شریکۃ الحسین: سیدہ زینبِ کبریٰ سلام اللہ علیہا

ایمن سہیل

امام حسین علیہ السلام شہید کربلا کا پوری ملت اسلامیہ پر احسان ہے کہ اگر آپ علیہ السلام یزید ملعون کا ڈٹ کر مقابلہ نہ کرتے اور اپنے سمیت بزرگوں، جوانوں اور معصوم بچوں کی قربانی نہ دیتے تو آج اسلام باقی نہ ہوتا۔ تبلیغ و اشاعت دین میں اگرچہ امام حسین کی شہادت بہت بڑا درجہ رکھتی ہے لیکن مقصد شہادت امام کو اجاگر کرنے والی آپ کی بہن زینب سلام اللہ علیہا ہیں جنہوں نے بھائی کی شہادت کے بعد اسیر ہوکر کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں اس دلیری و شجاعت سے بلیغ خطبات دیئے کہ جن سے لوگوں پر شہادت عظمیٰ کا قصد واضح ہوگیا اور حسینی مشن کی تکمیل ہوگئی۔

تاریخ میں ہے کہ جب جناب زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی ولادت کی خبر آپ کے نانا خاتم النبیین کو دی گئی تو وہ خانہ زہرا سلام اللہ علیہا پر تشریف لائے اور نومولود بچی کو ہاتھوں پر اٹھا لیا اور چہرے کے بوسے لیتے ہوئے اپنا چہرہ انور اس بچی کے چہرے پر رکھ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا کہ مجھے جبریل علیہ السلام نے خبر دی ہے کہ یہ بچی میرے لاڈلے نواسے حسین علیہ السلام کے مشن میں شریک ہوگی۔ اپنے بھائی کی مصیبتوں اور سختیوں میں اس کا ساتھ دے گی۔ یہ بچی اپنی نانی خدیجہ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کی نمائندہ ہے بلکہ اس کے کردار کا نمونہ بنے گی۔

جناب زینب سلام اللہ علیہا عمدہ اخلاق اور علم و تقویٰ کے اعتبار سے بہت بلندمقام رکھتی تھیں کیونکہ خالق کائنات نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کے قلوب و اذہان کو علم لدنی سے نوازا تھا۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا جب اپنے والد گرامی حضرت علی علیہ السلام کے دور خلافت میں کوفہ تشریف لائیں تو کوفہ کی معزز خواتین نے حضرت علی علیہ السلام کو درخواست پہنچائی کہ ہم آپ کی دختر جناب زینب سلام اللہ علیہا سے علوم دینیہ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے درخواست منظور کرتے ہوئے کوفہ کی عورتوں کو اجازت دی کہ وہ جناب زینب سلام اللہ علیہا سے تفسیر قرآن کا درس لے سکتی ہیں۔

61 ہجری میں روز عاشورہ جب امام حسین علیہ السلام شہید کردیئے گئے اور خیام اہلبیت کو لوٹنے کے بعد آگ لگادی گئی تو ثانی زہرا سلام اللہ علیہا بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو کہ پورے کنبے کی شہادت کا غم سینے پر لیے ہوئے تھیں بھوکی پیاسی غمزدہ بی بی کو اس وقت پروردگار نے اتنی روحانی قوت عطا کی تھی کہ وہ غم زدہ مستورات، یتیم بچوں اور اپنے بیمار بھانجے سید سجاد ابن الحسین علیہ السلام کی نگہبانی کے لیے سینہ سپر ہوگئیں۔ صبر و رضا کے بلند مقام پر فائز یہ بی بی زہد و تقویٰ اور شجاعت و سخاوت کی حقیقی عظمت پر فائز تھیں کہ بعد شہادت امام حسین علیہ السلام جس جرات و دلیری کا مظاہرہ کیا اس کی نظیر پوری دنیا میں کہیں نہیں مل سکتی۔

