حضرت امام حسین علیہ السلام عبادت،سخاوت اور اخلاق کا پیکر

ڈاکٹر شفاقت علی البغدادی

بلاشک و شبہ تاریخ بشر مختلف واقعات و سانحات کو اپنے وسیع دامن میں سموئے ہوئے ہے کچھ واقعات خیرو اچھائی کی ترجمانی و نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں کچھ شر اور برائی کی المناک اورعبرت ناک تصویر نظر آتے ہیں۔ بعض سانحات و حوادث بے صبری اور کمزور کردار کی مثال نظر آتے ہیں۔ بعض احداث و واقعات صبر و استقامت کی فقید المثال ضرب المثل بن کر معاشرے میں ہر خاص و عام کی زبان زد عام ہو کر شہرت عامہ حاصل کر چکے ہوتے ہیں الغرض ہر دو طرف تاریخ عالم کا ورق ورق انسان کے لئے عبرتوں اور اسباق حاصل کرنے کا ایک مرقع اور جامع نمونہ ہیں۔

بالخصوص شہادت امام حسین استقامت اور عزیمت کا وہ عظیم الشان واقعہ ہے جو تاقیامِ قیامت ہر شعبہ زندگی کے لئے صبر و استقامت کی خوبصور ت اور سبق آمو ز مثال ہے بلکہ انسانی تاریخ میں یہ استقامت و عزیمت کا استعارہ کا درجہ حاصل کر چکا ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ واقعہ میدانِ کربلا ایسا تاریخ کا المناک موڑ ہے جس میں نواسہ رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنتی نوجوانوں کے سردار، خاتون جنت، صدیقہ، طاہرہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے لعل، زمین و آسمان کے نور والی ہستی اور سید الاصفیاء امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے لخت جگر حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت ہوئی جو نہ صرف ایک درد ناک و المناک سانحہ ہے بلکہ اس نے ہر ذی روح کی آنکھ کو نمناک کر دیا ہے۔ یہ بھی کہنا بعید از قیاس نہیں ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو وجود بخشا ہے ہست و بود میں یہ تمام رونقیں اور رعنائیاں پیدا فرمائیں ہیں اور ذی ارواح کو حیات کی نعمت بخشی ہے اس وقت سے لے کر آج تک کوئی واقعہ کربلا جیسا تاریخ انسانی نے نہیں دیکھا اور شاید ہی قیامت تک کوئی ایسا واقعہ رونما ہوکہ جس پر خود تاریخ کو بھی رونا آگیا ہو۔

الغرض حضرت امام حسین بن علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم ابو عبد اللہ القریشی الہاشمی کی شہادت ایسا درد ناک اور اندوہ ناک واقعہ ہے کہ جس پر انسانوں کی سنگ دل تاریخ بھی ہچکیاں مار کر روتی رہی ہے۔ اس میں ایک طرف ظلم و ستم،بے وفائی اور محسن کشی و نسل کشی کے ایسے دردناک والم ناک رویے نظر آتے ہیں کہ جن کا تصور کرنا بھی آج ہم جیسے لوگوں کے لئے ناممکن ہے۔ جبکہ دوسری طرف اہل بیت اطہار، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چشم و چراغ استقامت و عزیمت، صبرا ور اعلیٰ ہمتی کے پہاڑ بن کر بہتر 72 ساتھیوں کی ایک چھوٹی سی جماعت کی صورت میں یزیدی باطل طاقت کے مقابلہ کے لئے ثابت قدمی اور جان نثاری جیسے ایسے محیر العقول مظاہر کو جامہ حقیقت سے نواز رہے تھے کہ جن کی نظیر تمام عالم انسانیت کی طویل تاریخ میں نہ صرف ڈھونڈنا مشکل ہے بلکہ ناممکن بھی ہے۔

عزیمت و رخصت کی شرعی اور قانونی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے مختلف احوال و تقاضوں کے مطابق شریعت ِ مطہرہ میں دو راستے بتائے جاتے ہیں دونوں راستے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے تجویز کردہ ہیں۔ ایک راہ کو راهِ رخصت کہا جاتا ہے اور دوسرے کو راہ ِ عزیمت و استقامت کے معروف نام سے جانا جاتا ہے۔ اگر حالات ساز گار ہوں،طاقت و قوت مجتمع ہو، جبر و ظلم اور کفر کی طاقتوں کا صفایا آسانی سے کیا جا سکتا ہو تو ان حالات میں ہر چھوٹے بڑے اور ہر کلمہ گو پر اس ظلم کے خلاف میدانِ کارزار میں نکل آنا فرض اور واجب ہوتا ہے۔

لیکن اگر حالات ساز گار نہ ہوں، اسلحہ و عسکری قوت ساتھ نہ ہو باطل زیادہ مضبوط، زیادہ منظم اور قوی تر ہو تو ایسے حالات میں شریعت نے امت ِ مسلمہ کو دو راستے عطا کر دیے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ رخصت پر عمل کرے اور گوشہ نشین ہو جائے۔ چپکے سے لعنت ملامت کرے اور دل سے بُرا جانے۔ لیکن مسلح تصادم اورکشمکش کے لیے میدان میں نہ آئے۔ جیساکہ حدیث میں ہے:

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ رَای مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْهُ بِیَدِهِ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَالِکَ اَضْعَفُ الاِ یْمَانِ.

تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ (یعنی عملی جدوجہد)سے روکنے کی کوشش کرے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو اپنی زبان سے (تنقید و مذمت کے ذریعے) روکے اور اگر اپنی زبان سے بھی روکنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو (کم از کم اس برائی کو)اپنے دل سے برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔

ہر دور میں ہر طرف لوگوں کی اکثریت رخصت پرعمل کرتی نظر آتی ہے اور راہ ِ رخصت پرعمل کرنا نہ ناجائز ہے، نہ حرام ہے اور نہ ہی اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہر اضطراری حالات میں رخصت کی اجازت دے رکھی ہے۔ جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْهِ.

پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں)کوئی گناہ نہیں۔

(البقرة، 2: 173)

اب اگر سب کے سب انسان بلا استثناء ایسے حالات میں رخصت پر ہی عمل کرنا شروع کر دیں تو پھر ظلم اور کفر کی طاغوتی طاقتیں بڑھتی چلی جائیں گی اور ان کو روکنا ناممکن ہو جائے گا اس لیے شریعت میں باجود رخصت کی موجودگی کے کچھ لوگ اللہ کے دین کی سر بلندی اور احیاء کیے لئے راہ ِ عزیمت پر ہی چل نکلتے ہیں۔ وہ حالات کی سازگاری اورناسازگاری کو نہیں ڈرتے۔ مد مقابل فوج اور لشکر کی بھاری اکثریت انہیں متزلزل نہیں کرتی، وہ کشمکش میں ناکامی اور کامیابی پر توجہ نہیں دیتے بلکہ ان کی توجہ صرف اور صرف اس امر پر مرکوز ہوتی ہے کہ وہ اپنے تن من کو دینِ خدا وندی کی سر بلندی کے لیے کیسے قربان کریں۔ راہ ِ عزیمت پر چلتے ہوئے اپنی جان پر کھیل جاتے ہیں۔ وہ اپنی شان اور مقام کی مناسبت سے اس اقدام کو فرض سمجھتے ہیں۔

وہ لوگ جنہوں نے حضرت امامِ حسین علیہ السلام کے مقام کو ظاہری حالات کی ناسازی کی بنا پر معاذاللہ خروج اور بغاوت کا الزام دیا۔ وہ نہ تو دین کی روح سے واقف ہیں نہ شریعتِ اسلامیہ کے احیاء کے تقاضوں سے۔ وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ دین کی مٹتی ہوئی قدروں کی نشاۃ ِ ثانیہ کے لیے کیوں کر جان قربان کر دی جاتی ہے اور شاید وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس وقت یزید کا مسندِ خلافت پر بیٹھنا اسلام کی تاریخ کو کس رخ پر ڈال رہا تھا۔ اگر امامِ حسین علیہ السلام میدانِ کارزار میں علمِ حق بلند کرنے کے لیے نہ نکلتے اور یہ 72 تن بھی اپنے خون کا نذرانہ نہ دیتے تو آج اسلام کی جو متاع جمہوری قدروں کی آزادی، اظہار ِ جاہ و حشمت اور نفاذ ِ شریعت کی مسلسل جد و جہد کی صورت میں نظر آ رہی ہے اس کا کہیں بھی وجود نہ ہوتا۔ اسلام کی پوری تاریخ اور امتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسین ابنِ علی کے خون کے قطرات اور خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس عظیم قربانی کی مرہونِ منت ہے۔ جس نے راہِ رخصت کو چھوڑ کر راہِ عزیمت کو اپنایا اور اپنا سب کچھ قربان کر دیا مگر اس زمانے کی تاریکیوں اور اندھیروں کو ایسے اجالوں میں بدل گیا جس نے چودہ سو سال سے انسانیت کی راہیں روشن کر رکھی ہیں۔

