انکار بیعت سے شہادت عظمیٰ تک

ڈاکٹر فرخ سہیل

60ھ میں جب یزید تخت نشین ہوا تو مدینہ کا والی ولید بن عتبہ بن ابوسفیان تھا اس وقت یزید کی پوری توجہ صرف ان لوگوں پر مرکوز تھی جنہوں نے اس کے والد کے عہد میں بیعت سے انکار کیا تھا۔ لہذا یزید نے والیٔ مدینہ کو خط لکھا کہ

’’جب میرا خط تمہیں ملے تو حسین بن علی رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن زبیر کو طلب کرو اور اُن سے میری بیعت لو۔ اگر وہ منع کریں تو ان کی گردنیں کاٹ دو اور ان کے سر میرے پاس بھیج دو اور عوام الناس سے بیعت لو اور جو بھی منع کرے اس کے ساتھ یہی کرو۔‘‘

ولید نے امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو یزید کا خط سنایا اور بیعت کی دعوت دی امام نے جواباً فرمایا:

’’جہاں تک بیعت کی بات ہے تو مجھ جیسا شخص خفیہ بیعت نہیں کرسکتا۔‘‘

اس بات کو سن کر مروان بن حکم نے ولید کو مشورہ دیا کہ انہیں واپس جانے سے روکو اور ان سے بیعت لو رونہ قتل کردو۔

یہ سن کر امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’اے امیر ہم بیت نبوت کے اہل ہیں اور رسالت کا معدن ہیں ہم فرودگاہ ملائکہ ہیں اور رحمت کے نزول کا محل ہیں سلسلہ ہدایت کو اللہ نے ہم سے آغاز کیا اور ہم پر ہی اس کا اتمام کیا۔ یزید جو کہ ایک فاسق، شرابی ہے نفس محترم کا قاتل اور علانیہ فسق و فجور کرنے والا ہے۔ مجھ جیسا اس کی بیعت نہیں کرسکتا‘‘۔

ولید سے ملاقات کے کچھ عرصہ بعد امام رضی اللہ عنہ نے اپنے نانا کے شہر کو چھوڑنے کا قصد فرمایا۔ ایک رات امام حسین رضی اللہ عنہ قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر زیارت کے لیے تشریف لائے اور نماز و نوافل ادا کرنے کے بعد قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لپٹ کر اللہ تبارک وتعالیٰ سے مناجات کرنے لگے کہ:

’’اے جلال و اکرام والے اللہ میں تجھے اس قبر اور صاحب قبر کے حق کا واسطہ دیتا ہوں میرے لیے وہ اختیار فرما جس میں تیری رضا ہو اور تیرے رسول کی رضا ہو‘‘۔

اس کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ رات کی تاریکی میں اپنی والدہ ماجدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنے بھائی امام حسن رضی اللہ عنہ کی قبر مطہر پر تشریف لائے اور سلام وداع کیا۔

امام حسین رضی اللہ عنہ مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرچکے تھے لہذا انہوں نے اپنے خاندان والوں کو اس فیصلے سے آگاہ کیا۔ بنو ہاشم اور اصحاب حسین رضی اللہ عنہ غم زدہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ آج کا دن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا اور علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کے انتقال جیسا دن ہے۔

کاروان حسینی رات کی تاریکی میں عام سفر ہوا۔ امام رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ فی الحال تو میں مکہ جارہا ہوں۔ مکہ پہنچ کر بعد کے مرحلوں کے لیے اللہ سے طلب خیر کروں گا اور دعا فرمائی کہ:

