سانحہ کربلا، عشق خدا کی لازوال داستان

مصباح کبیر

ذکر کربلا کتابِ مہر و وفا بھی ہے اور کتابِ عشق و محبت بھی؛ جو تا قیامت روئے زمین پر آوازِ حق بلند کرنے والوں کو نعرہ مستانہ عطا کرتا رہے گا۔ ہر دور میں اہلِ حق اس کتابِ عشق کے مختلف ابواب کو اپنی تحاریرو تقاریر اور شاعری و نثر کی صورت میں نوعِ انسانی تک پہنچاتے رہے ہیں اور پہنچاتے رہیں گے جس کا مقصد ایک طرف انسانیت کو اس عظیم درسِ کربلا سے آشنا کرانا ہے کہ کس طرح امامِ عالی مقام سیدنا امامِ حسین علیہ السلام نے دینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سر بلندی کے لیے راہِ خدا میں اپنا تمام گھرانہ قربان کیا اور عشق کی ایک ایسی عظیم داستان رقم کی جسے یاد کر کے اور پڑھ کے راہِ عشق کے مسافر سامانِ عشق و مستی حاصل کرتے رہیں گے اور ایک انوکھے رنگ سے مولا کو راضی کرتے رہیں گے۔ تو دوسری طرف غلامانِ امامِ حسین علیہ السلام اور سیدہ زینب رضی اللہ عنھا کی باندیوں کی صف میں ہونے کا ایک ادنیٰ سا حیلہ بھی ہے کہ:

اے اہلِ بیتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ نذرانہ گر قبول افتند زے عز و شرف

نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ طیبہ روانگی سے لے کر ریگِ زارِ کربلا میں جامِ شہادت نوش کرنے تک کے تمام واقعات ایک غیر معمولی حیثیت کی حامل لازوال داستانِ عشق رقم کرتے ہیں۔امامِ عالی مقام بزبانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ مجھے کربلا کے میدان میں شہید کر دیا جائے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

جبرائیلِ امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین علیہ السلام میرے بعد مقامِ طف میں قتل کر دیا جائے گا۔

(طبرانی، المعجم الکبیر، 107: 3)

خبرِ شہادت کے معلوم ہونے کے باوجود عقل کو ورطہ حیرت میں چھوڑتے ہوئے آپ علیہ السلام نے سوئے کربل اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رختِ سفر باندھا تا کہ اپنے نانا سے دینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ اور سر بلندی کی خاطر کیے گئے وعدے کا نبھایا جا سکے کیوں کہ یہی وہ وقت تھا جب یزید نشہ اقتدار میں سر مست اخلاقیات کی تمام حدود کو پار کر چکا تھا اور چاہتا تھا کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے مذاکرات کو مان لیں۔ کیوں کہ وہ یہ جانتا تھا کہ حسین کسی فردِ واحد کا نام نہیں بلکہ پوری امتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امین و سربراہ کا نام ہے اگر انہیں اپنا ہم نوا بنا لیا تو پھر ہر مومن اور مسلمان میرے تابع ہو جائے گایہی وجہ ہے کہ اُس نے ہزارہا مسلح دستوں پر مشتمل قافلے امامِ عالی کے مقابلے کے لیے روانہ کیے تا کہ انہیں کسی طرح مجبور کیا جائے کہ وہ اس لعین کی بیعت کے لیے رضامند ہو جائیں مگر شاید اسے خبر نہ تھی کہ اس کا مقابلہ کسی عام انسان یا دنیا کے بادشاہ سے نہیں ہے بلکہ ایک ایسی شخصیت سے ہے جو فرزندِ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا و علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہیں، جن کی رگوں میں حیدرِ کرار کا خون ہے، جو نواسہ رسول ہیں جنہیں دوشِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری نصیب ہوئی اور زبانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چوسنے کا شرف حاصل ہے۔ جن کی عفت و عصمت کی گواہی خود رب تعالیٰ نے قرآن مجید میں کھائی ہے وہ حسین ابنِ علی جن کا ہر دن خدمتِ انسانیت اور تبلیغ و ترویجِ دین میں بسر ہوتا اور شب بھی گویا منتظر رہتی کہ اس کے دامن کو حسین علیہ السلام اپنی چشمان سے بہنے والے آنسووں کے موتیوں سے پروئیں۔