جناب زینب سلام اللہ علیہا کو جب ابن زیاد کے دربار میں پیش کیا گیا تو اس وقت بی بی ننگے سر اور بوسیدہ لباس میں ملبوس تھیں اور اپنی ساتھ قیدی عورتوں کے پیچھے اپنے آپ کو چھپا رہی تھیں جب ابن زیاد نے تعارف کروانے کا کہا تو بتایا گیا کہ یہ زینب بنت علی علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کی بہن ہے۔ اس بدبخت کے دربار سے ثانی زہرا سلام اللہ علیہا کی شجاعت اور دلیری کا ایسا معرکہ شروع ہوا کہ جس سے دربار کے درو دیوار لرز اٹھے جس جگہ کوئی یہ جرات نہیں کرسکتا تھا کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لے یا اس خاندان کی فضیلت بیان کرے وہاں علی علیہ السلام کی بیٹی زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا نے اپنے بھائی کی شہادت کے مقصد کو اجاگر کرنا شروع کیا فرمایا کہ:

’’لاتعداد حمد ہے اس خد اکی جس نے اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہمیں مکرم بنایا اور ہم کو ہر قسم کے رجس و پلیدی سے پاک رکھا اور حمد ہے خداوند عالم کے لیے‘‘ کیا ہم رسوا ہوئے ہیں ہم تو کل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود اقدس کی وجہ سے مکرم و مشرف ہیں، ذلالت و رسوائی کا تعلق تو فاسق گنہگار کے ساتھ ہے۔ ہم نے تو کوئی گناہ نہیں کیا ہے تو گنہگار ہے، فاسق ہے، جھوٹا ہے۔‘‘

ابن زیاد نے کہا: تونے کیسا دیکھا اللہ تعالیٰ کے معاملے کو جس نے تیرے بھائی حسین کو امیرالفاسقین یزید کے مقابلہ میں کس طرح ناامید کیا اور یزید کی مدد کی جس پر جناب زینب نے اس درندہ صفت حاکم کے سامنے بھرے ہوئے دربار میں فرمایا کہ:

’’خدا کو میرے بھائی حسن علیہ السلام سے اس قدر پیار تھا کہ شہادت عظمیٰ سے نوازا جو بہت بڑی نیکی ہے وہ میرے بھائی کے حصہ میں آئی کہ وہ خدا کی راہ میں شہید ہوئے ہیں اس سے بڑھ کر کہ خدا کا اچھا معاملہ اور کیا ہوگا پھر فرمایا کہ یہ وہ قوم ہے جن کے مقدر میں شہادت کا فیض خدا نے لکھا اور یہ معاملہ بہت جلد ہوگا کہ خداوند عالم تجھے اور ان کو جنہیں تو نے قتل کیا ہے اپنی عدالت میں بلاکر حق و باطل کا امتیاز فرمائے گا اور فیصلہ دے گا۔ اس جواب کے لیے اے ظالموں کے ظالم تو اپنے آپ کو تیار رکھ۔‘‘

ابن زیاد بڑی بے حیائی اور سنگدلی سے کہنے لگا میرا دل خوش اور ٹھنڈا ہے اس لیے کہ جو کچھ ہم نے چاہا وہ ہم نے کرلیاہے۔

اس کے جواب میں بنت علی نے کمال جرات و شجاعت کے ساتھ فرمایا:

’’اے بدبخت مغرور ابن زیاد تو تخت و حکومت کی مستی اور مدہوشی میں یہ سمجھ ہی نہیں رہا کہ تو کیا بکواس کررہا ہے تو فریب میں ہے اس دنیاوی حکومت نے تجھے دھوکہ دیا ہے تو یہ خیال نہ کر کہ یہ حکومت ہمیشہ تیری رہے گی۔ میں کہہ رہی ہوں کہ یہ حکومت بہت جلد تیرے ہاتھ سے چلی جائے گی اور تو یہ خیال نہ کر کہ حسین علیہ السلام کو قتل کرکے تو ہمیشہ خوش رہے گا رہتی دنیا میں علاوہ اس عذاب کے جس کا آخرت میں خدا نے وعدہ کیا ہے تجھے معلوم ہوجائے گا کہ خوش کون رہتا ہے اور غمگین کون ہوتا ہے۔ خوشی کبھی تیرے مقدر میں نہ آئے گی۔‘‘

اور پھر فرمایا:

’’اے ابن زیاد تو نے اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے ننگ و عار خریدی ہے جو قیامت تک تیرے ساتھ رہے گی۔‘‘