’’یا بار الہٰا! میرے لیے امور میں سے بہترین امر کو منتخب فرما۔‘‘

مکہ میں قیام کے دوران امام کو کوفہ سے مسلسل خطوط موصول ہورہے تھے لیکن امام جواباً سکوت اختیار کئے ہوئے تھے یہاں تک کہ خطوط بارہ ہزار تک پہنچ گئے۔ امام حسین نے اپنے عم زاد مسلم بن عقیل کو بلاکر تمام صورت حال سے آگاہ کیا اور کوفہ کی طرف روانہ کیا۔ مسلم بن عقیل جب کوفہ پہنچے تو اٹھارہ ہزار کے قریب اہل کوفہ نے ان کی بیعت کرلی اس کامیابی کو دیکھتے ہوئے مسلم بن عقیل نے امام کو خط کے ذریعے کوفہ آنے کی دعوت دی لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد کوفیوں نے یزید کے خوف سے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑ دیا اور پھر انہیں قید کرکے شہید کردیا گیا۔ اسی طرح ان کے دونوں بیٹوں کو بھی بے دردی سے شہید کیا گیا۔

ادھر مکہ مکرمہ میں امام عالی مقام کو یہ اطلاع ملی کہ یزید کی طرف سے مقرر تیس افراد حاجیوں کے بھیس میں آپ کے قتل کے لیے مکہ پہنچ رہے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یزید نے عمرو بن سعید بن عاص کی سربراہی میں ایک لشکر روانہ کیا ہے اور اسے یہ حکم دیا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ تمہیں جہاں بھی ملے انہیں قتل کردیا جائے۔ ان اطلاعات کے باعث امام نے آٹھ ذی الحجہ کو حج کا فریضہ ادا کئے بغیر مکہ کو چھوڑنے کا ارادہ کیا تاکہ حرم پاک کی سرزمین ان کے خون سے رنگین نہ ہوجائے۔ دوران سفر ہی حضرت مسلم کی شہادت کی خبر موصول ہوئی۔ سفر کرتے کرتے امام حسین وادیٔ نینوا میں داخل ہوئے یہ وادی کوفہ کے علاقوں میں سے ایک ہے۔ اسی میں کربلا واقع ہے کربلا میں امام رضی اللہ عنہ کا وورد 9 محرم کو ہوا۔

محرم کی تین تاریخ کو کو عمر بن سعد اپنے چار ہزار فوجیوں کے ہمراہ کربلا پہنچا اور قاصد کے ذریعے ابن زیاد کا خط امام حسین کو پہنچایا جس میں درج تھا:

’’اے حسین رضی اللہ عنہ مجھے اطلاع مل گئی ہے کہ آپ کربلا پہنچ گئے ہیں اور مجھے امیر یزید نے خط لکھا ہے کہ میں جب تک تمہیں اللہ کے پاس نہ بھیج دوں میں خوراک خوب سے بچتا رہوں گا۔ دوسری صورت میں تم میرے اور یزید بن معاویہ کے حکم کو تسلیم کرو‘‘۔

امام حسین رضی اللہ عنہ نے خط کو پڑھ کر پھینک دیا اور ارشاد فرمایا کہ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں اس لیے کہ وہ تو کلمہ عذاب کا مستحق ہے۔

اس جواب کو سن کر ابن زیاد نے امام کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دے دیا اور اپنے خیموں کو امام حسین رضی اللہ عنہ کے خیموں کے قریب ہی ایستادہ کیا اور یزید کے حکم پر فرات کو اپنے قبضہ میں کرلیا یوں حسین رضی اللہ عنہ اور اصحاب حسین پر پانی کی ناکہ بندی کردی گئی جس کی ذمہ داری عمر بن حجاج اور اس کے ساتھ پانچ سو سواروں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی اور حکم تھا کہ پانی کا ایک قطرہ بھی حسینی خیمہ گاہ تک نہ پہنچ پائے۔

9 محرم کو کربلا میں حسین اور اصحاب حسین کو ہر طرف سے گھیر لیا گیا۔ امام حسین رضی اللہ عنہ  نے ابوالفضل العباس کو لشکر یزیدی کی طرف یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ان لوگوں سے کہو کہ اگر ممکن ہو تو کل تک جنگ کو موخر کردیں اور ہمیں ایک رات کی مہلت دی جائے۔ یہ مہلت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس لیے مانگی تھی تاکہ اس عبادت کریں اور اللہ سے مدد مانگیں۔

