احوال و مقاماتِ صوفیاء (مقامِ فقر)

بتول مشتاق

اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے حساب کمالات اور اوصاف سے نوازا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی کسی خوبی پر فخر نہیں کیا صدق پر نہ عدل پر، تقویٰ پر نہ صبر پر سخاوت پر نہ شجاعت پر، توکل پر نہ فصاحت و بلاغت پر حسن پر نہ صادق اور امین پر اور نہ ہی نسب حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’میں اللہ کا حبیب ہوں لیکن اس پر فخر نہیں‘‘۔

(مشکوة المصابیح)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فخر فرمایا تو صرف اس شان پر کہ ’’الفقر فخری‘‘۔ فقر میرا فخر ہے۔

فقر مقامات و احوال صوفیاء میں سے چوتھا مقام ہے اور اس تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے تین مقامات پر عمل کیا جائے ان میں سے پہلا مقام توبہ دوسرا ورع اور تیسرا زہد ہے جو اس سے قبل بیان کیے جاچکے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فقراء کی عظمت بیان کرتے ہوئے قرآن پاک میں فرماتا ہے:

لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحصِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ.

’’(خیرات) ان فقراء کا حق ہے جو اﷲ کی راہ میں (کسبِ معاش سے) روک دیے گئے ہیں وہ (امورِ دین میں ہمہ وقت مشغول رہنے کے باعث) زمین میں چل پھر بھی نہیں سکتے ان کے (زُھداً) طمع سے باز رہنے کے باعث نادان (جو ان کے حال سے بے خبر ہے) انہیں مالدار سمجھے ہوئے ہے، تم انہیں ان کی صورت سے پہچان لو گے، وہ لوگوں سے بالکل سوال ہی نہیں کرتے کہ کہیں (مخلوق کے سامنے) گڑگڑانا نہ پڑے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو تو بے شک اﷲ اسے خوب جانتا ہے‘‘۔

(البقره، 2: 273)

ححضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

یدخل الفقراء الجنة قبل الاغنیاء بخمس مائة عام نصف یوم.

’’فقراء مال دار لوگوں سے پانچ سو سال (یعنی قیامت کا) نصف دن پہلے جنت میں داخل ہوں گے‘‘۔

(ترمذی، 2353)

فقراء کے فضائل

فقراء اللہ کے بندوں میں سے چنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں اور اس کی مخلوق کے درمیان اسرار و رموز کا محل ہوتے ہیں۔ اللہ ان کی وجہ سے مخلوق کی حفاظت فرماتا ہے اور ان کی برکتو ںکے باعث ان پر رزق کشادہ کرتا ہے۔

فقراء وہ صبر کرنے والے ہیں جو قیامت کے دن اللہ کے ہم نشین ہوں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لکل شیء مفتاح ومفتاح الجنة حب المساکین والفقراء الصبرهم جلساء الله یوم القیامة.

’’ہر چیز کی چابی ہے اور جنت کی چابی مسکین لوگوں سے محبت کرنا ہے اور صبر کرنے والے فقراء قیامت کے دن اللہ کے ہم نشین ہوں گے‘‘۔

(کنزالعمال، 16587)

اس سے بڑھ کر فقراء کی فضیلت اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ قیامت کے روز اللہ کے ہم نشین ہوں گے۔

حضرت معاذ نسفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: لوگ جو بھی عمل کریں گے اللہ ان کو ہلاک نہیں کرے گا جب تک وہ فقراء کی توہین نہیں کریں اللہ ان کو ذلیل نہ کرے گا۔

اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت کے ہاں فقراء کا مقام و مرتبہ کتنا بلند ہے اور اللہ ان کی عزت کرنے والوں کو نوازنا ہے اور ان کی توہین کرنے والوں کو ہلاک کردیتا ہے۔ فقر کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’ایک مومن فقر کو اس خوبصورت لگام سے بھی زیادہ سجاتا ہے جو گھوڑے کے چہرے پہ ہوتی ہے‘‘۔

(طبرانی شریف)