امامِ عالی مقام نے یزید کے کسی بھی حربے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے حق کی سر بلندی کی خاطر میدانِ کربلا میں اپنے اصحاب اور اہلِ خانہ کے ساتھ خیمہ زن ہوئے۔ محرم الحرام کو اپنے خیمہ کے سامنے کربلا کی ریت پر تشریف فرما تھے تو اونگھ آگئی۔ اُدھر ابنِ سعد نے حتمی فیصلہ ہو جانے کے بعد عساکر کو حکم دے دیا کہ حسین اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کر دو، یزیدی عساکر کے حملے کا شور و غل سن کر سیدہ زینب رضی اللہ عنہا باہر تشریف لائیں اور بھائی کو بیدار کیا۔ آپ نے سرِ انور اٹھایا اور پوچھا زینب کیا بات ہے؟ امامِ عالی مقام دشمن کی طرف سے حملے کی تیاری مکمل ہو چکی ہے فرمایا ہم بھی تیاری کر چکے ہیں۔ آپ نے فرمایا زینب ابھی ابھی میری آنکھ لگ گئی تھی، نانا جان خواب میں تشریف لائے اور بتایا کہ تم عنقریب ہمارے پاس آنے والے ہو! بہن!ہم اس انتظار میں ہیں۔ (البدایہ والنہایہ)

امامِ عالی مقام نے عاشورا کی رات اپنے اصحاب کو جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ دیکھو کل کا دن دشمن سے مقابلے کا دن ہے۔ کل کا دن یومِ شہادت ہے۔ آزمائش کی بڑی گھڑی آنے والی ہے میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم اپنے گھروں کو چلے جاؤ میں وعدہ کرتا ہوں کہ روزِ قیامت اپنے نانا جان سے تمہاری بے وفائی کا گلہ نہیں کروں گا، اور گواہی دوں گا کہ نانا جان یہ میرے وفادار تھے، میں نے بخوشی انہیں جانے کی اجازت دی تھی۔ جس جس کو ساتھ لے کر جانا چاہتے ہو لے جاؤ۔ یزیدیوں کو صرف میری گردن کی ضرورت ہے جب میری گردن کاٹ لیں گے تو ان کے کلیجے ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ تم اپنی جانیں بچاؤ اور وآپس چلے جاؤ۔ جود و سخا کے پروردہ امامِ حسین علیہ السلام آخری لمحات میں بھی دوسروں کا بھلا چاہتے نظر آتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو زندگی کے اس نازک موڑ پر بھی اپنے ہمراہ یزیدی انتقام کی بھینٹ چڑھنے سے بچانا چاہتے ہیں لیکن راہِ عزیمت اور عشق و محبت کی راہ کے مسافروں پر آفریں کہ انہوں نے اپنی وفاداری کو زندگی کی عارضی مہلت پر ترجیح دی۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کے جان نثار اصحاب اور شہزادوں نے عرض کیا کہ امامِ عالی مقام خدا وہ دن نہ لائے کہ ہم آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں۔ آپ کے بغیر دنیا میں رہ کر ہم کیا کریں گے۔ ہم کٹ مریں گے۔ ہماری گردنیں آپ کے قدموں میں ہوں گی۔۔۔۔ہم اپنی جانیں آپ پر نثار کر دیں گے۔ ہم ہر گز آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ امامِ حسین علیہ السلام نے اپنے اصحابِ وفادار کا یہ جذبہ دیکھ کر فرمایا اچھا! یہ آخری رات ہے، سجدے میں گر جاؤ، ساری رات عبادت و مناجات میں گزری۔جان نثارانِ حسین رضی اللہ عنہ کے خیموں سے رات بھر حمد و ثنا کی صدائیں آتی رئیں۔ (البدایہ والنہایہ)

نمازِ فجر جان نثار اصحاب نے امامِ عالی مقام کی اقتداء میں ادا کی، بارگاہِ خداوندی میں کربلا والے سر بسجود تھے وہ سر جنہیں آج شام نیزوں پر بھی قرآن پڑھنا تھا اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے ہوئے تھے۔ مولا یہ زندگی تیری ہی عطا کردہ ہے ہم اسے تیری راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ 10 محرم الحرام کا سورج طلوع ہوا تو خون میں ڈوبا ہو تھا، آسمان خون کے آنسو رو رہا تھا۔ آج معصوم علی اصغر کے حلقوم میں تیر پیوست ہونا تھاخاندانِ رسولِ ہاشمی کے بھوکے پیاسے شہزادوں کے خون سے ریگِ کربلا کو سر خ ہونا تھا۔

