فکر شیخ الاسلام: پیغامِ شہادتِ امام حسین علیہ السلام

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

اِنَّمَا یُرِیْدُ ﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًاo

بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔

(الأحزاب، 33: 33)

اللہ تعالی کا ارادہ تو فقط یہ ہے کہ وہ اہل بیت کی اس درجے کی طہارت کرے کہ وہ سراسر پیکر طہارت بن جائیں۔

عبداللہ بن نجی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ حضرت مولیٰ علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کے قافلے میں تھے، جب جنگ صفین ہوئی جب کربلا کے قریب سے گزرے تو حضرت مولیٰ علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور فرمایا: اے میرے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ اس فرات کے کنارے صبر کرنا تو حضرت نجی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اے علی رضی اللہ عنہ یہ کیا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ ایک دن میں حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ میں نے عرض کیا آقا علیہ السلام کیا ماجرا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابھی میرے پاس سے جبریل امین اٹھ کے گئے ہیں، مجھ سے بیان کر رہے تھے کہ دریائے فرات کے کنارے حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید کئے جائیں گے۔ تو میں نے کہا کہ جبریل کیا ممکن ہے کہ میرا بیٹا حسین رضی اللہ عنہ جہاں شہید ہو گا اس سرزمین کی مٹی مجھے دے دو تاکہ میں اسے سونگھ لوں۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضرت جبریل امین آقا علیہ السلام کے پاس موجود تھے اور اس وقت امام حسین رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، اُس وقت بہت چھوٹے شہزادے تھے آقا علیہ السلام کے گود میں کھیل رہے تھے۔ جبریل امین نے پوچھا: آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا حسین علیہ السلام سے آپ بہت محبت کرتے ہیں؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا: ہاں جبریل مجھے حسین رضی اللہ عنہ سے بڑی محبت ہے۔ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا ایک گروہ ان کو شہید کر دے گا۔ اگر آپ چاہیں تو میں اُس زمین کی مٹی بھی لا کر آپ کو دیکھا دوں جس میں یہ شہید کئے جائیں گے تو آقا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ انہوں نے مجھے وہ مٹی لا کر دکھائی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے وہ مٹی لاکر دی۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا یہ روایت کرتی ہیں کہ آقا علیہ السلام نے وہ مٹی مجھے دے دی تھی اور میں نے سنبھال کر رکھ دی تھی اور فرمایا تھا: جس دن یہ مٹی خون میں بدل جائے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سمجھنا میرا بیٹا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہو گیا۔ تو آپ نے دیکھا وہ مٹی خون میں بدل گئی تھی۔

(جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3771)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اونٹوں کے نقش و نگار کی کملی پہن کر بیٹھ جانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ میری اہل بیت صبر کرنا ایک وقت آئے گا کہ یہ میرا حسین رضی اللہ عنہ و میری اہل بیت کے شہزادے اور شہزادیاں اونٹوں کے کجاوں پر بٹھائے جائیں گے، کٹے سر، پریشان حال ہوں گے، اونٹوں کے کجاوں پر ان کی سواریاں دمشق کے بازاروں سے گزاری جائیں گی۔ آقا علیہ السلام خاموش زبان سے اپنے لباس اور عمل کے ذریعے کربلا سے دمشق کا سفر بیان فرما رہے ہیں اور اس وقت یہ فرما رہے تھے کہ یہ میری اہل بیت ہے اے اللہ! تو ان کی حفاظت کرنا۔

(صحیح مسلم، 3: 1349)

ایک روایت میں حضرت ابن ابی نُعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اُنہوں نے فرمایا: کسی نے حضرت عبد اﷲ بن عمر  رضی اللہ عنہا  سے حالت احرام کے متعلق دریافت کیا۔ امام شعبی فرماتے ہیں: میرے خیال میں احرام باندھنے والے نے مکھی مارنے کے بارے میں پوچھا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اہل عراق مجھ سے مکھی مارنے کا حکم پوچھتے ہیں حالانکہ تم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے (امام حسین رضی اللہ عنہ ) کو شہید کر دیا تھا اور حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ دونوں (حسن اور حسین) ہی تو میرے گلشنِ دُنیا کے دو پھول ہیں۔

(اخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن و الحسین، 3: 1371، الرقم: 3543)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا اہل بیت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کون زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ j سے فرمایا کرتے میرے دونوں بیٹوں کو میرے پاس بلائو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو سونگھتے اور اپنے ساتھ لگاتے۔

ایک مرتبہ ایک صحابی آقا علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیار سے جھک کر اس صحابی کے قریب منہ کرکے آیت پڑھ دی اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہن مبارک کی ہوا صحابی کے منہ میں چلی گئی اس صحابی رضی اللہ عنہ کی وفات تک منہ سے خوشبو آیا کرتی تھی اس سے ثابت ہوا کہ صرف ایک بار آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ کی ہوا صحابی رضی اللہ عنہ کے منہ میں چلی جائے تو ساری زندگی صحابی رضی اللہ عنہ کے منہ سے خوشبو نہیں گئی تو حسنین کریمین کے جسموں کاعالم کیا ہوگا جن کے بارے میں آقا علیہ السلام نے فرمایا:

هُمَا رَیْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْیَا.

اس دنیا میں یہی تو میری راحت ہیں اور اگر کوئی انہیں اذیت دے گا تو گویا میری جان کو اذیت دے گا۔

پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے ایک معنی رحمت بھی فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَo

اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔

(الانبیاء، 31: 107)

اس آیت میں اشارہ یہ تھا کہ سارے جہانوں کے لئے رحمت میں ہوں اور میرے لئے رحمت حسن و حسینl ہیں۔

لغت کی کتب میں اُس سردار کو سیّد کہتے ہیں جو اپنی قوم کو مشکلات سے نکالے، قوم کے مصائب و آلام دور کرے، قوم کی مدد کرے، آقا علیہ السلام نے سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: میرا یہ بیٹا سیّد ہے۔ میری امت کی مشکلات کو حل کرے گا۔

جب مسلمانوں کے دو بڑے گروہ آپس میں ٹکرائیں گے اور امت میں ایک بہت بڑا انتشار ہو گا۔ دونوں طرف مسلمان ہوں گے۔ میرا یہ بیٹا اُن میں صلح کرا دے گا۔ جس سے امت کو وحدت اور یکجہتی ملی گی اس لیے اس کو مسلمانوں کی قوم کا سردار یعنی سیّد قرار دیا۔

جب حضرت مولیٰ علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کی شہادت ہو گئی تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے الگ سلطنت بنا لی تھی جبکہ خلافت راشدہ مولیٰ علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور اُن کے بعد چھ ماہ تک سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ پر ختم ہوگئی اب امت دو حصوں میں بٹ گئی تھی، ایک حصہ امت کا جس کا دارالحکومت حرمین شریفین تھا اور ایک دار الحکومت دمشق بن چکا تھا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کہ ’حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ میرا رزق ہیں۔‘ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو رزق اس لیے فرمایا تھا کہ انہوں نے دو گروہوں کو یکجا کر کے امت کو سیاسی وحدت دے کر تاریخی اعتبار سے دین اسلام اور امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نفع پہنچایا جبکہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کی مٹتی اقدار کو اپنی قربانی کے ذریعے زندہ کر کے قیامت تک امت کو نفع پہنچایا جن اقدار کو چودہ سو سال بعد بھی امت یاد کرتی ہے اور انہیں بطور نمونہ مشعل راہ اختیار کرتی ہے۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہادت جیسا عظیم قدم اٹھانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ یزید لعین آقا علیہ السلام کے نظام کو کلیتاً برباد کر رہا تھا اور کفر کورواج دے رہا تھا۔ ایسے حالات میں جو عزیمت کا قدم امام حسین علیہ السلام نے اپنے خانوادے کے ساتھ اٹھایا اور قربانی دی وہ پوری امت مل کر بھی نہ کر سکی۔ سب نے رخصت کی راہ کو اپنایا، خاموشی اختیار کی مگر حسین رضی اللہ عنہ دعوت امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے روانہ ہوئے۔ آقا علیہ السلام کے دین کو بچایا۔