فقر سے متعلق اقوال

حضرت ابراہیم بن قصار فرماتے ہیں: فقر ایک لباس ہے جب بندہ حقیقتاً اس میں داخل ہوجائے تو اس سے رضا پیدا ہوتی ہے۔

حضرت حمدون قصار فرماتے ہیں: جب ابلیس کا لشکر اکٹھا ہوتا ہے تو وہ کسی بات پر اس قدر خوش نہیں ہوتے جس قدر ان تین باتوں پر خوش ہوتے ہیں:

  1. کوئی مومن کسی مومن کو قتل کرے۔
  2. کوئی شخص کفر پر مرے۔
  3. ایسا دل جس میں محتاجی (فقر) کا خوف ہے۔

حضرت جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رویم سے فقیر کی تعریف کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:

’’نفس کو احکام الہٰیہ میں چھوڑ دینا‘‘۔

یعنی اللہ کے حکم کے آگے نفس کو زیر کردینا اور اللہ کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کردینا۔

فقیر کی صفات

فقیر کی تین صفات ہیں

  1. اللہ کے رازوں کی حفاظت کرنا۔
  2. اس کی طرف سے عائد فرائض کی ادائیگی کرنا۔
  3. اپنے فقر کی حفاظت کرنا۔

حضرت ذوالنون مصری فرماتے ہیں اللہ کے بندے پر ناراضگی کی علامت اس کا فقر سے ڈرنا ہے۔

اور حضرت بشر بن حارث حافی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’سب سے افضل مقام یہ ہے کہ بندہ قبر تک فقر پر صبر کرنے کا عزم کرے۔‘‘

حضرت ابو حفص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: بندہ اپنے مولیٰ تک پہنچنے کے لیے سب سے بہترین وسیلہ جو اختیار کرتا ہے وہ ہر حالت میں ’’فقر‘‘ کو دائمی طور پر اختیار کرنا ہے نیز تمام کاموں میں ’’سنت‘‘ کو اختیار کرے اور حلال طریقے سے ’’رزق‘‘ تلاش کرے۔

حضرت ابوالحسین نوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’فقیر کی صفت یہ ہے کہ اس کے پاس کچھ نہ ہو تو اسے سکون ملے اور جب کچھ ہو تو وہ ایثار کرے‘‘۔

حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس فقر اور غنا کے بارے میں تذکرہ چھڑا تو انہوں نے فرمایا: قیامت کے دن نہ فقر کا وزن ہوگا نہ غنا کا بلکہ صبر اور شکر کا وزن ہوگا پس کہا جائے گا کہ اس نے شکر ادا کیا، اس نے صبر کیا۔

حضرت محمد بن علی کتانی فرماتے ہیں: مکہ مکرمہ میں ہمارے پاس ایک نوجوان تھا جس نے پرانا لباس پہنا ہوتا تھا اور وہ ہم سے میل جول نہیں رکھتا تھا۔ میرے دل میں اس کی محبت و تعظیم پیدا ہوگئی اور مجھے حلال طریقے سے دو سو درہم حاصل ہوئے جن کو میں اس کے پاس لے گیا اور اس کی جائے نماز پر رکھ دیے میں نے اس سے کہا یہ درہم مجھے حلال طریقے سے ملے ہیں تم ان کو اپنے کسی کام میں خرچ کرو۔ اس نے مجھے غضب ناک نگاہ کے ساتھ دیکھا پھر اس نے وہ بات ظاہر کی جو مجھ سے چھپا رہا تھا اور کہا کہ میں نے اللہ کے ساتھ اس مجلس کو فراغت کے ساتھ ستر ہزار دینار کے بدلے خریدار ہے۔ (یعنی میں اپنا سارا مال اس کی راہ میں قربان کرکے اس تک پہنچتا ہوں) جاگیر اور غلہ اس کے علاوہ ہے تو آپ نے مجھے چند درہموں کے ذریعے اس سے دھوکہ دینا چاہتے ہیں اس نے اٹھ کر ان کو بکھیر دیا اور وہاں سے چلا گیا۔ غرض فقراء دنیاوی حرص ولالچ سے بے نیاز صرف اللہ کی رضا میں راضی ہوتے ہیں۔