ہزارہا ملعون یزیدی سپاہیوں پر مشتمل فوج کے مقابلے میں امامِ عشق سیدنا امام حسین علیہ السلام اپنے افراد جن میں خاندانِ نبوت کے بنین و بنات اور اصحابِ حسین علیہ السلام شامل تھے؛ موجود تھے۔جو راہِ عشق و وفا میں نواسہ رسول کے قدموں پر پروانوں کی طرح جان وار دینے کے جذبے سے سر شار تھے پھر وقت نے ثابت کیا کہ کس طرح غلامانِ حسین علیہ السلام اور عشاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھوک و پیاس کی شدت کے باوجود جوانمردی اور جرات کے ساتھ اپنے سالار کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ بارگاہِ خدا میں پیش کرتے گئے۔ الغرض جانثارانِ حسین علیہ السلام ایک ایک کر کے راہِ عشق و وفا میں سرخرو ہوتے گئے۔

نواسہ رسول کربلا کے میدان میں تنہا کھڑے ہیں۔۔۔۔ ہونٹوں پر تشنگی کے کانٹے چبھ رہے ہیں۔۔۔۔ آسمان سے سورج آگ برسا رہا ہے۔۔۔ نینوا کے سینے سے فرات بہہ رہ ہے آج نواسہ رسول کے سوا یہ پانی ہر شخص کے لیے عام ہے۔۔۔۔ امامِ عالی مقام کے جانثاران ایک ایک کر کے جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔۔۔گلستانِ رسول اجڑ چکا ہے۔۔۔۔ چمنستانِ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بے رحم ہواؤں نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔۔۔۔ عون و محمد بھی رخصت ہو چکے ہیں۔۔۔۔ عباس علم دار مقامِ شہادت پا چکے ہیں۔۔۔۔۔ شہزادہ قاسم موت کو گلے لگا چکے ہیں۔۔۔۔۔ شہزادہ علی اکبر کا بے گورو کفن لاشہ ریگِ کربلا میں پڑا ہے۔۔۔ معصوم علی اصغر کا خون بھی فضائے کربلا کو رنگین کر گیا ہے۔۔۔ امامِ عالی مقام اپنے جانثاروں کے لاشے اٹھاتے اٹھاتے نڈھال ہو چکے ہیں۔۔۔ لیکن اس راہِ عشق کے سالار ابنِ علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت، بہادری اور جوانمردی پر ڈھلتی عمر کا سایہ بھی نہ پڑا۔۔۔ زباں پر رب کی رضا میں راضی ہونے کا ترانہ ہے۔۔۔ بدن کاہر حصہ زبانِ حال سے مولا سے محوِ گفتگو ہے کہ مولا اگر تیری یہی رضا ہے تو حسین تیری راہ میں سب کچھ وار کر بھی مطمئن ہے گویا سالارِ عشق شیرِ خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شیر اپنے تمام اثاثے لٹانے کے بعد بھی استقامت کی تصویر بنا ہوا ہے۔ ایمان کی روشنی آنکھوں سے جھلک رہی ہے۔ چہرے پر اعتماد کا نور بکھرا ہوا ہے، گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں، سیدہ زینب رضی اللہ عنھا رکاب تھامتی ہیں اور بھائی کو الوداع کرتی ہیں۔

امامِ عالی مقام میدانِ کربلا میں تلوار لیے کھڑے ہیں یزیدی عساکر پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ فرزندِ شیرِخدا کا سامنا کرنے سے ہر کوئی کترا رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مدِ مقابل کون ہے۔۔۔ یزیدی لشکر میں سے کوئی نکل کر شہسوارِ کربلا کا مقابلہ کرنے کی جرات نہ کر سکا۔ یزیدی لشکر نے جانثارانِ حسین کی استقامت، شجاعت اور جرات دیکھ کر انفرادی جنگ بند کر دی تھی، جب حسین مقتل میں آئے تو اجتماعی حملہ جاری تھا لیکن پورا لشکر بھی اجتماعی طور پر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنے سے ڈر رہا تھا۔ دور دور سے تیر چلاتے رہے، کئی گھنٹوں تک حسین رضی اللہ عنہ کے جسمِ اطہر پر کوئی زخم نہ لگا کیوں کہ قریب آکر علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت کے وارث سے جنگ کرنے کا کسی کو حوصلہ نہیں ہوا۔ تیروں کی برسات میں امامِ عالی مقام کا جسمِ اطہر چھلنی ہو گیا۔ زخموں سے چور امام پر چاروں طرف سے حملہ کیا گیا۔ شمر اور یزید کے بدبخت سپاہی قریب آ گئے، یکبارگی حسین کو تلوار وں کے نرغے میں لے لیا گیا۔ آخر مردانہ وار جنگ کرتے کرتے شہسوارِ کربلا گھوڑے سے نیچے آ گئے۔ نیزوں اور تلواروں سے بھی امامِ عالی مقام کا جسم چھلنی کر دیا گیا۔