یہی وجہ ہے کہ آقا علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی نہ صرف خبر دی ہے بلکہ عاشورہ کا پورا دن روحانی طور پر کربلا میں خود گزارا ہے۔ ترمذی شریف کی حدیث ہے حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں، عاشورہ کا دن تھا کہ میں نے خواب میں حضور علیہ السلام کو دیکھا آپ کے سرِ انور پر اور داڑھی مبارک پر مٹی تھی۔

میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا ہوا؟ آپ کے سر انور پر گرد ہے؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا: ام سلمہ رضی اللہ عنہا میں ابھی کربلا سے آ رہا ہوں، شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے وقت میں وہاں موجود تھا۔

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں وہ فرماتے ہیں: دوپہر کا وقت تھا میں مکہ معظمہ میں تھا اور میں نے دوپہر خواب میں دیکھا کہ آقا علیہ السلام تشریف لائے۔

گرد آلود چہرہ انور اور سرمبارک تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ایک شیشی تھی اور اُس میں خون تھا جو آپ نے جمع کر کے رکھا تھا۔ میں نے پوچھا: آقا علیہ السلام یہ کیا چیز ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ا بن عباس رضی اللہ عنہ یہ میرے شہزادے حسین رضی اللہ عنہ اور اس کے اصحاب کا خون شہادت ہے جو آج کربلا میں شہید ہوئے ہیں۔ میں ان کے ایک ایک قطرے کو شیشی میں سمیٹتا رہا ہوں۔

عاشور کے دن آقا علیہ السلام میدان کربلا میں تھے۔ حدیث صحیح کے مطابق شہداء کربلائے معلی کے خون کا قطرہ قطرہ جمع کر رہے تھے۔ بعضوں کے ذہنوں میں یہ خیال آسکتاہے کہ وہ 73 شہدا تھے ان کا خون ایک شیشی میں کیسے جمع کرلیا؟ تو یہ نادانی ہوگی۔ آقا علیہ السلام تو 1500 صحابہ کے لیے غسل اور وضو کا پانی ایک لوٹے میں جمع فرما دیتے تھے۔ اور 73 صحابہ کے لئے دودھ ایک پیالے میں جمع فرما دیتے تھے۔ یہ آقا علیہ السلام کے معجزات میں سے ہیں وہ چاہیں تو لاکھ آدمی کا خون ایک شیشی میں جمع فرمالیں۔

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: کہ اللہ تعالیٰ نے آقا علیہ السلام کے قلب اطہر پر ایک وحی بھیجی۔ فرمایا: کہ میں نے زکریا علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو جب شہید کیا گیا تو اس کا بدلہ ستر ہزارجانوں سے لیا اور آپ کے شہزادے حسین رضی اللہ عنہ کا بدلہ میں ایک لاکھ چالیس انسانوں کے ذریعے لوں گا۔

جب امام عالی مقام شہید ہو گئے تو عبداللہ بن زیاد براہ راست اس شہادت میں ملوث تھا۔ عمارہ بن عمیر سے امام ترمذی روایت کرتے ہیں: جب بنو عباس کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے بنو امیہ سے شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا بدلہ لیا۔ مختار بن ابی عبیدہ الثقفی رضی اللہ عنہ نے عبیداللہ بن زیاد کو قتل کرنے اور اس کی فوج سے جنگ کرنے کے لیے ابراہیم ابن عُشتر النخعی کو بھیجا۔ا۔