بہت سے لوگوں نے یزید کی تائید بھی کی، بہت سوں نے مصلحت، رخصت اور خاموشی کا راستہ بھی اختیار کیا مگر امام حسین علیہ السلام نے عزیمت کا راستہ اختیار کیا۔ رخصت کا راستہ جائز تھا مگر عزیمت کا راستہ افضل تھا۔ جائز پر گناہ نہیں مگر فضیلت بھی نہیں جبکہ عزیمت میں فضیلت ہے پس امام حسین علیہ السلام جائز کرنے والوں میں سے نہیں بلکہ افضل کرنے والوں میں سے ہیں اس عمل سے آپ علیہ السلام ساری فضیلتیں سمیٹ کر لے گئے۔

قرآن مجید نے بھی اضطرار کی حالت میں رخصت اور خاموشی کی اجازت دی ہے:

گویا اضطرار کی حالت میں اجازت و رخصت ہوتی ہے مگرامام حسین علیہ السلام صاحبِ اجازت نہیں بلکہ صاحبِ فضیلت ہوئے۔ اجازت کا طریق بہت سوں نے اپنایا مگر فضیلت کا طریق امام حسین علیہ السلام کے حصے میں آیا۔ یہ راہِ عزیمت تھی جو امام حسین علیہ السلام نے اپنائی۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی بڑی ہستیاں جنہوں نے اس معاملہ پر راہِ رخصت کو اپنایا، آج ان کی شہادتوں اور تاریخوں کا بھی علم نہیں۔ ان کے مراتب اپنی اپنی جگہ بلند ہیں مگر امام عالی مقام علیہ السلام کی شہادت اس انفرادیت کی بناء پر اتنی معروف ہے جتنی سیرتِ محمدی معروف ہے۔ اس لیے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت دراصل سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک باب ہے جس کا ذکر قیامت تک نہیں مٹ سکتا۔

دبستان عزیمت کی ایک مختصر تاریخ

راہ عزیمت کی داستان انبیاء علیہم السلام سے امت محمدیہ تک اگر لکھی جائے تو شاید اوراق کم پڑ جائیں کیونکہ جذبہ اوالوالعزمی و ثبات قدمی ایک ایسا جوہر ہے جس سے سرشار ہو کر انسانیت بقا و دوام حاصل کر لیتا ہے، تاریخ اسے قیمتی اثاثہ تصور کر کے اپنے سینے میں محفوظ کر لیتی ہے اور جریدہ عالم پر اس کی عظمتوں اور شوکتوں کے انمٹ نقوش ثبت ہو جاتے ہیں۔ اس کا دلدادہ کبھی آزرکدہ گمراہی میں دستِ خلیل علیہ السلام بن کر جلوہ گر ہوتا ہے تو کبھی ضرب کلیم علیہ السلام بن کر جلوہ گر ہوتا ہے تو کبھی ضرب کلیم علیہ السلام بن کر فرعون کے طلسم ساحری کو توڑ تا نظر آتا ہے۔ کبھی وہ بلال و صہیب،سمیہ و امّ عمارہ اور آل یاسر رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صورت میں کفار مکہ کے آسمان صفت مظالم کا کوہِ عزیمت کی طرح مقابلہ کر تا دکھائی دیتا ہے اور کبھی نو اسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسین بن علی علیہ السلام کی شکل میں یزیدی فتنے کے خاتمے اور قلع قمع کرنے کے لئے معرکہ کرب وبلا میں جان عزیز کی بازی لگا کر ایثار و قربانی اور عزیمت و دعوت کی ایسی روایت قائم کر تا ہے کہ بعد کی نسل اسے اپنی آنکھو ں کا سرمہ او ر مشعلِ راہ بنانے میں فخر محسوس کرتی ہے اور اس متاعِ ناخرید کی ایسی جوہری کسی نایاب ہیرے کی بھی نہیں کرتا حتی ٰ کہ وہی ایک دن اسی راہِ عزیمت پر چل کر منزلیں طے کر کے آنے والوں کے لئے روشن نمونہ چھوڑ جاتی ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ ہوں یا امام مالک، امام شافعی ہوں یا امام احمد بن حنبل یا برصغیر میں مجدد الف ثانی سید احمدسر ہندی رحمۃ اللہ علیہ اور دورِ حاضر کی نابغہ روزگار شخصیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری یہ سب کے سب اسی مکتب عزیمت و دعوت اور دبستان ایثار قربانی کے خوشہ چیں، پر وردہ اور تربیت یافتہ ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مِنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَیْهِ فَمِنْهُم مَّن قَضَی نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن یَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلًا.