دربار یزید بھی میدان کربلا کی طرح ایک سخت میدان جنگ تھا اور یہ جنگ تنہا بی بی زینب سلام اللہ علیہا کو لڑنا تھی۔ یزید نے اپنے محل کو مزین و آراستہ کروایا اور چار سو کرسیاں لگوائیں اور لوگوں کو دعوت دے کر بلایا، یزید جو کہ شاہی تاج سر پر رکھے فاخرانہ لباس پہن کر تکبر و غرور کے نشہ میں چور ہوکر تخت پر براجمان تھا۔ عرب قبائل کے مختلف سردار اراکین سلطنت اور بیرونی ممالک کے نمائندے موجود تھے جن کی مہمان نوازی کے لیے شراب کے جام بھرے ہوئے تھے۔ دراصل یہ یزید کی فتح کا جشن تھا۔

ثانی زہرا زینب سلام اللہ علیہا نے شرابیوں سے بھرے ہوئے دربار میں اللہ کی عطا کردہ شجاعت و دلیری کا مظاہرہ کیا۔ نواسہ رسول جگر گوشہ بتول کا سر اقدس سونے کے طشت میں رکھ کر یزید کو پیش کیا گیا۔ اُس نے شراب پینی شروع کی اور فخریہ و تکبرانہ اشعار پڑھتے ہوئے سر امام علیہ السلام کو قریب منگوایا اور خشک لبوں پر بید کی چھڑی مارنا شرع کی جناب زینب سلام اللہ علیہا نے جب یہ دیکھا تو برداشت نہ کرسکیں اور شجاعت خداوندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمانے لگیں کہ:

’’اے ظالم یزید! کیا حسین نواسہ رسول کو قتل کردینا تیرے لیے کافی نہیں ہے قتل ہوئے حسین علیہ السلام کو دوبارہ قتل کرنا چاہتا ہے کیا قتل کے بعد مقتول کے اہل و عیال کو قید کرکے شہر بشہر پھرا کر تذلیل کرنا تیرے لیے کافی نہیں ہے کہ اب مظلوم کے اہل و عیال کو بھرے دربار میں قیدی بناکے ان کے سامنے مظلوم کے کٹے سر کی بے ادبی کررہا ہے۔‘‘

اس بدبخت نے کہا کہ کیا تیرا بھائی حسین یہ نہیں کہتا تھا کہ میں یزید سے بہتر ہوں کیا وہ یہ نہیں کہتا تھا کہ میرا باپ علی یزید کے باپ سے بہتر ہے کیا وہ یہ نہیں کہتا تھا کہ میری ماں یزید کی ماں سے بہترہے۔

جناب زینب سلام اللہ علیہا نے جواب دیا کہ کیا تو نہیں جانتا کہ حسین واقعی تجھ سے بہتر ہے تھا، اس کی ماں تیری ماں سے بہتر تھی اس کا باپ تیرے باپ سے بہتر تھا۔ اس پر یزید نے قرآن کی آیت پڑھی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ:

’’اے رسول تم کہہ دو کہ اے میرے اللہ! سلطنت کے مالک تو جس کو چاہتا ہے سلطنت عطا فرماتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلطنت چھین لیتا ہے اور تو جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلت دیتا ہے‘‘۔

تیرے بھائی حسین نے اس آیت کو نہیں پڑھا تھا تاکہ اسے علم ہوتا کہ حق میرے ساتھ ہے۔

لہذا یہ سن کر بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے شجاعت الہٰی سے ایسا فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جو کہ پوری دنیا کی فصاحت و بلاغت کے بلند درجوں پر فائز ہے اور اپنے خطبے سے حق و باطل کو الگ الگ کرکے پیش کردیا اور بھرے دربار میں یزید کو ذلیل و رسوا کرتے ہوئے مقصد شہادت حسین علیہ السلام کو عام کردیا۔

سب سے پہلے ثانی زہرا سلام اللہ علیہا نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی پھر محمد و آل محمد پر درود و سلام بھیجا اور اپنے خطبے کا آغاز آیت سے کیا جس کا ترجمہ ہے۔

’’پھر ان لوگوں کا انجام جنہوں نے برائی کی تھی برا ہی ہوا اس لیے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلایا اور وہ ان کی ہنسی اڑایا کرتے تھے۔‘‘

