اداریہ: سید الشہدا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے دی جانیوالی عظیم قربانی

چیف ایڈیٹر

محرم الحرام کا مہینہ دین اسلام کی تجدید و احیاء کیلئے اہل بیت اطہار کی طرف سے دی جانیوالی عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ سید الشہدا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی میدان کربلا میں دی جانیوالی قربانی اور یزیدی نظام حکومت کے خلاف انکے ارشادات اور خطابات قیامت تک کیلئے کلمہ حق کی علامت کے طور پر ہمارے ایمان کی حفاظت کرتے رہیں گے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے جس وقت کوفہ ہجرت کا قصد کیا اُس وقت یزید کا ظلم اور ہوس اقتدار اپنی انتہائوں کو پہنچی ہوئی تھی وہ کھلم کھلا شعائر اسلام کا مذاق اڑا رہا تھا، دین محمدی کی طے کی گئیں شرعی حدود و قیود کو پامال کر رہا تھا، ریاست کے اختیار اور وسائل کو ذاتی نمود و نمائش اور بے جا اصراف کی نذر کر رہا تھا۔ اسلام کے دیانت، صداقت اور امانت پر مبنی اقتدار کی اعلیٰ و عرفاء روایات، اقدار اور احکامات کے برعکس اس نے شخصی آمریت قائم کر لی تھی، خوشامدیوں اور کاسہ لیسوں کو دربار یزید میں عہدے اور عزت و تکریم ملتی تھی۔ خوشامد نہ کرنیوالوں کو نشان عبرت بنایا جارہا تھا اس بدبخت کے عہد اقتدار میں عظیم المرتبت صحابہ کرام کو بھی شہید جاتا رہا انصاف کی جگہ یزیدی فرامین نے لے لی تھی۔ شراب نوشی، قمار بازی، اقربا پروری، ظلم و جور یزیدی طرز حکمرانی کی شناخت بن چکے تھے۔ یہ وہ حدود اللہ اور شعائر اسلام کی کھلم کھلا پامالی تھی جس پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے احیائے دین کا علم بلند کیا اور امت محمدی میں دینی غیرت و حمیت زندہ کرنے کیلئے سفر کوفہ کا ارادہ فرمایا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ یہ جانتے تھے کہ وہ جس عظیم مقصد کیلئے کوفہ کی طرف جا رہے ہیں اسکی قیمت بہت بھاری ہے تاہم اہل حق کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہر قیمت پر کلمہ حق بلند کرتے ہیں۔ دین محمدی قربانیوں سے پھلا پھولا اور آج 14 سو سال بعد لازوال قربانیوں کے نتیجے میں ہم تک پہنچا اور ایثار و قربانی کے ذریعے ہی قیامت تک سر بلند رہے گا۔ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ ساری انسانیت کیلئے بہترین نمونہ ہے۔ خاتم المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف اپنے اہل و عیال اور قرابت داروں سے پیار کرتے تھے بلکہ انہوں نے اہل ایمان کو اہل بیت سے محبت اور انکی عزت و تکریم کرنے کا حکم بھی صادر فرمایا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت اطہار فضیلت اور مقام و مرتبہ میں بہت بلند تر ہیں انکی طہارت و پاکیزگی، ان سے محبت اور بلندی مراتب کا بیان بارگاہ خداوندی سے نازل ہوا ہے ارشاد ربانی ہے کہ بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے اہل بیت تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک میں تم میں دو نائب چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب جو کہ آسمان و زمین کے درمیان لٹکی ہوئی رسی کی طرح ہے اور میری عترت یعنی میرے اہل بیت، یہ دونوں اس وقت تک ہر گز جدا نہیں ہونگے جب تک یہ میرے پاس حوض کوثر پر نہیں پہنچ جاتے۔ گویااہل بیت سے بغض رکھنا اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بغض رکھنے کے مترادف ہے، جن کے قلوب و اذہان خاتم المرسلین کے اہل بیت کی عقیدت و الفت سے مزین نہیں ہیں وہ اسلام کی حلاوت سے کوسوں دور ہیں وہ اپنا محاسبہ اور اپنے ا یمان کی فکر کریں۔ جوکج فہم سید الشہدا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور انکے قافلہ کے سفر کوفہ اور اسلام کیلئے دی جانیوالی عظیم قربانیوں پر تاویلیں کرتے ہیں وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذکورہ فرمان ذہن نشین رکھیں کہ اللہ کی کتاب اور میرے اہل بیت کبھی جدا نہیں ہو سکتے۔ آج حسینی فکر بھی زندہ ہے اور یزیدی سوچ بھی موجود ہے، آج بھی ایسے عناصر کی کمی نہیں ہے جو دین محمدی کے اصل چہرے کو معاذ اللہ مسخ کرنے کے درپے رہتے ہیں، ایسے عناصر کے مقابلہ کیلئے واقعہ کربلا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی اور فکر نسخہ کیمیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو حسینی فکر کی ایمانی دولت سے مالا مال کرے اوراللہ تعالیٰ ہمیں حق کے راستے پر ثابت قدم رکھے۔ (آمین)