مومنوں میں سے (بہت سے) مَردوں نے وہ بات سچ کر دکھائی جس پر انہوں نے اﷲ سے عہد کیا تھا، پس ان میں سے کوئی (تو شہادت پا کر) اپنی نذر پوری کر چکا ہے اور ان میں سے کوئی (اپنی باری کا) انتظار کر رہا ہے، مگر انہوں نے (اپنے عہد میں) ذرا بھی تبدیلی نہیں کی۔

(الاحزاب، 33: 23)

ان تمام ائمہ اہل بیت میں سے ایک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل کی شمع اور تمام تعلقات سے فارغ اپنے زمانے اور وقت کے سردار ابو عبد اللہ الحسین بن علی بن ابی طالب ہیں اور آپ محققین اولیاء اللہ میں سے ہیں اور اہل صفا ء کا قبلہ اور کربلا کے قتیل ہیں اور اہل طریقت یعنی صوفیاء کرام و اولیاء اللہ کے حال کی درستگی پر متفق ہیں کہ جب تک حق ظاہر رہا آپ حق کی اتباع کرتے رہے اور جب حق پوشیدہ ہو آپ نے تلوار کو اٹھا لیا حتی کہ جب تک اپنی عزیز جان کو اللہ تعالیٰ پر قربان نہ کیا آرام نہ کیا اور حضور علیہ السلام کے بہت سے نشان آپ میں موجودتھے جو آپ کی ذات اقدس کے ساتھ مخصوص تھے۔

راہ عزیمت و استقامت کے محرکات

ذیل میں حضرت امامِ حسین علیہ السلام کے راہ عزیمت پر چلنے کے حوالے چند نمایاں محرکات واسباب اور اثرات بیان کیے جاتے ہیں جن کی بنا پر آپ نے اتنا عظیم قدم اٹھایا۔

1۔ گھرانہ فاطمہ الزھرا کی تربیت

حضرت امامِ حسین علیہ السلام نے یہ اقدام اور پیش قدمی اس لیے کی تھی کہ آپ کے رگ و ریشے میں علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کا خون گردش کر رہا تھا اور آپ نے سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا کی گود میں پرورش پائی تھی۔ محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کاندھوں پر سواری کی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک کو چوسا تھا۔ اور آپ علیہ السلام خانوادہ نبوت کے چشم و چراغ تھے اسی لیے راہِ عزیمت و استقامت پر اس دور میں عمل کرنا آ پ ہی کے شایان شان تھا۔

2۔ راہ عزیمت اور لعاب دہنِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اثر

حضرت امام حسین علیہ السلام نے عزیمت کی راہ کو اختیار فرمایا کیونکہ آپ کو گھٹی میں لعاب دہن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میسر آیا جس کی یہ تاثیر تھی کہ آپ نے اپنے نانا کے دین کو اپنے خون جگر سے اور اہل بیت اطہار کے پاک لہو سے جلا بخشی، جیسا کہ روایات میں آیا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو گھٹی دی اور ان کے منہ میں لعاب دہن ڈالا اور ان کے لیے دعا کی اور آپ کا نام حسین علیہ السلام رکھا اس سے پہلے آپ کے والد حضرت علی المرتضی علیہ السلام نے آپ کا نام حرب رکھا تھا۔ جعفر بیان کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساتویں روز ان کا نام رکھا اور ان کا عقیقہ کیا۔

3۔ راہ عزیمت اورآقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ظاہری و باطنی مشابہت

اسی طرح آپ نے راہ عزیمت کو اس لیے اختیار کیا کہ آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ظاہری اور باطنی دونوں حوالوں سے مشابہت رکھتے تھے۔ آپ کی اس فیوضات محمدیہ کے اثرات اور تربیت کے نتائج یہ تھے کہ آپ نے راہ عزیمت کو اختیار فرمایا۔ جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے:

عن علی، قال: الحسن أشبه برسول الله صلی الله علیه وسلم ما بین الصدر إلی الرأس , والحسین أشبه بالنبی صلی الله علیه وسلم ما کان أسفل من ذلک. (رواه ترمذی)

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حسن رضی اللہ عنہ سینہ سے سر تک کے حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھے، اور حسین علیہ السلام اس حصہ میں جو اس سے نیچے کا ہے سب سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ تھے۔

4۔ راہ عزیمت اور صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اثر

حضرت امام حسین علیہ السلام نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے پانچ سال یا اس کے قریب پائے یعنی آپ علیہ السلام براہ راست پانچ سال تک صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مستفیض ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ سے متعلق فرمایا:

اَلْحُسَیْنُ مِنِّیْ وَاَنَا مِنَ الْحُسَیْن. (رواه ترمذی)

حسین علیہ السلام مجھ سے ہے اور میں حسین علیہ السلام سے ہوں۔

5۔ راہ عزیمت اور جرأت و شجاعت:

راہ عزیمت وہ راہ ہے جس کا سالک بزدل اور جبان نہیں ہو سکتا۔ بزدل انسان ہمیشہ رخصت کا متلاشی رہتا ہے اور آسانیوں کو ڈھونڈتا ہے۔ مگر جرأت مند اور شجاع انسان ہی عزیمت کی راہ کا سالک بنتا ہے۔ بلاشک و شبہ حضرت امام حسین علیہ السلام عصمت و طہارت کا مجسمہ تھے۔ آپ کی عبادت، زہد،سخاوت اورکمال اخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے۔ آپ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول اللہ نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا حسین علیہ السلام میں میری سخاوت اور میری جرأت ہے۔

ابن کثیر لکھتے ہیں:

حضرت فاطمۃ الزہرا علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرض الموت کے وقت پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے دونوں بچوں کو کچھ دیں تو آپ نے فرمایا: حسن علیہ السلام کے لیے میری ہیبت اور سرداری ہے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے لیے میرے جرأت اور سخاوت ہے۔

آپ کی زندگی میں جرأت و بہادری کے بے پایاں مظاہر واضح اور آشکار نظر آتے ہیںجن کو گننا اور درج کرنا ناممکن ہے۔ یزید لعین کی سفاک اور درندگی پر مشتمل حکومت میں آپ نے فقید المثال جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اس فاجر و فاسق اور لعین کی بیعت سے انکار کر دیا۔ اپنی جان تو دے دی مگر ناناکے دین کی عزت و حرمت کو ایک ظالم و فاجر انسان کے ہاتھ میں نہیں بیچا۔ دین کی قدروں کو ایسی جلا بخشی کہ تاریخ انسانی اس جیسی مثال پیش کرنے سے نہ صرف قاصر ہے بلکہ قیامت تک ایسا کوئی درد ناک اور المناک واقعہ شاید پھر کبھی رونما ہو۔

آپ کی شہادت وہ عظیم خبر ہے جسے آقا علیہ السلام نے اپنی حیات مبارکہ میں بیان فرما دیا تھا۔

’عن أم الفضل بنت الحارث أنها دخلت علی رسول الله صلی الله علیه وسلم، فقالت: یا رسول الله إنی رأیت حلما منکرا اللیلة، قال: وما هو؟ قالت: إنه شدید، قال: وما هو؟ قالت رأیت کأن قطعة من جسدک قطعت ووضعت فی حجری، فقال: رأیت خیرا، تلد فاطمة إن شاء الله غلاما فیکون فی حجرک، فولدت فاطمة الحسین، فکان فی حجری کما قال رسول الله صلی الله علیه وسلم، فدخلت یوما إلی رسول الله صلی الله علیه وسلم فوضعته فی حجره، ثم حانت منی التفاتة فإذا عینا رسول الله صلی الله علیه وسلم تهریقان من الدموع، قالت فقلت: یا نبی الله بأبی أنت وأمی مالک؟‘

سیدہ ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے رات کو قبیح خواب دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ اس نے کہا: وہ بہت سخت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: آخر وہ ہے کیا؟ اس نے کہا: مجھے ایسے لگا کہ آپ کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں پھینکا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے تو عمدہ خواب دیکھا ہے، (اس کی تعبیر یہ ہے کہ ان شاء اللہ میری بیٹی) فاطمہ کا بچہ پیدا ہو گا جو تیری گود میں ہو گا۔ واقعی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بچہ حسین پیدا ہوا، جو میری گود میں تھا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا۔ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئی اور حسین علیہ السلام کو آپ کی گود میں رکھ دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئی تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کو کیا ہو گیا؟

’اتانی جبریل علیه الصلاة والسلام، فاخبرنی ان امتی ستقتل ابنی هذا (یعنی الحسین)، فقلت: هذا؟ فقال: نعم، واتانی بتربة من تربته حمراء.‘

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے بتلایا کہ میری امت میرے اس بیٹے کو قتل کر دے گی۔ میں نے کہا: یہ بیٹا (حسین)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، وہ میرے پاس اس علاقے (کربلا) کی سرخ مٹی بھی لائے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ امت مسلمہ کو سیدنا امام حسین کی شہادت کے وسیلہ جلیلہ سے رفعت و ترقی عطا فرمائے۔