اور فرمایا کہ اے یزید کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ ہمارے خاندان کو جو خاندانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے تو نے تکلیف میں ڈال دیا ہے زمین و آسمان کو ہمارے لیے تنگ کردیا ہے خارج از اسلام قیدیوں کی طرح شہر بشہر دربدر پھرایا ہے اور ہم کو اس درد ناک حالت میں اپنے دربار میں بلایا ہے۔ کیا تو اس سے یہ گمان کرتا ہے کہ ہم پر ظلم و ستم کرکے تو بارگاہ رب العزت میں صاحب عزت ہے اور ہم اس کی بارگاہ میں ذلیل و خوار ہیں، جس وقت تو نے دیکھا کہ فلاں شخص تیرے خلاف مقابلہ میں ڈٹ گیا تونے اسے قتل کرادیا اور اس کے اہل بیت کو قیدی بنالیا کیا تو اس سے یہ خیال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تیری کوئی قدرو منزلت ہے۔ تکبر و غرور کی ناک بلند کرنے والے اور اپنی خوشی کو بذات خود خوشی کہنے والے اور اس خوشی کو اپنی کامیابی سمجھنے والے کیا تو اپنی مراد کو پہنچ گیا جب کہ تو اچھی طرح جانتا ہے کہ اطیعوا الله واطیعو الرسول واولی الامر منکم کے تحت اس سلطنت کو خداوند عالم نے ہم آل محمد کا حق قرار دیا ہے جس حق کو تو غصب کرکے یہ خیال کرتا ہے کہ تو اللہ کے نزدیک صاحب عزت ہے۔ تھوڑا سا انتظار کر تیری یہ حکومت چند روز سے زیادہ نہیں۔ احمق ہے وہ شخص جو صرف ظاہری اور وقتی خوشی پر جان دیتا ہے اور لائق صد تحسین ہے وہ نیک مرد جو کوئی کام کرنے سے پہلے اس کے انجام پر غور کرتا ہے۔ عنقریب یہ تیرا شاہی غرور اور تخت خلافت موت کے تابوت میں تبدیل ہوجائے گا اور جو کچھ اس حکومت میں تو کررہا ہے اس نے تجھے مغرور بنادیا ہے اور تو عزت کے مفہوم سے واقف ہی نہیں ہے۔ عام لوگ ظاہر بین ہیں عقل نہیں رکھتے تاکہ جان سکیںکہ ظاہری ترقی مقام منزلت کا نام عزت حقیقی نہیں ہے بلکہ عزت حقیقی وہ ہے جو ہمیشہ تیرے ساتھ رہے اور تو عزیز ہو یعنی نہ تو شیطان کا ہم خیال ہو اور نہ ہی تو خواہشات نفسانی کا پیروکار ہو۔

پھر جناب زینب سلام اللہ علیہا نے فرمایا: اے یزید کیا تو گمان کرتا ہے کہ تو ہم آل رسول پر غالب آگیا ہے اور ہمیں اپنے دبائو اور قید میں رکھے ہوئے ہے کیا یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ تو اللہ کو پیارا ہے اور ہم نہیں ہیں کیا تو نے اس آیت کریمہ کو فراموش کردیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ کافر لوگ جن کو ہم نے مہلت دے رکھی ہے۔ ظاہری طور پر کامیابیاں دی ہیں، شان و شوکت دی ہے۔ دولت کی فراوانی دی ہے وہ کافر ان چیزوں کے پیش نظر یہ گمان نہ کریں کہ یہ چیزیں ا نکے لیے کوئی اچھائی ہیں۔

بلکہ یہ تو ان کے لیے ایک مصیبت ہے تاکہ ان کے گناہ اور زیادہ ہوجائیں اور مہلت دینے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ان کا انجام جو ان سے پوشیدہ ہے وہ ان پر ظاہر ہوجائے تاکہ جس قدر وہ اپنی عاقبت کی طاقت رکھتے ہیں۔ اسے ظاہر کریں کیونکہ ان کے لیے عذاب ہے ذلیل کرنے والا۔ دنیا امتحان کا گھر ہے لہذا کسی بھی انسان کی نیک بختی اور بدبختی اس چیز سے ظاہر ہوتی ہے کہ رحمان پرست کون ہے اور شیطان پرست کون ہے۔ ظاہری طور پر جس چیز کو اپنے لیے نعمت سمجھ رہا ہے حقیقت میں اس کے لیے مصیبت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔

پھر فرمایا کہ کیا یہ تیری عدالت ہے کہ تو نے اپنی کنیزوں کو پردہ کے پیچھے سایہ کے نیچے فرش حریر اور دیبا پر بٹھایا ہے اور نبی کی بیٹیوں کو قید کیا ہوا ہے۔ ان کی عزت کو گرا رہا ہے اور ایک دشمن جماعت کو مامور کیا ہوا ہے کہ ان غمزدہ عورتوںکو شہر بشہر گائوں سے گائوں پھراتے اور ہر شہر میں دوست و دشمن، دور اور نزدیک والے نبی کی بیٹیوں کا تماشہ دیکھیں اور اس سخت سفر میں ایک آدمی بھی ایسا ہمارے ساتھ نہ تھا جو ہماری مدد کرتا اور کوئی مرد ایسا نہ تھا جو ہماری فریاد سنتا۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے مزید فرمایا کہ یہ حکومت و دولت تیرے پاس اس لیے نہیں ہے کہ تو کوئی خدا کا منظور نظر ہے بلکہ یہ تو تیرے لیے ایک بہت بڑی مصیبت ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ دوران خلافت تجھ سے کوئی کام ایسا سرزد نہیں ہوا جو ظلم و ستم کے علاوہ ہو اگر تو عدل کرتا تو شاید یہ احتمال پیدا ہوتا کہ یہ حکومت تیرے لیے نعمت ہے لیکن نبی کی بیٹیوں کو قید کرکے در بدر پھرانے سے تیری سنگدلی اور بدبختی یہ ظاہر کرتی ہے کہ تو عادل نہیں ظالم ہے اور یہ ظلم تیرے خلاف بہت بڑی گواہی ہے۔

پھر فرمایا: اے یزید تجھ سے ایسے ہی کامو ںکی توقع کی جاسکتی ہے جو کچھ تو نے کیا ہے تو کہاں اور عدل و انصاف کہاں؟ تو کہاں اور نرمی گفتار کہاں۔ کیا تو انہی لوگوں کا بیٹا نہیں جنہوں نے پاک لوگوں کا جگر اپنے منہ سے چبایا اے یزید تیری ماں ہند ایک جگر کھانے والی عورت ہے جس نے جناب حمزہ کا خون چوسا اور بدن مبارک کا مثلہ کیا اور پھر فرمایا کہ حقیقت تیرے سامنے ہے اور تو اچھی طرح جانتا ہے کہ تو گنہگار ہے اور اس کے باوجود تجھے نہیں پتہ کہ تو اپنے اشعار میں کیا کہہ رہا ہے کہ کاش آج ابو سفیان ہوتے اور دیکھتے کہ میں نے ان کا بدلہ نواسہ رسول سے کیسے لیا ہے۔ اے کاش وہ میرا زمانہ دیکھتے اور شاباش کہتے۔ اے بدبخت تو کن کو آواز دے رہا ہے۔

الغرض کہ جناب زینب سلام اللہ علیہا نے کس قدر جرات و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یزید کو اسی کے دربار میں ذلیل و خوار کردیا اور اپنے بھائی حسین علیہ السلام کی عزت و شرافت کا پرچم بلند کردیا اور فرمایا کہ اے یزید تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا سر تن سے جدا کیا ہے کیونکہ حسین علیہ السلام زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور عزت خد ااور دوستانِ خدا کا مال ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ عزت تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے لیکن منافق لوگ نہیں جانتے۔ اے یزید تو نے اپنا چہرہ خود ہی گناہوں اور مظالم سے سیاہ کیا ہے اور اب بھی کہتا ہے کہ خدا کے نزدیک تیری کوئی عزت ہے۔ یوں اپنے فصیح و بلیغ خطبات سے بنت علی نے یزید کو اس طرح ذلیل و خوار کردیا کہ وہ اپنے دفاع میں کچھ نہ کہہ سکا اور اس کا کوئی بھی حربہ کامیاب نہ ہوسکا۔ اس کی عمر اور حکومت کا عرصہ بہت قلیل تھا کہ وہ اپنا کردار اور عمل لے کر جہنم رسید ہوا جبکہ حکومتِ آل محمد قیامت تک دائمی ہے۔