زندگی کا آخری لمحہ آ پہنچا، امامِ عالی مقام امامِ حسین علیہ السلام نے دریافت فرمایا یہ کون سا وقت ہے جواب ملا نماز کا وقت ہے۔ فرمایا : مجھے اپنے رب کو حضور آخری سجدہ کر لینے دو۔ خون آلودہ ہاتھوں کے ساتھ تیمم کیا اور بارگاہِ خداوندی میں سجدہ ریز ہو گئے۔ باری تعالیٰ یہ زندگی تیری ہی دی ہوئی ہے اسے تیری ہی راہ میں قربان کر رہا ہوں۔ اے خالقِ کائنات! میرا یہ آخری سجدہ قبول ہو۔ بدبخت شمر آگے بڑھا اور اس نے چاہا کہ امامِ عالی مقام کا سر تن سے جدا کر دے کہ امامِ حسین علیہ السلام نے کہا میرے قاتل! ذرا مجھے اپنا سینہ تو دکھا کیوں کہ میرے نانا نے مجھے جہنمی کی نشانی بتائی تھی۔

امام ابنِ عساکر نے سیدنا حسین بن عل رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

گویا میں ایک سفید داغوں والے کتے کو دیکھ رہا ہوں جو میرے اہلِ بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے۔ (کنز العمال)

چنانچہ آپ علیہ السلام نے نشانی دیکھ کر فرمایا ہاں یہ بد بختی تیرا ہی مقدر ہے، وہ بد بخت آگے بڑھا اور سرِ اقدس کو تن سے جدا کر دیا۔ ادھر روح نے قفسِ عنصری سے پرواز کی اور بارگاہِ خداوندی میں سرخرو ہوئی۔

یا أَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِی إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً.

اے اطمینان پا جانے والے نفس۔ تو اپنے نفس کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور مطلوب بھی۔

قارئینِ کرام! سانحہ کربلا کے دیگر پہلو ؤں کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم لیکن ایک پہلو جو نمایاں نظر آتا ہے وہ امامِ عالی مقام کا خدا و مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے عشق تھا۔ خدا کی ذات سے عشق اس طرح کہ مدینہ پاک روانگی سے لے کر ریگِ زارِ کرب و بلا میں جامِ شہادت نوش فرمانے تک زبان پر کوئی شکوہ نہ لانا یہ عاشقوں کا ہی شیوہ ہوا کرتا ہے اور عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح سے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما دیا کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں تو گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسین سے ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ میرے دین کو تا قیامت میرا یہ بیٹا ہی سربلند کرے گا۔

زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق میں اس قدر فنائیت کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منشا کو سمجھتے ہوئے بلا چوں و چراں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔

اس عظیم قربانی کے صلے میں گویا یہ صدا آ رہی تھی کہ اے حسین ابنِ علی! میری رضا اور عشق کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے والے! آج تو نے راہِ عشق میں اپنا سب کچھ وار دینے کی ایک لازوال داستاں رقم کر دی ہے جسے عشق کا دم بھرنے والے ہر دور میں مشعلِ راہ بناتے رہیں گے اور سلیقہ عشق سیکھتے رہیں گے کہ اگر خدا سے عشق کرنا ہو تو اس حد تک اس کی ذات میں فنا ہونا پڑتا ہے کہ انسان کی اپنی ذات فنا ہو جائے اور ہر حال میں کہے مولا جو تیری مرضی، جیسے تو راضی۔

عقل و دل و نگاہ کا مُرشدِ اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بُت کدہ تصورات

صدقِ خلیل بھی ہے عشق، صبرِ حسین بھی ہے عشق
معرکہِ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق