مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ (سسٹرز یوم تاسیس)

اقراء یوسف جامی (صدر ایم ایس ایم سسٹرز پاکستان)

کسی بھی قوم کی نشوونما، فلاح، اصلاح اور بقاء کا اندازہ لگانا ہو تو سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ قوم، معاشرہ اور وہ ریاست، تعلیم اور طلباء کو کتنی اہمیت اور وقعت دیتی ہے۔ تحاریک انقلاب اس بات کی شاہد ہیں کہ وہ ہی تحریک انقلاب کی منزل تک پہنچی جن کی تحریک کی اصل روح طلباء تھے۔ تحریک پاکستان میں طلباء کا کردار اس کی زندہ و جاوید مثال ہے۔ قیامِ پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ طلباء کا کردار ہر اول دستے کا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ قائداعظم ہمیشہ طلباء سے بہت پیار کرتے تھے۔

تحریک منہاج القرآن کا یہ خصوصی اعزاز رہا ہے کہ اس تحریک اور قائد تحریک نے اپنی نظر یہ اور فکر کا محافظ و وارث اپنی طلباء تنظیم کو بنایا۔ بانی و سرپرست تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں۔

’’ہر معاشرے میں طلباء قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں، اور طلباء ہی تحریکوں کی زندگی کا ہر اول دستہ ہیں‘‘۔

’’ اس عظیم تحریک میں بالعموم طلباء اور بالخصوص مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ ہماری تحریک کا نیوکلیئس ہیں‘‘۔

’’انقلاب کی راہ کا ہر اول دستہ ہیں۔ ہماری تحریک کا سرمایہ ہیں۔ ہمارا سہرا ہیں، قابلِ فخر اثاثہ ہیں۔ یہ اس تحریک کا ناز ہیں۔

عصر حاضر میں طلباء جس تیزی سے ملحدانہ افکار کی جانب بڑھ رہے ہیں ایسے میں انہی طلباء تنظیموں کا کردار نہایت اہم ہے جو متوازن افکار کو پروان چڑھا رہی ہوں۔

مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، طالبانِ علم کی تحریک ہے اور حیاتِ انسانی بھی دو ہی پہلووں پر استوار ہے۔ ایک علم، اور دوسرا عمل۔ علم بنیاد ہے تو عمل اس بنیاد کی تعمیر، علم درخت ہے تو عمل اس کا پھل ہے۔علم ایک ایسا نور ہے جو ذہن کو روشن کرتا ہے، دل کو روشن کرتا ہے، دماغ کو روشنی سے منور کرتا ہے۔حقیقی طور پر طالبانِ علم کہا طلاب کو جاتا ہے جو علم کا یہ نور خود میں اتار چکے ہوں، جو سر تا پا اس نورِ حقیقی میں ڈھل چکے ہوں جو ما سوائے علم کے کہیں اور سے حاصل نہیں ہوتا۔اور اگر آپ طالبانِ علم یا طلباء کے لقب کے میعار پر پورا اترنے والوں سے ملنا چاہیں تو وہ ہمیں مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کی صورت میں نظر آتے ہیں۔

یہی نوجوان نسل معاشرے کی وہ بنیاد ہے، جو اپنے پختہ کردار سے اور عزم و فکر سے معاشرے کی تعمیر و اصلاح کا بہڑہ سر پر اٹھائے کٹھن راستوں کے مسافر ہیں۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آپ نے کسی بھی تحریک کے بنیادی مقاصد کا اندازہ لگانا ہو تو سب سے پہلے دیکھئے کہ اس جماعت و تحریک کا بانی و سرپرست اپنے طلباء اور نوجوان نسل کو کس راہ کی تاکید کرتا ہے۔ اور خوش قسمتی سے جیسے بانی و سرپرست تحریکِ منہاج القرآن اور مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کو میسر ہے دنیا میں کسی اور طلباء تنظیم کو حاصل نہیں،یہ ان کی نصیحت اور ان کا کردار ہی ہے کہ آج کی نوجوان نسل اپنے کردار سے آگاہ ہے۔

مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ: فکری انقلاب کی پیامبر

آج ریاستِ پاکستان اور ہمارا معاشرہ فکری پستیوں کو چھو رہا ہے۔ مگر یہ اعزاز مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کو حاصل ہے کہ وہ اپنے قائد کے توسط سے فکری انقلاب کی طرف گامزن ہیں۔ اس وقت دین بچانے کے لئے بھی اک انقلاب کی ضرورت ہے۔ آج ایمان، عقیدہ اور اس معاشرے کی نوجوان نسل کو بچانا وقت کی آواز ہے۔ دین سے قائم تعلق کوبچانے کے لئے انقلاب کی ضرورت ہے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ تعلق و نسبت کوبچانا ہے۔قرآن جو چشمہ ہدایت ہے اس کے ساتھ اپنا تعلق استوار کر کے اسے بچانے کی ضرورت ہے۔

قائدِ انقلاب اسی سلسلے میں مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے شاہینوں اور ابابیلوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ایسی سوسائٹی جہاں چاروں اطراف سے جہالت، ظلمت اور تاریکی کی جنگ لڑی اور پھیلائی جا رہی ہے۔ اس ماحول میں مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے طلباء علم و ہدایت اور محبت و الفت کی شمعیں لے کر نکلیں، اگر آپ کی شمع اس ظلم و جہالت کی تاریکی کو شکست دے دے تو آج کے ماحول میں اس سے پاکستان میں بڑا انقلاب کیا ہوگا؟ اس تحریک کا راستہ دشوار راستہ ہے۔ دشوار اس لئے ہے کہ ہمارے اندر سرے سے انتہا پسندی کا بیج ہی نہیں ہے۔ نہ ہم مذہبی انتہا پسند ہیں اور نہ ہی ملحدانہ افکار رکھتے ہیں۔ ہم Moderate (الوسطیہ) ہیں۔ توسط و اعتدال کے حامل ہیں۔ جہاں سوسائٹی دو سمتوں سے مذہبی اور لادینی انتہا پسندی کی چکی میں پِس رہی ہو وہاں اپنی توازن و اعتدال پر مبنی سوچوں کے ساتھ زندہ رہنا اور اس کو فروغ دینا بذاتِ خود بہت بڑا جہاد ہے اور یہ پیغمبرانہ کام ہے۔ اور انہیں حالات میں پیغمبرانِ کرام ہمیشہ اعتدال اور Tolerance کا پیغام لے کر آتے ہیں‘‘۔

مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ روایت و جدت کی امین

بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص پاکستان میں طلباء تنظیموں کا مطالعہ کیا جائے تو کسی ایک نقطہ پر چلتی نظر آتی ہیںیا تو وہ تحاریک بالکل ہی دنیاوی مقاصد کے لئے کام کر رہی ہوتی ہے اور طلباء کو دنیاوی فائدے کی باتوں اور تعلیمات سے روشناس کرواتی ہیںیا پھر ان کا رحجان باقی سب حقیقتوں سے کٹ کر بس مذہب ہی ہوتاہے۔ اِن کا کام یک نکاتی ایجنڈا ہوتا ہے۔ وہ دنیا ہو یا پھر مذہب،باقی سب کچھ دماغ سے نکال دیا جاتا ہے اور یہ بھی بڑا آسان کام ہے یا دماغ کو نفس سے الگ کر دیا جاتا ہے جو فیصلہ دماغ کرے وہی قابلِ قبول ہے اور دماغ اور نفس کو یہ بات بھلی لگتی ہے کیونکہ یہ چیز آفاقی دین کی تعلیمات کے منافی ہے۔ اسی پہلو پر بات کرتے ہوئے قائدِ انقلاب فرماتے ہیں:

’’آج بھی ایک طرف Religious Extremism اور دوسری طرف Secular Extremism ہے اور ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہم Traditional Rationalism کے حامل ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہم ایک طرف قرآن و سنت کی بنیاد اور روشنی میں قائم روایت کے حامل ہیں اور صحابہ کرام اہلِ بیت و اطہار، آئمہ کرام تابعین، اولیاء، محدثین اور صالحین کی روایت کے امین ہیں اور دوسری طرف ماضی میں کھوئے رہنے والے نہیں بلکہ ماضی کو حال سے اور حال کو مستقبل سے ملانے کی تجدید یعنی جدت کے امین ہیں پس ہم قدامت اور جدت کو جوڑ کر چلنے والے ہیں۔

یاد رکھیں! ہم جامد قدامت پر یقین نہیں رکھتے۔ بلکہ ہم متحرک Traditionalism میں یقین کرتے ہیں۔جس میں ہمیشہ تحرک اور تسلسل رہا ہو۔ ہر تسلسل اس کے اندر جدت پیدا کر دیتا ہے یعنی ایک صدی کا روایتی ورثہ جب اگلی صدی میں منتقل ہوتا ہے تو وہ اس کی تجدید ہو جاتی ہے۔ ہماری جدت ہمارے قدامت کے اندر ہی ہے۔ ہم نے قدامت اور جدت میں اعتدال پیدا کیا ہے۔

