عظیم صوفی بزرگ بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ

ساجدہ کوثر نعیمی

اسلام ہم تک صوفیائے کرام رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعے پہنچا۔ برِّصغیر میں جن صوفیائے کرام رحمۃ اللہ علیہ کے نام آتے ہیں۔ ان میں چیدہ چیدہ حضرتِ خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ، حضرتِ خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ ،حضرتِ سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ ،داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ ،پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ ، باباسخی شہباز قلندر رحمۃ اللہ علیہ کے نام شامل ہیں انہی ہستیوں میں ایک ہستی بابا فرید گنجِ شکر رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں۔

سلسلہ چشتیہ کی تاریخ میں حضرتِ بابا فرید گنجِ شکر رحمۃ اللہ علیہ کا منفرد مقام ہے۔ حضرتِ خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے دین ِاسلا م کی آبیاری کرتے ہوئے ہندوستان میں اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی۔ حضرتِ خواجہ بختیار ِ کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے دہلی اور اسکے گردو نواح میں اسلام کا بول بالا کیا مگر بابا فرید گنجِ شکر رحمۃ اللہ علیہ نے ان صوفیاء کی جدو جہد کو نیٹ ورک اور استحکا م دیا۔

آپ کی حالاتِ زندگی کا سارا مواد مبہم ہے۔ ہر طرف جنگ و جدل کا ماحول اور انسانیت بکھری ہوئی تھی مگر بابافرید الدین گنجِ شکر بہ بانگِ دہل احیائے دین کیلئے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ہندو ،مسلم ،سکھ،عیسائی سب کو پیغامِ محبت دیا۔ ایک دفعہ ایک عقیدت مند جب تحفے میں قینچی لے کر آیا تو بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ مجھے تحفہ دینا ہے تو سوئی دو میں کاٹنے والا نہیں ہوں بلکہ میں جوڑنے والا ہوں۔ آپ کاسلسلہ ہائے نسب حضرتِ سلطان ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہ سے ہو کر حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔

بارھویں صدی میں زمانہ عجم طوائف الملوکی کا شکار تھا۔ برّ صغیر سونے کی چڑیا تھی اور ہر کوئی اسے اچک لینے کی دھن میں تھا۔ ترکی، ایرانی اور راجپوت سب ہی برّصغیر پرحملہ آور نظر آتے تھے۔ ہر کوئی اس سونے کی چڑیا کو شکار کرنے کی فکر میں مارامارا پھرتا تھا۔

تاریخ کی ورق گردانی کرتے وقت ایک خاندان جس کا وڈیرہ قاضی شعیب کابل سے ہجرت کر کے لاہور آکر آباد ہوا اور پھر وقت کا دھارا اس خاندان کو قصور لے آیا۔ جہاں قصور کے قا ضی صاحب اپنا اثر رسوخ استعمال کر کے قا ضی شعیب صاحب کو کھتوال(ملتان کے قریب ایک شہر) میں قاضی کے عہدے پر ملازمت دلوا دی چنانچہ قاضی شعیب اپنے کنبے کے ہمراہ کھتوال ہجرت کر آئے اور پھر کسی مکان کی بنیاد کی اینٹ کی طرح وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں ۔

قاضی شعیب کے بڑے بیٹے کا نام جمال الدین سلیمان تھا جنکی شادی وہاں کے ایک معمرّ خاندان میں شیخ وجیہ الدین افجندی کی صاحبزادی قرسم بی بی رحمۃ اللہ علیہا سے ہو گئی۔ جن سے تین بیٹے تولد ہوئے۔ جن میں سب سے بڑے بیٹے عزیز الدین، دوسرے فریدالدین اور سب سے چھوٹے نجیب الدین تھے جن میں درمیانے بیٹے بابا فرید گنجِ شکر کے نام سے مشہور ہوئے۔

حضرتِ بابا فرید گنجِ شکر کے لیے ولایت کی پہلی سیڑھی آپ کی اپنی والدہ تھیں۔ جو بڑی مستجاب ا لدعوات اور پارسا خاتون تھیں۔ اپنی والدہ کی زیرِ نگرانی آپ رحمۃ اللہ علیہ نے توکل اور محبتِ الہٰی کی منزلیں طے کیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ کی پارسائی کا یہ عالم تھا کہ ایک رات آپ رحمۃ اللہ علیہ کے گھر میں چور گھس آئے۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ گھر میں گھستے ہی چوروں کے سردار کی آنکھوں کی بینا ئی جاتی رہی۔ یہ عذاب دیکھ کر چوروں کا ٹولہ سہم گیا۔ توبہ تائب کی۔ منت سماجت پر ان کے سردار کی آنکھوں کی بینائی واپس آگئی۔ انہوں نے تقدس اور پارسائی کا جو نور بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ کے چہرے پردیکھا اس سے چوروں کا گروہ اتنا متاثر ہواکہ وہیں بی بی جی کے سامنے تائب ہوا۔ اپنے گناہوں سے توبہ کی اور بقیہ زندگی دیانت داری میں گزار دی۔