چنانچہ ابراہیم بن اشتر النخعی نے جنگ میں اپنے ہاتھوں سے ابن زیاد کو قتل کیا۔ اس کا سر کاٹا گیا اور اس کے لوگوں کے بھی سر کاٹے گئے اور اسی طرح نیزوں پر چڑھائے گئے جس طرح امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب اہل بیت میں سے ان کے سر انور چڑھائے گئے تھے۔ ابن زیاد کے لشکر کے سر کاٹ کر مسجد میں ڈھیر لگایا گیا۔جب یزید بدبخت کے پاس امام عالی مقام کا سر انور اور شہدائے کربلا کے سرانور پہنچے تھے تو وہ بھی بدبخت اپنا تخت جامع مسجد اموی میں لگا کر بیٹھا تھا۔

اللہ نے قاتلین حسین رضی اللہ عنہ سے بدلہ اس طرح سے لیا کہ جب سروں کا ڈھیر لگایا گیا تو اسی دوران اچانک ایک آواز بلند ہوئی تمام حاضرین کے سامنے بہت بڑا سانپ آیا اس نے سارے سروں کو سونگھا ایک ایک سر کے پاس گیا عبیداللہ بن زیاد کے سر کو تلاش کر کے اس کے نتھنوں میں گھس گیا، کچھ دیر اندر رہا پھر نکل گیا۔

دو یا تین مرتبہ اس سانپ نے ایسا کیا، اس کو ڈستہ رہا۔ یہ پوری دنیا کے سامنے بدلہ ہوا پھر وہ کٹا ہوا سر ابن زیاد کا مختار ثقفی کے پاس بھیج دیا ابراہیم اشتر نے کہا اس بدبخت کو تو دیکھ لو اور مختار ثقفی نے اس کے سر کو عبداللہ بن زبیر کے پاس بھیج دیا تاکہ سب کو دیکھایا کہ یہ بدبخت لعین ہے، عبداللہ بن زبیر نے وہ کٹا ہوا سر سیدنا امام زین العابدین علی بن الحسین کے پاس مدینہ میں بھیج دیا آپ نے فرمایا: ہم اس کے ساتھ کچھ نہیں کرتے جو اس نے ہمارے ساتھ کیا تھا۔

اس بدبخت کے سر کو واپس مکہ معظمہ لایا گیا اور اس کا سر نصب کر دیا گیا تاکہ لوگ دیکھیں اور پتھر ماریں اور اس کے باقی جسم کو جلا دیا گیا۔ یہ آقا علیہ السلام کا وہ فرمان کہ کس طرح ان بدبختوں سے اللہ بدلہ لے گا۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو وہ دوزخ میں آگ کے تابوت میں رکھا گیا ہے اور پوری دنیا کے جتنے دوزخی انسان ہیں ان میں سے آدھے دوزخیوں کے عذاب کے برابر عذاب صرف قاتل حسین رضی اللہ عنہ کو مل رہا ہے۔

لہٰذا حضور علیہ السلام کے اصحاب، اہل بیت اطہار سب کے ساتھ محبت، تکریم واجب ہے بلکہ ایمان کا حصہ ہے۔ دنیا میں انہوں نے جو قربانیاں دیں، تکالیف اٹھائیں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت ان کو الاٹ کر دی اور ان سے محبت کرنے والے غلاموں کو عطا کر دی۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنی زندگی ان کے نقش قدم پر گزارنی چاہئے، اپنی سیرت اور زندگی میں ان جیسا تقویٰ پرہیزگاری، دین سے محبت اور ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے اسوہ کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے۔ اپنی عزت وعفت کی حفاظت کرنی چاہئے اور ہر وقت طہارت کو اپنا شعار بنانا چاہئے۔ دین کی عظیم مجاہدات بن کر وہ کردار ادا کرنا چاہئے جو سیدہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے ادا کیا کہ اپنے جوان بھائی کی علم بردار بنیں۔