ہم ایسے زمانے میں ہیں جو گلوبلائزیشن کا دور ہے۔ اس گلوبلائزیشن کے دور میں Developments جہاں Positive values کی شکل میں رونما ہوتی ہیں وہاں اس کی خامیاں اور نقصانات بھی ہیں۔ گلوبلائزیشن کے نتیجے میں ہر اچھی بری شے آرہی ہے۔

براہ راست کسی نہ کسی صورت میں اس کا ہم پر اثر ہو رہا ہے۔ ہم دنیا سے الگ تھلگ نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ گلوبلائزیشن کا دور ہے نہ کہ Isolation کا۔

روحانیت اور جدید علوم کے حاملین

مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ اپنے رفقاء اور طلباء کو جدت کی راہ دکھانے کے بعد انہیں مادیت پرستی اور روحانیت سے دور نہیں کرتی بلکہ جیسے یہ موومنٹ جدت و روایت کی امیں ہے اسی طرح روحانی اور جدید علوم کی تربیت گاہ بھی ہے۔ یہ اس تحریک اور قائدِ تحریک کا فیضان ہی ہے کہ ہم سائنس و ٹیکنالوجی اور آج کی ساری جدیدیت کو قرآن و سنت کی مرہونِ منت مانتے ہیں۔یہ طلباء تنظیم بیک وقت Religious Spiritiuality کو بھی ساتھ لے کر چلتی ہے اور جدید علوم کو بھی جو قوم سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جائے وہ ختم ہوجایا کرتی ہے اسی طرح جو نوجوان سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جائیں وہ اک تابناک مستقبل کے امیں نہیں ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اسی تناظر میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’دین کو مادیت کے تناظر میں نہیں بلکہ دین کے تناظر میں دیکھنا ہے۔ وہ دین جو آقا علیہ السلام، اہلِ بیت اطہار، صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین اور اولیاء و صالحین نے ہمیں منتقل کیا اسے بھی ساتھ رکھنا ہے اور Scientific, Technological اورPhilosophical Developments کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے اور یہ بھی ہمارے دین اور ہمارے Concept کاحصہ ہے۔ فلاسفی سے مراد صرف ایک سبجیکٹ نہیں ہے بلکہ سوشل فلاسفی، سوشیالوجی، اکنامک اور پولیٹیکل فلاسفی بھی ہے۔

ان تمام سوشل سائنسز کی سوسائٹی میں اکنامک، گلوبل اور سوشل عوامل کے ساتھ جو بھی ڈویلپمنٹس ہورہی ہیں ہم نے ان تمام چیزوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔

ماہِ اکتوبر میں مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ ہر سال اپنا یومِ تاسیس مناتی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ اس تحریک کی جائیداد و وراثت علم اور تحقیق ہے۔ علم اور تحقیق کے وارث طلباء ہی ہوا کرتے ہیں۔ ہم اس تحریک کے وارث ہر سال کی طرح امسال بھی ہم اپنے قائد کی عزم و مقصد سے دوبارہ عہدِ وفا باندھتے ہیں۔ ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں کہ:

اے ہمارے قائد!

پاکستان کو قائدِ اعظم اور آپ کے خوابوں کی تعبیر بنائیں گے۔ ایسی تعبیر جہاں ہر نوجوان باکردار اور با عمل ہوگا۔ جہاں آپ کا ہر بیٹا اور بیٹی با حیا اور با وفا ٹھہری گی۔ جہاں ہر دم حسین علیہ السلام اور حسینیت کا پرچار ہوگا۔

ہم ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کا عہد کرتے ہیں جو نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عملی نمونہ ہوگا۔ ہم اللہ و تبارک و تعالیٰ کے ہاں شکر گزار ہیں جس نے آج کے اس یزیدیت بھرے دور میں ہمیں حسینی پرچم تلے جمع کیا۔

اس خرابے کی تاریخ کچھ بھی سہی
رات ڈھلنی تو ہے، رت بدلنی تو ہے

خیمہ خاک سے روشنی کی سواری
نکلنی تو ہے رت بدلنی تو ہے

کیا ہوا جو ہوائیں نہیں مہرباں،
اک تغیر پہ آباد ہے یہ جہاں

بزم آغاز ہونے سے پہلے یہاں
شمع جلنی تو ہے، رت بدلنی تو ہے

ابر کے سلسلے، اور پیاسی زمیں
آگ بجھتی ہے پانی سے سورج نہیں

کہساروں پہ جمی ہوئی برف اک دن
پگھلنی تو ہے، رت بدلنی تو ہے

(سلیم کوثر)