اس برگزیدہ بندی کے زیرِتربیت با با فرید گنجِ شکر کی زندگی کا ایک واقعہ ہے کہ والدہ نے اپنے بیٹے کو صوم و صلوات کا پابند بنانے کا ایک طریقہ سوچا۔ کم سنی میں آپ کو شکر بہت پسند تھی۔ والدہ نے اس عادت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر روز مصّلے کے ایک کونے کے نیچے ایک شکر کی پڑیا رکھ دیتیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ جب نماز سے فارغ ہوتے تو والدہ مصّلے کا وہ کونا جہاں والدہ نے پڑیا رکھی ہوتی وہ اٹھاتیں اورشکر کی پڑیا بیٹے کو تھماتے وقت بیٹے سے یہ کہتیں ۔ فرید یہ پڑیا اللہ نے تمہیںنماز پڑھنے پر عطا کی ہے۔ ایک مدت تک یہ معمول رہا ۔ ایک دن خدا کا کرنا یہ ہواکہ والدہ مصّلے کے نیچے پڑیا رکھنا بھول گئیںاور کسی کام سے محلے میں نکل گئیں۔ عین نماز کے وقت یاد آیاکہ پڑیا تو مصّلے کے نیچے رکھی نہیں۔ چار و نچار بھاگتی جو گھر پہنچیں اور دل میں یہ دعا کی کہ اے مالک فرید کو تیری نماز کا عادی بنانے کا طریقہ سوچا ہے اس پر میرا بھرم رکھنا۔ ادھر بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ حسبِ معمول نماز سے فراغت پا کر مصّلے کا کونا جو اٹھایا تو پڑیا وہاں مو جود تھی اور اس شکر کا ذائقہ کچھ الگ سی مٹھاس لیے ہوئئے تھا۔ جس کا تذکرہ جب بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ نے ماں سے کیا کہ روز شکر ملتی ہے لیکن آج کی شکر کی پڑیا کا ذائقہ شیرینی میں جدا تھا یہ سن کر ماں کی آنکھوں سے احساسِ تشکر میں آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور یوں بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ گنجِ شکر کے لقب سے مشہور ہوگئے۔ کم سنی سے ہی عبادت کا یہ عالم تھا کہ اجودھن کتابوں میں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ مسجد کے باہر ایک کونے میںآپ رحمۃ اللہ علیہ زیادہ وقت مصروفِ عبادت رہتے۔ کچھ ہی عرصے میںکھتوال اور اجودھن کے قرب و جوار میں آپ کے زہدو ریاضت کا چرچہ ہونے لگا۔ خدا کا کرنا یہ ہواکہ اس وقت کے معروفِ زمانہ علم و حکمت کے منبعِ رشدو ہدایت صوفی جلال الدین تبریزی کا اجودھن سے گزر ہوا۔ اللہ والوں کی اپنی ایک الگ دنیا ہوتی ہے جس میں سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ بزرگوار نے لوگوں سے دریافت کیا کہ اس قصبے میں کوئی اللہ کا ولی ہے۔ تو لوگوں نے نفی میں جواب دیا ۔ اتنا کہا کہ اللہ کا ولی تو کوئی نہیں۔ ایک قاضی کا بچہ فرید رحمۃ اللہ علیہ جو مسجد کے باہر کونے میں ہمہ وقت ہوحق اور صوم و صلوات میں ڈوبا رہتا ہے۔ جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ اسے دیکھنے گئے۔ راستے میں کسی عقیدت مند نے ایک انا ر تحفے میں دیاجو اس صوفی رحمۃ اللہ علیہ نے بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ کو پیش کیا جسے یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیا کہ میرا روزہ ہے۔ اس صوفی رحمۃ اللہ علیہ نے وہ انار توڑکر بچوں میں تقسیم کر دیا۔ افطاری کے وقت اسی انار کا ایک دانہ زمین پر پڑا ملاجس سے بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ نے روزہ افطار کیا اس دا نے کو کھاتے ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی دنیا ہی بدل گئی پھر بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں سے بھی فیض ملااپنی بساط سے بڑھ کر سمیٹا، مخزنِ فیض کے ایک برّاعظم سے نکلتے تو دوسرے میں پہنچ جائے کہنے کو تو بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ کھتوال میں تھے لیکن ریاضتوں اورمجاہدوں نے انہیں قرب و جوار کے شہروں اور قصبوں میں پہنچا دیا کہ اس دور کے مشہور بزرگ حضرتِ بہاؤالدین زکریا ملتانی بھی آپ کو ملنے کے متمّنی ہوئے۔ اس کے باوجود عاجزی کا دامن بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ نے کبھی نہ چھو ڑا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ حضرتِ خواجہ بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ تلمّذ میں رہے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں کھتوال سے نکل کر ملتان آ گئے۔ وہاں حضرتِ مولانا منہاج ترمزی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقہ تلامذہ رہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ہر رات ایک قرآن ختم کرتے۔ ایک مرتبہ قدرت مائل بہ کرم تھی۔ بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ مسجد کے صحن میں بیٹھے کتابِ نافع کا مطالعہ کر رہے تھے کہ ایک درویش آپ کے پاس آئے اور پوچھا کیا پڑھ رہے ہو۔ کہا حضور پڑھ رہا ہوں ۔ درویش نے مسکرا کر پوچھا کیا کتاب تمہیں کوئی نفع دے گی، سوال عطائی تھا۔ بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ نے بھی دامنِ گدائی دراز کیا کہا کہ اس سے نہیں آپ کی نظرِ کرم اور فیض قدمی سے نفع ہو گا پھر بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ نے تھوڑ ی ہمت کرکے اپنی مشکلات پیش کیں۔ جس کا درویش نے چشمِ زدن میں ان کا حل پیش کر دیافرطِ اشتیاق میں بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ نے کہا حضور آپ کا اسمِ گرامی کیا ہے؟ تو دریش نے کہا میں قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ ہوں۔ پوچھا کہاں کا قصد ہے۔ درویش نے جواب دیا۔ دہلی جا رہا ہوں۔ اس پر حضرت بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: اب یہ فرید رحمۃ اللہ علیہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا ہوا اور یوں حضرتِ بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ حضرتِ خواجہ بختیارِ کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید ہوئے جو خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی غلامی میں تھے۔