لہذا عمر سعد نے ایک قاصد کے ذریعے کہلوایا کہ ہم نے تمہیں کل تک کی مہلت دی اگر تم مان گئے تو ہم تمہیں ابن زیاد کے پاس لے جائیں گے اور اگر انکار کیا تو تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔ نو محرم کی شب کو امام حسین نے اپنے اہل خاندان اور ساتھیوں کو بلاکر اللہ سے دعا طلب فرمائی:

’’یا بارالہٰا! میں تیرا سپاس گزار ہوں کہ تو نے ہمارے خاندان کو نبوت سے سرفراز کیا اور ہمیں علم قرآن سے نوازا اور دین کے فہم سے مالا مال کیا۔ پس ہمیں تو اپنے شکر گزاروں میں قرار دے پھر ارشاد فرمایا کہ کل ان دشمنوں سے میری جنگ ہوگی میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم سب چلے جاؤ یہ رات تمہارا پردہ ہے بس اسی کو سواری بنالو اور تم میں سے ہر شخص میرے خاندان کے ایک شخص کا ہاتھ تھام لے اور پھر تم اپنے اپنے علاقوں اور شہروں میں پھیل جاؤ یہاں تک کہ اللہ تمہیں سہولتیں فراہم کرے۔ یہ دشمن میری جان کے دشمن ہیں۔ جب مجھے پالیں گے تو دوسروں کی فکر نہیں کریں گے۔‘‘

اہل خاندان اور اصحاب نے جواباً عرض کیا کہ سبحان اللہ اگر ہم ایسا کریں گے تو لوگ ہمیں کیا کہیں گے کہ ہم نے اپنے سردار اور بزرگ کو مصیبت کے وقت چھوڑ دیا۔ خدا کی قسم ہم ایسا نہیں کریں گے بلکہ ہم اپنی جان، مال اور اپنے عزیزوں کو آپ کی راہ میں قربان کریں گے، آپ کے ساتھ مل کر جنگ کریں گے اور آپ جہاں جائیں گے ہم آپ کے ساتھ جائیں گے۔ ہم آپ کے ساتھ رہیں گے۔ آپ کے بعد ہمارے لیے زندگی بدتر ہے۔ امام عالی نے فرمایا کہ تم میں سے جو بھی ہماری نصرت کرے گا اور ہم سے آفتوں کو دور کرے گا وہ کل جنت میں ہمارے ساتھ اور خدا کے غضب سے محفوظ رہے گا۔ میرے جد رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ میرا بیٹا حسین رضی اللہ عنہ یک و تنہا اور پیاسا سرزمین کربلا پر شہید ہوگا اور جو اس کی مدد کرے گا اس نے میری مدد کی اور اس کے بیٹے قائم آل محمد کی مدد کی اور جو اپنی زبان سے ہماری مدد کرے گا وہ حشر میں ہمارے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

روایات میں ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے وہ رات اس طرح گزاری کہ ان کے خیموں سے تلاوت و اذکار کی آوازیں شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ کی مانند بلند تھیں اور وہ لوگ پوری رات رکوع و سجود اور قیام و قعود میں رہے۔

امام حسین رضی اللہ عنہ اور اصحاب نے اگلے دن کا آغاز صبح کی نماز سے کیا مورخین کے بقول پانی نہ ہونے کے سبب سب نے تیمم کیا اور امام کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد امام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ اللہ کی تقدیر یہ ہے کہ تم جہاد کرو تو تقویٰ اور صبر کو شعار بناؤ۔

اتنے میں یزید کا لشکر برسر پیکار ہوگیا اور آوازیں آنا شروع ہوگئیں کہ یا جنگ کرو یا ابن زیاد کی بات مان لو۔ امام حسین نے بھی اپنے مختصر سے لشکر کی ترتیب و تنظیم کی اور لشکر کا علم اپنے بھائی ابوالفضل العباس کو عطا فرمایا اور ایک ناقہ پر سوار ہوکر انتہائی بلند اور پُر اثر آواز میں دشمن کی فوج کو انتہائی بلیغ خطبہ فرمایا:

’’تم میرے نسب پر غور کرو کہ میں کون ہوں اور پھر اپنے نفسوں پر نگاہ ڈالو اور انہیں سرزنش کرو اور پھر غور کرو کہ میرا قتل اور ہتکِ حرمت کیا تمہارے لیے درست ہے؟ کیا میں تمہارے نبی کی بیٹی کا بیٹا اور نبی کے وصی کا فرزند نہیں ہوں۔ کیا حمزہ سیدالشہدا میرے چچا نہیں ہیں؟ کیا جنت میں دو پروں سے پرواز کرنے والے جعفر میرے چچا نہیں ہیں۔ کیا تم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول میرے اور میرے بھائی کے بارے میں نہیں پہنچا کہ یہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہیں؟ اب اگر تم میری بات کو جھٹلاؤ گے تو ابھی وہ لوگ تم میں موجود ہیں کہ اگر ان سے پوچھو گے تو وہ تمہیں بتلائیں گے۔ پوچھو جابر بن عبداللہ انصاری، ابو سعید خدری، سہل بن سعد ساعدی، زید بن ارقم اور انس بن مالک سے وہ تمہیں بتلائیں گے کہ انہوں نے میرے اور میرے بھائی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ بیان سنا ہے۔ کیا یہ قول رسول تمہیں میری خوں ریزی سے روکنے کے لیے کافی نہیں ہے۔‘‘

امام حسین رضی اللہ عنہ کا یہ خطبہ اتنا پرتاثیر تھا کہ دشمن کو محسوس ہوا کہ کہیں ان کی فوجوں میں انتشار نہ برپا ہوجائے لہذا فوج کے سرداروں نے شور مچاکر خلل پیدا کرنے کی کوشش کی اور ابن سعد نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے اس خطاب سے لشکر میں بغاوت ہوسکتی ہے۔ امام نے خطبہ کے بعد سوال کیا کہ عمر ابن سعد کہاں ہے؟ اسے بلاؤ پسر سعد نہ چاہتے ہوئے بھی امام کے سامنے آیا۔ آپ نے اس سے پوچھا کیا تم مجھے قتل کرو گے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارا سر کوفہ میں نیزے پر نصب کیا جائے گا اور لڑکے اس پر سنگ زنی کریں گے۔ ابن سعد یہ سن کر آگ بگولا ہوگیا اور مڑ کر اپنی فوج سے مخاطب ہوا کہ کس بات کا انتظار ہے سب مل کر حملہ کرو۔ یہ لوگ ایک لقمہ سے زیادہ نہیں ہیں اور ابن سعد نے کمان میں تیر رکھ کر لشکر حسین کی طرف پھینکا اور کہا کہ تم لوگ گواہی دینا کہ حسین کی طرف پہلا تیر میں نے پھینکا تھا۔

دونوں طرف جنگ شروع ہوگئی اصحاب حسین ایک ایک کرکے میدان میں کام آئے بالآخر امام کے رشتہ دار اور بیٹے بھی شہید کردیئے گئے۔ اب بچوں، عورتوں اور بیمار بیٹے سجاد رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی نہ بچا تو آپ نے استغاثہ کی آواز بلند کی کہ:

’’ہے کوئی جو رسول اللہ کے اہل حرم سے دشمنوں کو دفع کرے ہے کوئی اللہ کا ماننے والا جو ہمارے استغاثہ پر لبیک کہے جو اللہ کی رضا کا طالب ہو‘‘۔

اس کے بعد آپ نے اپنے دائیں بائیں نگاہ دوڑائی جب کسی کو نہ پایا تو آسمان کی طرف سربلند کرکے عرض کی:

یا بارِ الہٰا! جو تیرے نبی کے بیٹے کے ساتھ ہورہا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ  کا یہ استغاثہ اگرچہ کربلا کے میدان میں بلند ہوا لیکن وارثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پوری کائنات میں گونجی کائنات کے سارے عوالم سے لبیک کی صدائیں بلند ہوئیں لیکن آپ نے نصرت قبول کرنے پر شہادت کو ترجیح دی۔

