امکان بنا
تو علم تدبر کا مالک تقدیر سے اک انسان بنا

اس شخص نے دنیا کے آگے ہم سب کی وکالت ایسے کی
دنیا کی عدالت میں لوگوں وہ سب کی پہچان بنا

یہ نام نبی کی برکت تھی اور اسم علی کی قوت تھی
اس شخص کے آگے ٹک نہ سکا کوئی بھی گر شیطان بنا

اک فہم و فراست سے اس نے جذبوں کی قیادت ایسے کی
وہ قائداعظم کہلایا اور بانی پاکستان بنا

قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی میں جو کچھ کیا اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور قیام پاکستان اس کی سب سے تابندہ مثال ہے۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1906ء میں دادا بھائی نوروجی کے سیکرٹری کی حیثیت سے کیا۔ آپ میدان سیاست میں بھی اپنی فہم و فراست، مدبرانہ صلاحیتوں اور سیاسی بصیرت کی بدولت نہایت قلیل عرصے میں برصغیر میں ایک عظیم لیڈر کے طور پر ابھرے۔

آپ نے 1913ء میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور سات سال کے عرصے تک دونوں جماعتوں کے مشترکہ ممبر رہے۔ اس دوران قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کو مشہور میثاق لکھنو منظور ہونے پر مسز سروجنی سائیڈو کی جانب سے ’’ہندو مسلم اتحاد کا سفیر‘‘ قرار دیا گیا مگر کانگرس اور ہندوئوں کے متعصبانہ رویوں کی وجہ سے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے بالآخر 1920ء میں کانگرس سے اپنی راہیں جدا کرلیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ 1924ء میں مسلم لیگ کے مستقل صدر منتخب ہوئے۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالتے ہی اسے ایک عظیم عوامی سیاسی جماعت میں تبدیل کردیا۔ یہ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی مدبرانہ صلاحیتوں کا ہی نتیجہ تھا کہ 23 سال کے مختصر عرصے میں آپ نے انگریزوں اور ہندوئوں کو مسلمانوں کی علیحدہ سیاسی اور معاشرتی حیثیت ماننے پر مجبور کردیا۔ پاکستان کا دنیا کے نقشے پر ایک آزاد مسلم ریاست کی حیثیت سے ابھرنا بلاشبہ محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے قائداعظم ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ وہ عظیم لیڈر تھے کہ جب گورنر جنرل پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے تو ڈیڑھ روپے کے موزے لینے سے بھی انکار کردیا اور کہا کہ ایک غریب مسلمان ملک کے سربراہ کو اتنی مہنگی چیز نہیں پہننی چاہئے۔ یہ وہی محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے قیام پاکستان کے بعد اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ طبیعت کی خرابی کے باوجود اس ملک کے انتظامی ڈھانچے کو کھڑا کرنے، ابتدائی مشکلات کو ختم کرنے اور ملک و قوم کی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مصروف کردیا۔ ایک مرتبہ سرکاری استعمال کے لیے 37 روپے کا فرنیچر منگوایا گیا قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے جب فہرست دیکھی تو سات روپے کی کرسیاں اضافی تھیں پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ محترمہ فاطمہ جناح نے منگوائی ہیں۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس کے پیسے فاطمہ جناح سے لیے جائیں۔

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق بالکل بجا فرمایا تھا کہ اس شخص (محمد علی جناح) کو نہ تو خریدا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ شخص خیانت کرسکتا ہے۔ آج کا پاکستان ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ نیک نیتی، دیانت داری، دل نواز سخن، دور اندیشی، امت کا احساس، محنت اور اخلاص جو قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے نمایاں پہلو ہیں ہر سیاست دان کو اپنانے چاہئیں کیونکہ یہی وہ ہتھیار ہیں جو ایک سیاست دان کو لیڈر بناتے ہیں اور زندگی کے ہر میدان میں فتح کے لیے ضروری ہیں۔