اور پھر اس شیخِ کامل نے اپنی تربیت میں ریاضت کا ایک چلہ جسے معرفت کی زبان میں چلہ معکو س کہتے ہیں وہ کروایا۔ اس کے بعد پھر عبادت کی چاشنی بڑھ گئی۔ جو آپ رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کا حصہ بن گئی۔ بعض روایت میں آتا ہے کہ سار ی عمر روزہ رکھتے رہے۔ بعض دفعہ یوں بھی ہوا کہ وقت افطار کھانے کو کچھ نہ ملا اور اسی میں رات بیتی کہ وقتِ سحری بھی اسی حالت میں اگلے دن کا روزہ رکھ لیا۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ریاضت کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ آپ کے دادا پیرسلطان الہند حضرتِ خواجہ معین الّدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے حضرتِ وحید الّدین اجمیر سے پیدل چل کے پاکپتن بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضرہوئے۔ اورحلقہ مریداں میں شامل ہونے کیلیے بیعت کی گزارش کی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کی۔ حضور رحمۃ اللہ علیہ میں تو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے گھر سے ایک ذرہ مانگ کے لایا ہوں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے گھر کا سوالی آپ رحمۃ اللہ علیہ کو کیسے اپنا مرید کر سکتا ہے۔ یہ سن کر حضرتِ وحید الّدین رحمۃ اللہ علیہ قدمو ں میں گِر گئے۔ نہائت عاجزی سے کہا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سوا اور کوئی نظر نہیں آتا جس کے حلقہ مریداں میں جاؤں۔ میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کو نہیں چھوڑ سکتا۔

بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ کی ساری زندگی نیاز مندی میں گزری۔ ہمیشہ نا مساعد حالات کے نرغے میں رہے مگر اس کے باوجود آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ساری زندگی فقر میں گزاری۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ حکامِ وقت کی آنکھوں میںکانٹے کی طرح کھٹکتے رہے۔ شعبان المعظم 663 ہجری بمطابق مئی 1265ء بیماری نے آ گھیرا۔ شدید عارضے میں بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ نماز با جماعت ادا کرتے رہے انہی ساعتوں میں محرم کا چاند نظر آ گیا۔ 5 محرم الحرام 664 ہجری بمطابق17 اکتوبر 1265ء سجدے کے عالم میںیاحی و یا قیوم کا ورد کرتے کرتے اپنے تسلیمِ جاں کے باب سے گزر کر آپ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

حوالہ جات

  1. فیضانِ با با فرید گنجِ شکر رحمۃ اللہ علیہ
  2. سیرِاولیاء مترّجم
  3. انوارِ فرید رحمۃ اللہ علیہ
  4. اقتباساتِ انوار

تذکرہ اولیائے پاکستان