عاشور کا سورج زوال پذیر ہوچکا تھا۔ سیدالشہداء نے ہزارہا خونخوار سپاہیوں کی خون آشام تلواروں کا مقابلہ کیا اور لشکر یزید میں کشتوں کے پُشتے لگادیئے۔ فوج یزید نے تنہا امام کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ چار ہزار تیر اندازوں نے آپ پر تیروں کی بارش کردی۔ ایک سو اسی نیزہ برداروں نے مل کر حملہ کیا۔ امام عالی کے جسم اطہر میں تیر اس طرح پیوست تھے جیسے ساہی کے جسم میں کانٹے سرسے پاؤں تک زخمی ہونے کی وجہ سے اتنا خون بہہ چکا تھا کہ آپ پر ضعف طاری ہوگیا اور امام اپنے اسپِ وفادار پر نہ ٹھہر سکے امام جب زین سے زمین پر آئے تو آسمان کی طرف دیکھ کر پروردگار سے عرض کرتے ہیں:

’’پروردگار میں تیرے فیصلے اور امتحان پر صابر ہوں تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، بار الہٰا میں نے اپنا وعدہ پورا کیا اب تو اپنا وعدہ پورا فرما بارگاہ الہٰی سے آواز آئی:

یا ایتها النفس المطمئنه ارجعی الی راضیة مرضیه.

امام نے سجدہ الہٰی میں سرجھکادیا شمر نے اپنی تلوار کی بارہ ضربوں سے آپ کا سر اقدس قلم کرکے نیزے پر بلند کردیا۔ ایسے میں سیاہ و سرخ آندھیاں چلنے لگیں۔ چاروں طرف سے قد قتل الحسین بکربلا ذبح الحسین بکربلا کی آوازیں بلند ہوگئیں۔ خیموں سے بیبیوں اور بچوں کے رونے کی دلخراش صدائیں بلند ہوئیں۔

طبری کے مطابق لوگوں نے ابن سعد کے حکم پر خیام اہل بیت میں گھس کر لوٹ مار شروع کردی یہاں تک کہ خواتین اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادریں بھی لوٹ لی گئیں۔ خیام اہل بیت میں آگ لگا دی گئی۔ ابن سعد کے حکم پر امام عالی مقام کی لاش کو گھوڑوں سے پامال کیا گیا۔ خانوادہ رسول کی محذرات عصمت کو بچوں کے ساتھ قیدی بنالیا گیا۔ حسینی قافلے میں واحد ایک مرد بچا جو کہ امام عالی مقام کا بیمار فرزند زین العابدین تھے انہیں بھی بھاری طوق اور بیڑیاں پہنائی گئیں۔ انا لله وانا الیه راجعون.

شام الم میں زینب مضطر تجھے سلام
شعلوں کے درمیاں تیرا لشکر تجھے سلام

کس کس کا پُرسہ دیں تجھے جلتے خیام میں
اک دو پہر میں لٹ گیا سب گھر تجھے سلام

شیر خدا کی لاڈلی عباس کی بہن
چھینی گئی ردائیں کھلا سر تجھے سلام

گھوڑوں نے روند ڈالا ہے لاشہ حسین کا
اے دشتِ کربلا کے مسافر تجھے سلام

جلتی زمیں پہ سجدۂ آخر ادا کیا
نیزے پہ ہے بلند تیرا سر تجھے سلام

ہے بے ردا بہن، نہ کفن تجھ کو دے سکی
اے زینبِ حزیں کے برادر تجھے سلام

یوں عالم غریبی میں صحرا کی ریت پر
اے بے کفن، اے لاشۂ بے سر تجھے سلام

کتب استفادہ:

  1. تاریخ التواریخ
  2. بحارالانورا
  3. روضۃ الشہدا
  4. لہوف مترجم
  5. مقتل خوارزمی
  6. تاریخ طبری
  7. تاریخ کامل ابن اثیر
  8. طبقات ابن سعد
  9. مناقب خوارزمی
  10. تاریخ یعقوبی